گورنر انتظامیہ کی طرف سے 2010کے بعد تعینات ہوئے عارضی ملازمین بشمول کنٹریکچول، ایڈہاک،ڈیلی ویجروںاور کیجول ورکروں کے متعلق حکمنامہ جاری ہونے کے بعدپچھلے کئی برسوں سے معمولی سی تنخواہوں پر سرکاری خدمات انجام دینے والے ان ملازمین میں غیر یقینیت کی صورتحال پیدا ہوئی ہے اور انہوں نے حکمنامہ واپس نہ لینے پر شدید احتجاج کا انتباہ دیاہے جبکہ اس فیصلے کے رد عمل میں سیاسی جماعتوں نے بھی برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملازمین کے ساتھ ناانصافی قرار دیاہے ۔واضح رہے کہ جنرل ایڈمنسٹریشن ڈیپارٹمنٹ کی طرف سے پچھلے ہفتے یہ حکمنامہ جاری کیاگیاتھاکہ 2010کے بعدلگائے گئے جن عارضی ملازمین کی بھرتیاں قواعد و ضوابط کے مطابق نہیں ہوئی ہوںاور پھر 2015کے بعد تعینات ہونے والے وہ تمام ملازمین برطرف کئے جائیں جن کی بھرتی کی منظوری محکمہ خزانہ اور وزیر اعلیٰ سے نہ لی گئی ہو ۔اس فیصلے کے جاری ہوتے ہی عارضی ملازمین میں شدید بے چینی پیدا ہوئی اور جہاں دیگر محکمہ جات کے ملازمین احتجاج کا انتباہ دے رہے ہیں وہیں محکمہ پی ایچ ای کے عارضی ملازم سراپا احتجاج ہیں ۔ اگر چہ یہ واضح کیا گیا ہے کہ یہ کوئی نیا حکمنامہ نہیں بلکہ وقت وقت پر جاری کئے گئے پرانے احکامات کی تجدیداور توثیق ہے، جنکے تحت متعلقہ حکام کو بھرتیوں کا جائزہ لینے کے لئے کہا گیا ہے کہ کہیں ایسی بھرتیاں عمل میں نہ لائی گئی ہوں جنہیں محکمہ خزانہ اور وزیراعلیٰ کے دفتر سے منظوری نہ ملی ہو۔قانونی لحاظ سے یہ حکمنامہ درست ہوسکتاہے اوریہ شکایات غلط بھی نہیں ہوسکتی کہ ان میں سے کئی ملازمین کی تعیناتیاں سیاسی بنیادوں پر ہوئی ہیں جیساکہ جی اے ڈی کے حکمنامہ میں بتایاگیاہے لیکن اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں کہ بیشتر ملازم محکمہ جات نے اپنی ضروریات پور اکرنے کیلئے لگائے اور ان سے کئی کئی سال معمولی سی اجرت پر اس یقین دہانی پر کام کروایاگیاکہ انہیں مستقل ملازمت فراہم کی جائے گی ۔ان ملازمین میں سے زیادہ تر غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال اسی آس پر وقف کردیئے کہ ایک نہ ایک دن انہیں بھی مستقل ملازمت کے دائرے میں لایاجائے گالیکن اس معاملے کو انسانی بنیادوں پر حل کرنے کے بجائے ایسے اقدامات کئے جارہے ہیں جس سے نہ صرف ہزاروں غریب گھرانوں کی روزی روٹی چھن جانے کا خطرہ پیدا ہوا ہے بلکہ بے روزگاری میں مزید اضافہ بھی یقینی ہے ۔ ریاست میں وقت بروقت قائم ہونے والی حکومتوں کے دورانیہ میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کو عارضی بنیادوں پر ملازمت فراہم کی گئی اور جب یہ تعداد60ہزار سے بھی تجاو ز کرگئی تو تب جاکر حکومت کو ان کے مستقبل کی فکر ہوئی اور سابق مخلوط حکومت کے دور میں ان ورکروں کیلئے پالیسی مرتب کرنے کا اعلان ہوا اوراس حوالے سے ایک ایس آر او بھی جاری کیاگیا مگر بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں ان کی تقرریوں کے حوالے سےایک دوسرے پر الزام لگاتی رہی ہیں اور اب گورنر انتظامیہ نے انہیں ملازمت سے ہی برطرف کرنے کا تہیہ کرلیاہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست میں نجی شعبے میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں اور ہر ایک کی نظر سرکاری شعبے پر ہی ہوتی ہے لیکن اگر کئی کئی برس کام کرنے کے بعد سرکارکی طرف سے بھی ناانصافی ہوگی تو یہ اتنی بڑی فورس کہاں جائے گی ۔آئندہ کیلئے عارضی ملازمت پر روک لگائی جانی چاہئے جس سے نہ صرف تعلیم یافتہ اور اہل نوجوانوں کیلئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے بلکہ عارضی ملازمت کرنے والوں کے ساتھ بھی استحصال نہیں ہوگا لیکن آج تک ہوئی تعیناتیوں کو کالعدم قرار دینے کے بجائے ان نوجوانوں کامستقبل خوشحال بنانے کے اقدامات کئے جائیں جو اپنی جوانی سرکاری خدمت میں گزار چکے ہیں ۔امید کی جانی چاہئے کہ ہزاروں کنبوں کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے گورنر انتظامیہ ا س حکمنامہ پر نظرثانی کرے گی اور عارضی ملازمین کی مستقل ملازمت کیلئے کوئی پالیسی مرتب کی جائے گی ۔