فا تح سندھ محمد بن قا سمؒ کی شخصیت اور کا رناموں سے بر صغیر ہندکی سر زمین ہمیشہ سر سبز و شاداب رہے گی ۔ سندھ میںآپ کے قدم رنجہ ہونے سے تیر گی دور ہوئی اور قیامت تک اسلام خطے کی آبرو بن کریہا ں کے ذروں کورو شنی عطا کر تا رہے گا۔ اس جلیل القدر نوجوان سپہ سالار کی بے مثال قر با نیوں کو یہ سر زمین کبھی فراموش نہیں کر سکتی۔ بقول عظیم شاعر ما ہر القادری ؎
سندھ کے ظلمت کدے میں نور افشاں ہے کو ئی
ابر کے دامن میں جیسے برق لہرائی ہو ئی
ایک مؤرخ کے الفاظ ہیں کہ سند ھ کی فتوحات میں ایک طر ف محمد بن قاسم نے اپنے آپ کو ایک طرف رستم وسکندر سے زیادہ بڑا بہادر ثابت کیا ، دوسری طرف وہ نوشیروان سے بڑھ کر عادل ا وررعا یا پر ور ظاہر ہوا ۔یہ نوجوان فتح مند سردار سندھ و پنجاب میں اتنی تیز ی سے گھس رہا تھا اور بستیوں کی بستیا ں اس کے کردار کے اثر سے اس طرح دائر ہ اسلام میں داخل ہوگئیں، ایسا معلوم ہو تا تھا کہ عنقریب سارا علاقہ ایک اسلامی ملک بنے گا لیکن تاریخ کی ستم ظریفی نے اس کم سن نوجوان کے ساتھ کیا برا سلوک کیا ؟ کیسے اس جواں سال سپہ سالار کو موت کی نیند سلادیا گیا ؟ الامان والحفیظ! بنواُمیہ کے فرماں روا عبدالملک بن مروان نے اپنے دو بیٹوں کو ولی عہد مقرر کیا ، حسب دستور بڑا بیٹا ولید تخت پر بیٹھا تو اس نے ا پنے نے بھا ئی سلیمان کو ولی عہدی سے دستبر دار کر کے اپنے بیٹے کو جا نشین مقرر کردیالیکن اچانک اس کی اس کی خواہش کی تکمیل سے پہلے ہی اس کا انتقال ہو گیا اور بھا ئی سلیمان تخت پر براجمان ہو گیا ۔اب سلیمان نے اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے کے بعد ان تمام لوگوں سے انتقام لینا شروع کیا جو ولید کی حمایت میںپیش پیش تھے ۔ان میںپہلا نام حجاج بن یوسف کا تھا ،لیکن سلیمان کی تخت نشینی سے پہلے ہی حجاج کا انتقال ہو گیا تھا ۔ سلیمان نے اپنی انتقام کی آگ کو ٹھنڈا کر نے کے لیے حجاج کے داماد اور چچا زاد بھائی محمد بن قاسم کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنایااور فر ط غضب میں ان کو سندھ کی ولایت سے معزول کر کے دمشق کے جیل خانے میں ڈلوادیا ،جہاں ان پر طرح طرح کے ظلم روا رکھے جا تے تھے ۔بالآخر یہ نو جوان جیل کی مشقتیں برداشت کر تے ہوے دنیا سے رخصت ہو گیا۔ محمد بن قاسم نے اپنی متحرک زندگی سے پوری دنیا ئے اسلام کو یہ پیغام د یا کہ امیر کی اطاعت ، اتحادِ امت اور اسلامی خدمت میری جان سے زیادہ عزیز ہے ۔ محمد بن قاسم کے پاس اتنی بڑی طاقت اور حوصلہ تھا کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ہٹ سکتے تھے ۔در اصل ا سلام کی تاریخ میں ایسا کئی مرتبہ ہوا جب اسلامی غیرت و حمیت کے یہ گہر ہائے گر ا نمایہ ہم سے چھینے گئے اور ہمارے سینوں کو زخمی کیا گیا،ہمیں خون کے آنسو رلایا گیا۔ ابھی بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے کہ کوئی ایسی شخصیت جو اسلامی غیرت وحمیت اور وحدت اسلامی کے صالح جذبات سے عبارت ہو ،اسے باطل کا اقتدار چیل کوؤں کی طرح نو چ لیتا ہے اور طرح طرح کے الٹے سیدے الزام دے کر اس کا پتہ دنیا سے کاٹ دیتا ہے ۔اس میں کو ئی شک نہیں اسلام کو جتنا نقصان ہر دور میں ان میر صادقوں اور میر جعفروں سے پہنچا ہے اتنا شاید کافر دشمنوں سے بھی پہنچا ہو۔ دشمن جب آستین میں چھپ کر آتا ہے تو اس میں عقل وفہم کا بڑا امتحان ہو تا ہے۔ آج میر صادق میرجعفر کا کردا ر عا لم اسلام میں جو خاص ممالک اور حکمران باطل کی شہ پر ادا کر رہے ہیں،اُن سے باشعور کلمہ خوان واقف ہیں،ان کا نام لینا اختلافات اور دشمنیوں کی آگ بھڑکانے کے برابر ہے۔ البتہ حالات حاضرہ کی روشنی میں اگرامت مسلمہ کا جائزہ لیا جائے تو صاف ہوجائے گا کہ مسلمانوں کو درپیش موجودہ بحرانوں کے پیچھے کون سے فتنہ پرور عناصر کارفرماہیں۔ یہ لوگ اپنی اصلیت پر پردہ ڈالتے ہوئے دنیا میں اپنے آپ کو مظلوم کہتی ہیںاور اسی کی آڑ میںانسانوں کا خون صبح و شام پی رہے ہیںمگر ان کی تشنگی کم نہیں ہوتی، کون نہیں جا نتا کہ پاکستان، افغانستا ن، شام ،عراق وغیرہ میں جو کچھ ہورہاہے اس کے پیچھے کس کی سازش کارفرماہے، کس کے اوپر آدم خوری کا عفریت سوار ہے ، کس کی وجہ سے وہ ہر طرف ایک افرا تفری کا ما حول بر پا رکھنا چاہتا ہے ۔ اس آدم خور کو سب جانتے ہیںاور ویسے بھی مظلومین کا خون ِ ناحق اور ان کی فلک بوس آہیں دبے پاؤ ں ان عناصرکے چین و سکون کو غارت کر کے رکھ دے گی۔بس انتظار ہے اس لمحے کا کہ وہ کب آئے۔
اس وقت ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم ممالک آپسی چشمک سے اوپر اٹھ کر سر سے سر جوڑے اپنی رنجشیںختم کریں کیونکہ منفی رویوں سے کوئی ایک بھی ملک ترقی نہیں کر سکتا اور نہ ہی اس منفی سوچ کے ساتھ قوموں کی قیادت کی جا سکتی ہے ۔ قوموں کی قیادت کے لیے مثبت سوچ و فکر نا گزیر ہے۔ یہی مثبت اور پر امن پیغام محمد بن قاسمؒ کی سیرت سے ملتا ہے اور اسی میں ملک اور قوموں کو استحکام اور بقا ملتی ہے۔ جو قومیں باطل کے دم چھلے بن کر منفی رجحان اور خود پسند ی کی حامل ہو جاتی ہیں ، ان کو نہ بقا نصیب ہوتی ہے اور نہ ہی استحکام بلکہ ایسی قومیں تاریخ میں سر فرازی سے ہمیشہ کے لیے محروم و نامراد ہو جاتی ہیںاور وقت کی رفتار کے ساتھ ان کاوجود بھی ہمیشہ کے لیے ختم ہو جاتاہے۔ ماضی میں جن ممالک نے انسانی دنیا کے ساتھ منفی رویہ اختیار کیا ان کا انجامِ بد ہمارے سامنے ہے لیکن افسوس یہ ہے کہ اندھے پن کے شکار مما لک تاریخ سے عبرت حاصل نہیں کرتیں ۔ اگر یہ عقل اور تدبر سے کام لے کر اپنی عاقبت سدھارنے میں چوک کر گئے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب عالم اسلام کے ہاتھوں یہ تخریبی وسازشی عناصر اپنے سیاہ کرتوتوں کی وجہ سے ماضی کی طرح آئندہ بھی وہ اتنے بڑے نقصانات اٹھا ئے گی کہ سوچ کر آدمی لرز جاتاہے ۔حدیث میں ہے کہ ظالم اس وقت تک نہیں مرتا جب تک وہ دنیا میں اپنے ظلم کی مکمل سزا پوری نہ کر لے۔ حلب جل رہا ہے،عراق جل ہے رہا ہے، برما جل رہا ہے، فلسطین جل رہاہے۔ ان ممالک میںلو گوں کا آگ اور خون کے خوف ناک منظردیکھتے دیکھتے کلیجہ منہ کو آجاتا ہے ، ان کے یہاںہر نئی صبح ہما رے لیے بدشگونی لے کرنمودار ہوتی ہے، دنیا کہاں سے کہا ں ترقی کر کے پہنچ گئی،ہم جہاں سے چلے تھے آج بھی وہیں کھڑے ہیں،بس زبانی اعتبار سے ہم وحدت امت وحدت امت پکارتے ہیںلیکن حقیقت وہی ہے جس کا ذکر ان سطور میں ہوا۔یہ ہمارے کھوکھلے دعووں سے حقائق اک سورج طلوع ہونا نہ چھوڑدے گااور نہ جھوٹ کا غروب ہونا رُکے گا ۔تمام اسلامی ملکو ں کے سر براہوں سے یہ عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ ملک کی حفاظت، کرسی کی بقاء اور اپنی تعمیر وترقی کے ساتھ ساتھ ملت اسلامیہ کے زوال وادبار کا سفر بھی روکیں کیونکہ مسلمان جسدواحد ہیں اور ان کا جینا مرنا ایک ہی ساتھ طے شدہ امر ہے۔ خدارا ملک گیری ہوس اور فتنہ وفساد جگانے کی ذہنیت کو اپنے دل نکال سے نکال باہر کیجئے اور وہ راستہ اختیار کریں جس میں پوری ملت کی فلاح یابی اور کامرانی مخفی ہو ۔یہ برادرکشیاں ، خونریزیا ںاور ظلم و ستم کا تسلسل ہر گز ملت کو ثبات اور دوام عطا نہیں کر سکتا۔ ایک نہ ایک دن ہمیں یہ حقیقت ذہن نشین کر نی ہوگی کہ یہ زمین اللہ کی ہے،اس کا مالک حقیقی وہی ، اور اسی کو یہاں دوام اور ثبات ہے، جب وہ چاہے گا کسی کو بھی اپنی زمین سے نکال دے گا اور کسی دوسرے کی بھرتی زمین پر خیر وصلاح کے لئے کرے گا۔ دنیا کے دوسرے بڑے ظالم اور جابر حکمرانوں فر عون ،ہا مان نمرود، شداد کاانجام ذلت و رسوائی کے سوا کچھ ،ا گرچہ وقتی طور ان کو مغالطہ لگا کہ ہم ہی رب ِ اعلیٰ ہیں مگر وقت کی گردش نے اُن کا براحشر کیا ،۔ا س لئے اس زمانے کے ابولہب ، ابوجہل ، عبداللہ بن اُبی اور عبداللہ بن سبا کا بھی یہی انجام ہونا ہے ۔