Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
کالممضامین

ظلمتوں میں نور کا ہالہ دیکھنے والاارشاد مظہریؔ میری بات

Towseef
Last updated: May 23, 2025 11:38 pm
Towseef
Share
13 Min Read
SHARE

ڈاکٹر گلزار احمد وانی

اردو شاعری میں شاعر اپنی ذات کے جھمیلوں میں گم ہونے کے باوجود اپنے آس پاس کے ماحول سے بہرہ ور ضرور ہے ۔ اگر چہ آج کے دور کے عام انسان کے ساتھ ساتھ شاعر بھی اپنی ذہنی الجھنوں سے جھوجھ رہا ہے اور نفسیاتی کشمکش ٬ ذہنی الجھاؤ ٬ نا آسودہ حالی ٬ نفسیاتی تناؤ اور غم روزگار کے ساتھ ساتھ اسے اپنے آپ سے ایک عجیب قسم کی نبرد آزمائی کا سامنا ہے جہاں ایک طرف سے دیکھا جاتا ہے کہ شاعر اپنے حالات و واقعات سے پوری طرح باخبر ہے ۔ جہاں دوسری طرف ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ موسمی صورت حال کس قدر دگر گوں ہے۔ اس سارے تناظر میں آج کی اردو شاعری انہی حالات کے تار پود میں بنی ہوئی ہے۔

ارشاد مظہری کولکتہ شہر سے تعلق رکھتے ہیں ۔ ان کا سال ۲۰۱۹ میں ایک شعری مجموعہ بنام ’’ نئے مزاج کا ساون ‘‘ منظر عام پر آیا ہے ۔ اس میں حمد ٬ نعت ٬ منقبت ٬ غزلیں اور قطعات بھی موجود ہیں ۔ ایک تخلیق کار کی زندگی میں جتنے بھی چیلنجز رہتے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وہ ایک تخلیق کار کی ادبی زندگی میں نمی کی کارفرمائی کا کام دیتے ہیں ۔ ان کٹھن مراحل میں وہ ایسے تخلیق پارے کی تخلیق کرتا ہے جو بشرط کہ چیلنجز کے ہی سامنے آتے ہیں ۔ ارشادمظہری کے یہاں عقل و شعور کی کارفرمائی زیر نظر رہتی ہے۔

نکولو بولو پیرس کے ایک فلسفی اور نقاد تھے ۔ وہ شاعری میں عقل و شعور کا ہونا ضروری سمجھتے ہیں۔ ’’عقل شاعری کو الہامی بنا دیتی ہے ۔ جو کچھ لکھو اس میں عقل سے حسن قوت اور روشنی حاصل کرو۔‘‘(ارسطو سے ایلیٹ تک ۔ ڈاکٹر جمیل جالبی نمبر ۳۱۶۔ سنہ اشاعت ۲۰۰۴)

مذکورہ بالا اقتباس سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ کسی بھی شعری تخلیق میں دو چیزوں کا عمل دخل ہونا چاہئے (عقل و شعور ) اور اس سے تو حسن قوت اور روشنی حاصل ہوتی ہے۔
ارشادمظہری دور حاضر کے ایک ایسے شاعر ہیں جنہیں حالات و واقعات پر بھر پور نظر ہے اور اس کا مظاہرہ اپنے منفرد اسلوب اور لب و لہجے میں کرتے ہیں اور انہیں زمانے کے ان دگر گوں حالات میں بھی ظلمتوں میں نور کا ہالہ نظر آتا ہے ۔اگر چہ حالات موافق نہیں بھی ہیں مگر پھر بھی شاعر غم سے ہارا نہیں ہے بلکہ پر امید ہے کہ ظلمتوں کا دور بھی چھٹ جائے گا۔

صبح تک تیرگی نہ چھٹ پائی
دن پہ بھاری یہ رات لگتی ہے
کرن سے تیز ہے ارشاد رفتار حیات نو
گھڑی کی سوئی سے آگے نکل پاؤ تو اچھا ہے

مذکورہ بالا اشعار میں تیرگی ٬ کرن، ٬ روشنی ٬ چاندنی اور رات جیسے الفاظ مذکورہ موضوع کی توسیع لئے ہوئے ہے۔جن سے میرے مضمون کی بنیادیں بھی مستحکم ہیں۔ دراصل شاعر واحد متکلم کی صورت میں سب سے پہلے اپنے ہی آپ سے نبرد آزمائی میں ہیں جہاں سے اسے حالات ایسے درپیش نظر آ رہے ہیں جن سے اگر چہ ضیائی کہیں سے بھی پرتو پائی ہوئی نہیں دِکھ رہی ہیں بلکہ اس کا وجود اتنا ہی مضبوط اور توانا ہے کہ شاعر ان ہی ظلمتوں میں اب تو جینے کا عادی بن چکا ہے۔ ارشادمظہری کے یہاں ظلمت اور تیرگی جیسے الفاظ کئی معنوں میں استعمال ہوئے ہیں اور یہ الفاظ استعاراتی قبا پہنے ہوئے ہیں۔ جس سے معنی کی کئی صورتیں ایک قاری کے لئے یہاں دور دور تک پیہم نظر آرہی ہیں۔ یعنی اگر چہ دن میں شاعر کو تیرگی نظر آ رہی ہے گویا یہ عصری حالات کا استعارہ ہے جہاں ایک فرد کے اردو گرد مفلسی ٬ بے حسی اور بے کلی کی صورت لئے تیرگی اپنے ظالم پنجوں پہ محو رقص ہےاور گہے ان حالات میں تیرگی کے پہرے کو اپنے گھر میں دن کے وقت بھی محو رقصاں دیکھتے ہیںاور ایسے میں شعری کردار اگر چہ سورج کی روشنی کی تمنا لئے نہیں پھرتا ہے بلکہ چاندنی کی تمنا لئے در پر کھڑا ہے اور کبھی کبھار وہ سورج کی کرنوں کا جلوس اپنے گھر کی دہلیز پہ دیکھنا چاہتا ہے۔

