سرینگر // مزاحمتی قائدین سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے کہا ہے کہ کشمیریوں پر ظلم و جبر اور تسلط برقرار رکھنے کیلئے انہیں مسلکی تنازعات اور طبقاتی رنجشوں میں الجھانے کی سازشیں کی جارہی ہیں اور اس مقصد کی خاطر مفاد اور عقیدے کے درمیان ٹکرائو پیدا کرکے ایک نیا کھیل کھیلنے کی کوشش بھی کی جاتی رہی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے لئے ہجرت کرنے کی کوئی سبیل نہیں ہے اور اب ظلم کے آگے سینہ پر ہونے کے علاوہ کوئی اور راستہ موجود نہیں ہے۔تحریک حریت کے زیر اہتمام حیدرپورہ پر پُروقار سیرتی محفل سید علی گیلانی کی صدارت میں منعقد ہوئی ۔سید علی گیلانی نے اپنے خطاب میں سیرت پاک پر تفصیل کے ساتھ روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اسلام ؐ کسی خاص قوم، قبیلے، نسل یا کسی خاص عقیدے کے پیروکاروں ہی کے لیے نہیں، بلکہ تمام انسانیت اور تمام عالمین کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گئے ۔جموں کشمیر کے حوالے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہاکہ یہاں جو ظلم ہورہا ہے اگر اس کے خلاف ہم آواز نہیں اٹھائیں گے تو ہم اللہ کی رحمت سے سرفراز نہیں ہوں گے۔ انہوں نے کہا آج پوری دنیا میں ظلم وجبر کی حکمرانی قائم ہے ، جس میں مسلمان حکمران بھی ظلم کررہے ہیں اور غیر مسلم حکمران بھی۔ ہماری اس چھوٹی سی ریاست میں مظالم کی انتہا ہے اور اب ہمارے لوگوں کو جیلوں کے اندر بھی حیوانوں کی طرح پیٹا جارہا ہے،جسمانی تشدد کرکے اُن کا خون بہایا جارہا ہے۔ گیلانی نے کہا کہ جموں کشمیر کے مسلمانوں کے لیے موجودہ حالات میں صرف دو راستے ہیں، کوئی تیسرا راستہ نہیں ہے۔ ایک راستہ یہ ہے کہ ظلم کے خلاف آواز بلند کی جائے اور دوسرا راستہ ہجرت کرنے کا ، مگر ہماری جغرافیائی حالات ہمیں ہجرت کی اجازت نہیں دیتے ہیں۔ ہم فوجی گھیراؤ میں ہیں۔ ہم ہجرت کریں تو کہاں جائیں گے۔ اس لیے ہمارے لیے صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ہم ظلم کا مقابلہ کریں اور اس کے خلاف آواز اٹھائیں۔ انہوں نے کہا ہم بھارت کے مظالم کا مقابلہ کریں گے، مگر بھارت کے سامنے سرینڈر نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمیں مسلکوں اور ذات پات کی بنیاد پر لڑایا جارہا ہے۔ مسلکوں کی بنیاد پر لڑانے کے لیے بڑی بڑی سازشیں ہورہی ہیں، ہمیں ان فتنوں سے پچنا چاہیے اور قرآن وست کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنی چاہیے۔ میر واعظ عمر فارق نے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ جب ہم اپنی اُمت اور مسلمانوں کی بات کریں تو قرآن نے ہماری ذمہ داریوں کو واضح کردیا ہے۔مگر جب مسلمانوں کا حال دیکھتے ہیں دل اُداس ہوتا ہے۔ اسلام نے ہمارا راستہ واضح کردیا ہے، پھر بھی ہم انتشار کے شکار ہوکر مسلکوں میں تقسیم ہوگئے ہیں۔ عمر نے OICکا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ بھی انتشار کا شکار ہے جس وجہ سے نہ صرف فلسطین اور کشمیر کے مسائل لٹکے ہوئے ہیں، بلکہ یمن، شام اور دیگر مسلم ممالک بھی آپس میں دست گریبان ہوگئے ہیں۔ کوئی ملّت کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہے، بلکہ ہمارے علماء بھی ملّت کو ایک دوسرے کے خلاف فتویٰ بازی سے بانٹ رہے ہیں۔ اگر ہم فروعی اختلافات کو یکسر چھوڑ کر اسلام کی بنیادی تعلیمات کی بنیاد پر ایک ہوجائیں گے تو ہم مصیبت سے نجات حاصل کرپائیں گے۔ انہوں نے کہا کشمیریوں کے خلاف کون کون سی سازشیں یا کون کون سا ظلم نہیں ڈھایا گیا، مگر مسلم دنیا ہمارے مرہم کے لیے تیار نہیں۔ موت کا رقص جموںکشمیر میں جاری ہے، مگر دنیا میں اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ ہمارے سماج میں بے راہ روی، بدتمیزی اور بے حیائی عام ہوچکی ہے۔عمر نے کہا کہ آج کے دورِ فتن میں دو چیزوں مفاد اور عقیدہ کے درمیان ٹکراؤ جاری ہے۔ آج عقیدے کی نہیں مفاد کی لڑائی لڑی جارہی ہے اور مفاد کے لیے ہی مسلکی تنازعات کو فروغ دیا جارہا ہے اور اس کے لیے باضابطہ طور کام ہورہا ہے۔ ہمیں شیعہ، سنی، بکروال، گوجر اور پہاڑی کے نام پر لڑایا جارہا ہے۔عمر کہا مسئلہ کشمیر کے بارے میں ہمارا موقف ہے کہ پُرامن ذرائع میں اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ کوئی جنگ وجدل کے ذریعے اس مسئلے کو حل کرنے کی بات نہیں کرتا ہے، مگر بھارت نے ہم پر سخت پابندیاں عائد کرکے ہمارے خلاف باضابطہ جنگ شروع کردی ہے۔ محمد یاسین ملک نے کہا کہ ہمیں ہمت نہیں ہارنی ہے، ہم نے ہمیشہ ایسے ہی حالات کا سامنا کیا ہے ، کیونکہ ہم حق پر ہیں، ہمارا مطالبہ سچا ہے۔ انہوں نے علماء کو مشورہ دیا کہ وہ اس ظلم وجبر کے خلاف آواز بلند کریں، اگر یہ لوگ یہ کام نہیں کرسکتے تو کم از کم انہیں چاہیے کہ یہ مسجدوں میں اجتماعات میں اس ظلم وبریت سے اپنے سامعین کا آگاہی فراہم کریں، مگر بدقسمتی سے ہمارے علماء ان مظالم پر خاموش ہیں۔ وادی کشمیر میں بالعموم بھارتی فورسز کا قہر عروج پر ہے، جبکہ جنوبی کشمیر میں بالخصوص بھارتی مظالم کی انتہا ہورہی ہے۔ ٹھٹھرتی سردیوں میں بستیوں کا کریک ڈاؤن کرکے خواتین کی تذلیل اور جوانوں کی مارپیٹ کی جاتی ہے۔ بھارت نے جس آل اوٹ آپریشن کا اعلان کیا ہے یہ صرف عسکریت پسندوں کو ختم کرنے کے لیے ہی نہیں، بلکہ یہ آزادی پسند قیادت کو بھی سرینڈر کرنے کی بھی ایک سازش ہے۔ انہوں نے کہا NIAکا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے صرف اور صرف ہمیں خوفزدہ کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، تاکہ جموں کشمیر کے لوگ بھارت کے جبری فوجی قبضے کے خلاف کوئی آواز بلند نہ کریں، لیکن ہم بھارت پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں ہے ہم ان کے ظلم وجبر اور زور زبردستی کے آگے کبھی سرینڈر نہیں کریں گے، بلکہ ہم اتحاد اور اتفاق سے بھارت کے تمام مکروہ منصوبوں کو ناکام بنادیں گے اور ہمارا اتحاد بھارت کے مظالم کا مقابلہ کرنے کے لیے ہی ہے۔ سیرتی محفل میں جن دیگر راہنماؤں نے شرکت کی ان میں حکیم عبدالرشید، محمد یوسف ندیم، امتیاز احمد شاہ، عمران احمد خواجہ، نور محمد کلوال، سید محمد شفیع، محمد سلیم زرگر، محمد یٰسین عطائی، مولوی بشیر عرفانی، محمد یوسف مکرو، شاہد اقبال اور معراج الدین ربانی قابل ذکر ہیں۔