سرینگر/حریت (ع) چیئرمین میرواعظ عمر فاروق نے تارتھ پورہ ہندوارہ کے نوجوان طالب علم شاہد بشیر میر کو ایک فرضی انکائونٹرکے دوران جان بحق کئے جانے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایک طرف جنوبی کشمیر میںCASO کے تحت مار دھاڑ، پکڑ دھکڑ اور ہراسانیوںکا سلسلہ جاری ہے اور پورے جنوبی کشمیر کو ایک war zone میں تبدیل کردیا گیا ہے تو دوسری طرف زیر حراست اور فرضی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے اور اگر کشمیریوں کے قتل عام کا یہ سلسلہ بند نہیں ہوا تو کشمیری عوام کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں رہیگا کہ وہ ایک مربوط اور مرتب احتجاج کا سلسلہ شروع کریں۔مرکزی جامع مسجد سرینگر میںنماز جمعہ سے قبل ایک بھاری اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے حریت چیرمین نے کہا کہ اس طرح کے قتل ناحق کے واقعات کی سرکاری سطح پر تحقیقات کے بلند بانگ دعوے ہوتے رہے ہیں لیکن جب یہی لوگ قاتل ہوں، یہی منصف ہوں اور یہی گواہ تو کشمیری عوام انصاف کی امید کس سے رکھیں اور مژھل فرضی انکائونٹر کا واقعہ اس کی مثال ہے جس میں ملوث مجرمین کو رہا کیا گیا۔انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کی جان اتنی سستی نہیں ہے کہ ان کے دام لگائے جا سکیں ۔ میرواعظ نے آپریشن جامع مسجد کے ۲۸ سال مکمل ہونے پر کہا کہ اس آپریشن کا واحد مقصد اس وقت کی قیادت خصوصا ً شہید ملت میرواعظ مولانا محمد فاروق کو خوفزدہ کرنا تھا تاکہ وہ کشمیریوں کی حق و انصاف سے عبارت تحریک کی ترجمانی کرنے سے باز رہیں ۔انہوں نے کہا کہ آپریشن جامع مسجد کے بعد کشمیر کے دیگر مذہبی اور مقدس مقامات جن میں آثار شریف حضرت بل ، چرار شریف، خانقاہ فیض پناہ ترال،آستانہ عالیہ خانیار وغیرہ شامل ہیں کی بے حرمتی کا مقصد مسلمانوں کی وحدت اور اجتماعیت کو کمزور کرنا تھا لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ جامع مسجد کو بار بار بند کرنے سے اور ان تمام سازشوں کے باوجود جامع مسجد کے منبر و محراب جو صدیوں سے کشمیری عوام کی دینی اور سیاسی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتے رہے ہیںکسی بھی قیمت پر ہم حق و صداقت کی آواز بلند کرنے سے باز نہیں رہ سکتے۔