خان زاہد
اشرف عادل کا شمار وادی کشمیر کے ان جواں سال شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے بہت کم عمری میں ہی شعر و ادب کی دنیا میں اپنی ایک مستحکم اور منفرد پہچان قائم کی ۔ پچھلی کچھ دہائیوں میں سے دبستان کشمیر میں جن شعرا نے اپنی شعری تخلیقات سے یہاں کے ادب کو ایک اچھا خاصا مقام اور مرتبہ عطا کیا ،ان کی تاریخ اگر مرتب کی جائے تو اشرف عادل کا ذکر کیے بغیر یہ تاریخ ادھوری رہ جائے گی۔ انجمن علم و ادب ہوں، ادبی محفلیں ہوں یا سوشلستان کی دنیا ہو، اشرف عادل ہر جگہ نہایت ہی فعال اور متحرک نظر آتے ہیں۔ شاعری کا جنون ان کی رگوں میں خون بن کر دوڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ عالمی نوعیت کے آن لائین مشاعروں میں اپنی شراکت یقینی بنانا نا گزیر سمجھتے ہیں ۔ ان کا خاصہ یہ ہے کہ ان کے یہاں جتنا زیادہ آمد ہے اتنا ہی زیادہ آورد پر بھی اپنی پکڑ مضبوط ہے۔اپنی اسی فن کارانہ صلاحیت پر انہیں یہ امتیاز حاصل ہے کہ انہوں نے دبستان کشمیر میں طرحی مشاعروں پر مبنی ایک مجموعہ کلام ’’الہام سے پہلے‘‘ منصۂ شہود پر لاکر قارئین کی نذر کردیا۔الہام سے پہلے ۵۸ غزلوں، ایک حمد اور ایک نعت پر مشتمل طرحی مصرعوں پر کہی گئی غزلوں کا مجموعہ ہے۔
اشرف عادل صاحب بنیادی طور پر غزل گو شاعر ہیں۔انہوں نے اپنا خون جگر نچوڑ کر ،ایک ایک شعر کے لئے ستر کوئیں جھانک کر غزل میں کمال حاصل کیا اور غزل ہی کو اپنے ذریعہ اظہار کا مرکز و محور بنایا۔جس کی عکاسی ان کے ان اشعار میں بخوبی ملتی ہیں:
مرے ہنر کو خدا نے کی ہیں عطا سانسیں
غزل کے ہاتھ کا کوئی کمال ہے مجھ میں
غزل سے ہم نے نچوڑے ہیں فکر کے دریا
تمہارے نام صنم ہم نے نغمگی کر لی
غزل کا تعلق تو ہے زندگی سے
مری شاعری کی مثال اوج پر ہے
ادیب اپنے ماحول ،سماج اور آس پاس کی سیاست سے آنکھ چرا کر کوئی تخلیق نہیں لکھ سکتا ہے اور یہ تو ماننا ہوگا کہ ہر سچا قلم کار اپنے معاشرہ، اپنی ثقافت سے وابستہ رہ کر ہی پوری ایمانداری کے ساتھ اپنی زمین میں اپنے ادب کے تقاضے پورے کرتا ہے۔ادیب کسی بھی زبان میں لکھتے ہوں، ان کی شناخت کا بنیادی نقطہ ہی یہ ہے کہ ان کی تحریروں سے کسی نہ کسی زاویے سے اپنی زمین اور اپنے تہذیب کی گنگناہٹ لازمی طور پر سنائی دیتی ہے۔اشرف صاحب کے یہاں ان اصولوں کی پابندی بھی ملتی ہے اور خاص بات یہ ہے کہ انہوں نے روایت کے ساتھ ساتھ جدت کا ہاتھ تھام کر شاعری کو نئے اور عصری تناظر میں پیش کرنے کی ممکنہ کوشش کی ہے۔شعر کہنے کے لئے بحر ،وزن ،ردیف اور قافیہ سے ہٹ کر جس vision کی ضرورت لازمی ہے اس پر اشرف عادل صاحب پورے اتر کر کامیاب شاعروں میں شمار کئے جائیں گے۔
جہاں اس دنیائے رنگ و بو کے دگرگوں حالات ،آپسی چپقلش، بے ایمانی، غربت و افلاس ، دل و دماغ کا انتشار ہمیں کم ہمت اور مایوس کرنے کے لیے کافی ہے۔انسان کو خوف و دہشت،مایوسی اور ناامیدی نے ذہنی طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا ہے۔تو وہی دوسری طرف ہمارے شعرا ءسماج میں مثبت پہلو اپنا کر پیار و محبت ،امید، حوصلہ ،امن اور انسانیت کا پیغام دینے میں پیش پیش رہے۔اس دنیا کو اس وقت جس چیز کی ضرورت ہے وہ امید اور محبت ہے ۔
بقول بشیر بدر:
سات صندوقوں میں بھر کر دفن کر دو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
اسی طرح اقبال نے بھی اس موضوع کو اس طرح برتا ہے ؎
آدمیت احترام آدمی
باخبر شو از مقام آدمی
اشرف عادل بھی اس اندھیری نگری میں امیدوں کے چراغ جلا کر اٹھا ہے اور انہوں نے بھی امن، محبت، شرافت و انسانیت کا پیغام دیگر شعرا سے ہٹ کر اپنے مخصوص اسلوب اور انداز میں پیش کیا۔
چلو کانٹے رقیبوں کی بھی راہوں سے ہٹالیں ہم
چلو اپنے حریفوں کو گلے سے اب لگالیں ہم
کیا نمرود کی آتش کو آخر عشق نے ٹھنڈا
چلو کاجل محبت کی نگاہوں سے چرالیں ہم
کہیں ظلمت ہے مشرق کہیں مغرب اندھیرے میں
اٹھو تاریک راتوں سے کوئی سورج نکالیں ہم
اندھیروں کی حکومت ہے سیاہی کی نظامت ہے
چلو صاحب چراغوں کو اندھیروں میں جلائیں ہم
میں اپنے تبصرے کو سمیٹتے ہوئے آخر پر یہی کہتا چلوں کہ مجموعی اعتبار سے بظاہر عادل صاحب کے اشعار بہت ہلکے نظر آتے ہیں، لیکن ان کے بطن میں کئی جہانِ معنی پوشیدہ ہیں۔ آپ فکر سخن میں مسلسل غلطاں و پیچاں رہتے ہیں۔آپ کا شعری قرطاس ایک بحر بیکراں ہیں جس میں رنگ برنگے قیمتی پتھر نگینے کی طرح محفوظ ہیں۔گویا کہ پرورش لوح و قلم کا سلسلہ عادل صاحب کے یہاں بھی مسلسل جاری ہے۔عادل صاحب الفاظ کو منظم کرتے ہوئے اس تلاش میں اپنے ذہن کی پرواز کو طول دیتے ہیں اور پھر قلم کو اوراق پر پرکھتے ہیں تو خود بخود یہ اشعار اسیر قرطاس ہوجاتے ہیں:
زبان اپنے قلم کی کھول سکتا ہوں
میں گونگوں کے نگر میں بولی سکتا ہوں
یہ جنبش قلم ہے کہ اللہ کا کرم
مولا یہ لفظ لفظ بھی الہام ہی تو ہے
ہماری طرف سے اس کتاب کی اشاعت پر عادل صاحب اور ایجوکیشنل پبلشنگ ہاوس نئی دہلی کو نیک خواہشات اور بسیار داد ۔امید ہے کہ یہ کتاب اردو دنیا میں قدر کی نگاہوں سے دیکھی جائے گی ۔
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے)