ظلم کا تعلق انسان کے جرائم اور خلاف فطرتِ امور سے ہے۔ظلم کی تین قسمیں ہیں:1 ۔انسان اور اللہ تعالیٰ کے درمیان ظلم جیسے کفروشرک اور نفاق۔ 2۔انسان اور انسان کے درمیان ظلم۔3 ۔انسان کا اپنی ذات پر ظلم ۔
ظلم کی ان تین اقسام کے پس منظر میں ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں ظلم ِعظیم کی یہ جھلکیاںدیکھنے یا سننے کو ملتی ہیں :رشوت، ملاوٹ اور خونِ ناحق ۔یہ تینوں گناہ اور جرائم اپنی مختلف صورتوں میں ہم پر راج تاج کر تی ہیں۔
رشوت
ایک ناقابل تردید حقیقت یہ ہے کہ رشوت لینا یا رشوت دینا دونوں نہ صرف قانوناً جرم بلکہ اخلاقی گناہ بھی ہیں۔ہمارے سرکاری اداروںمیں راشی ملازمین اورغبن گھوٹالہ کر نے والے افسر رشوت ( چائے )کو قانونی یا اخلاقی جرم نہیں مانتے بلکہ اپنے سروس کنڈکٹ رول کا جزولاینفک( محنتانہ ) مانتے ہیں۔ نظم نسق سے تعلق رکھنے والے دفاتر، ہسپتال، انصاف کے ایوان یعنی عدالتیں، نئی نسل کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرنے والے ادارے یعنی سکول، کالج اور یونیوسٹیاں۔۔۔ کیا ان میں سے کوئی ادارہ ہے جو رشوت سے پاک کہلاسکتاہے؟ جواب نفی میں ہے۔ اور تواور کشمیر کی سب سے بڑی دانش گاہ(یونیورسٹی) کے بعض کلرک اور افسر بھی اس لعنت میں مبتلا بتائے جاتے ہیں۔ راشی ملازم کسی چھوٹے سے دفتری دستاویز کے لئے عفت مآب لڑکیوں سے اپنے دفاتر کے چکر پہ چکر کٹواتے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا ہے کہ آپ کا ـ’’کاغذ‘‘ گم ہوگیا ہے اور اگر معاملے لڑکے کا ہو تو اس سے پیسے اینٹھ لئے جاتے ہیں ۔ مارکنگ گریڈز میں اضافہ، امتحانی پرچوں کی اسمگلنگ، پی ایچ ڈی تحقیق کی چوری، کیا نہیں ہے جو مبینہ طور مرکز تعلیم وتدریس میں نہیں ہو تا ؟ یہاں تمام سیکشنوں میں معصوم طلباء سے تاوان وصولا جاتا ہے۔ کسی بھی جائز کام کے لئے یونیورسٹی سے منسلک کالجوں سے تاوان وصولنا بھی یونیورسٹی ملازمین کو اچھی طرح آتا ہے۔ رشوت اور استحصال کی ایسی خبیث مثالیں سماج میں ہر جگہ ملتی ہیں۔ پی ایچ ای ہو، بجلی محکمہ ہو، ریونیو ہو یا فائنانس محکمہ ہو، امور صارفین کا محکمہ ہوغرض ہر جگہ رشوت نے اپنی گہری جڑیں گاڑ دی ہیں۔ انجنیئر صاحبان دہائیوں سے برابر پرسنٹیج کلچر پر چل ر ہے ہیں۔ کام شروع ہونے سے پہلے ہی ٹھیکیدار حضرات متعلقہ انجنٗیر کو اپنا حصہ ( دستخط کا صلہ)ریٹ لسٹ کے مطابق پہنچاتے ہیں۔ رشوت افسروں اور ماتحتوں کے لئے من وسلویٰ ہی سہی مگر یہ غریب اور بے نوا عوام پر بہت بڑا ظلم ہے۔
ملاوٹ
کتنی تکلیف دہ بات ہے کہ کچھ ناعاقبت اندیش ، انسان دشمن اور خدا فراموش لوگ کھانے پینے کی اشیا ء میں ملاوٹ کر کے صارفین کو زہر کھلا کھلا تے ہیں اور اندر ہی اندرانہیں بیماریوں سے کھوکھلا کرتے ہیں۔ یہ صریح ظلم قاعدے قانون اور انسانیت کے پرخچے اُڑاتے ہوئے بلا خوف وخطر کیا جاتا ہے۔ یہاںغذائی اجناس ہی ملاوٹی نہیں بلکہ ادویات یا تو نقلی ہیں یا غیرمعیاری۔گرچہ ریاست شدیدبحران سے گزر رہی ہے، لیکن پھر بھی ملاوٹ مافیا اپنی کالی کرتوت نہیں چھوڑتے۔ کہنے کو متعلقہ حکام موقع بے موقع نام نہاد مارکیٹ چیکنگ کے عنوان سے اخباری سرخیاں اور ٹی وی کوریج بٹورتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ملاوٹ مافیا سے ہفتہ وصول کرکے خاموش بیٹھے رہتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں جولوگ عام صارفین کو قاعدے قانون کی ڈھال سے بچانے پرمامور ہیں ، وہی خود آدم خور ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ درندے اور اُن کے بال بچے یہی ملاوٹی اور مضر صحت چیزیں نہیں کھاتے ؟ بہت سنتے ہیں اب فلاں لیبارٹری میں جانچ ہوگی، فلاں سکارڈ تشکیل دیا گیا ہے، فلاں قانون نافذ کیا گیا لیکن زمینی حقائق کچھ اور ہی بتاتے ہیں۔
خونِ ناحق
ایسے وقت جب حالات کا جبر انسانی سروں کی فصل مسلسل کاٹ رہا ہو، انسان انسانیت کا دشمن بنا ہواہے۔ یہاں مخصوص تاریخی جرائم نے ہمیں ایک بڑی مصیبت میں ڈالا ہوا ہے کہ اس بلاسے چھٹکارا پانے کے لئے لوگ جان، مال اور بال بچے تک قربان رہے ہیں، دوسری طرف ہم جرائم کی بھینٹ چڑھ رہے ہیں ۔ ہنگامی حالات میں اپنے معاشرے میں صلہ رحمی اور انصاف کوٹ کوٹ کے بھرا ہونا چاہیے تھا لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جرائم کا گراف کہاں سے کہاں پہنچا ہے۔ بیوی اپنے آشنا سے مل کر خاوند کا قتل کرتی ہے، ڈیڑھ فٹ زمین کے لئے لڑکا اپنے چچا کا قتل کرتا ہے، سوتیلی ماں اپنی معصوم سوتیلی بیٹی کو زندہ نوچ کھاتی ہے۔ قانون ِ قدرت ہے کہ خونِ ناحق کا یہ بازار تب تک گرم ہے جب تک معاشرہ فی الجملہ خود پر ظلم وزیادتی کرنے کا خوگر بنا رہے گا۔
جب کوئی فرد یا قوم رشوت، ملاوٹ، چوری، کذب بیانی، جھوٹی گواہی، بہتان سازی، چرب زبانی ، چاپلوسی، عداوت، کینہ ،غیبت ، بدگوئی، فسق و فجور، حسد، بے ایمانی، خیانت، ناپ تول میں کمی، فضول خرچی، بے شرمی، بدکاری ، اقربا ء پروری ، بے حیائی، سود خوری، حرام خوری وغیرہ گناہوںمیں ملوث بنارہے تو اس کا لازمی نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ معاشرے میںہر طرف نفسا نفسی ، خوف و ہراس، وشواس گھات، جرائم اور غیریقینیت کا اندھیرا چھا جاتا ہے۔ بات صاف ہے جب کوئی شخص نیک عملی اور حلال کمائی کے بجائے حرام خوری اور مردم آزاری کاشیوہ اپنائے تو وہ ہ صرف دوسروں پر بلکہ خود پر بھی ظلم و جبر ڈھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اے میرے بندو !میں نے اپنی ذات پر ظلم کو حرام قرار دیا ہے اور میں نے اس کو تمہارے درمیان حرام کردیا ہے۔ لہٰذا تو لوگ ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ ‘‘
رابطہ: 9469679449
email: [email protected]