ارشادمظہری کی شاعری جن الفاظ سے تجسیم پاتی ہے اور جن سے ان کے اشعار میں ظلمتوں کا ہالہ دکھائی دیتا ہے وہ تیرگی،ظلمت ٬ بادل ٬ سناٹے، دھند ٬ تیرہ بختی اور خاموشی وغیرہ اور جو الفاظ نور کا ہالہ کے بطور مستعمل ہیں وہ ہیں سورج ٬ کرن ٬ روشنی ٬اجالا ٬ اور آفتاب وماہتاب وغیرہ ۔ اس طرح جو کیفیت ان الفاظ سے تعمیر ہوپائی ہے وہ شعر میں ایک نئی جان اور ایک نئی روح ڈالتی ہے۔ارشادمظہری کے یہاں غیر آسودہ حالی ٬ غم و آلام اور پریشانی کی دھند کبھی بھی ہراساں نہیں کرتی ہے کیونکہ ان کی نظر میں آفتاب کی کرنیں ظلمتوں کو نچوڑ کر اپنے ہونے کا اعلان بخوب کر رہیں ہیں جس سے ان کے تخلیقی عمل میں روشنی کی تفہیم میں اور زیادہ وسعت حاصل ہو پاتی ہے۔اُن کی شاعری میں امید بھی نور کے ہالہ کی گیرائی میں اور وسعت عطا کرتی ہے ۔ان کے یہاں روشنی کسی سائے کی طرح ہے کہ جب سورج ڈھلتا ہے تو رات کو آنے کا موقعہ خود ہی فراہم ہوتا ہے ورنہ اسے کون جھیل سکے، کسی میں ایسی تاب نہیں کیونکہ سورج کی شعائیں بھی تھک ہار کراپنے گھر میں جا کر سستانے بیٹھ جاتی ہیں۔

ارشادمظہری کے یہاں تقریبا ًہر دو غزل کے بعد آنے والی غزل کے کسی نہ کسی شعر میں سورج اور رات کے حوالے سے کیفیت بیان ہو پائی ہے جس سے ان کے موضوعات کی دروبست میں بہت حد تک رنگینی پیدا ہوئی ہے۔ مذکورہ مضامین کو باندھنے میں انہیں دور فضاؤں میں ان دو سیاہ و سفید چیزوں کی موجودگی اور غیر موجودگی یوں محسوس ہوتی ہے جس سے وہ اظہاریہ پن لئے بیٹھے ہیں۔ ان کے یہاں زندگی کے اس کٹھن سفر میں فرد کی حسی کشمکش میں جہاں کہیں بھی کوئی امید کی کرن زمانے کی دھند میں حائل کر دیتی ہے تو سورج ایک نور اپنی زندگی کی آنکھوں میں بھر دیتا ہے۔اور یہ شاعری ایک قاری کے لئے ان حالات میں امید کا سہارا دیتی ہے جس سے ان کے یہاں ان الفاظ کی اپنی اہمیت و معنویت موجود و برقرار بھی رہتی ہے۔ اگر چہ اور بھی موضوعات کو شاعر برتنے میں بہت حد تک کامیاب نظر آتے ہیں مگر ان دو چیزوں کی انہیں کافی حد تک غور و فکر لا حق رہتی ہے جس میں ان کے عقل و شعور کی آنکھیں بیدار رہتی ہیں ۔ کبھی کبھی شعری کردار بھی گھنے اور کالی رات کے سایوں میں ہی مقید رہتے ہیں۔ جس میں یاس و حرماں کے بادل گھیرے میں لیے چاند کی تمنا کرنے سے پھر بھی نہیں ہچکچاتے ہیں۔

ارشادمظہری کی شاعری ذات کی آگہی ہے اور یہ خود آگہی انہوں نے اپنے اشعار میں یوں بیاں کی ہے کہ جس سے ان کے اشعار میں تنوع پیدا ہو گیا ہے اور یہ تنوع تحرک زدہ ہے اور منجمد نہیں ہے۔ اگر تخلیقی عمل میں تحرک خاموش بن کر رہے تو جماہیاں آنے لگتی ہیں جیسا کہ بولو نے بھی لکھاہے ’’منجمداسلوب سے جماہیاں آنے لگتی ہیں ‘‘
(ارسطو سے ایلیٹ تک ڈاکٹر جمل جالبی ص نمبر ۳۱۶سنہ اشاعت ۲۰۰۴)

ارشاد مظہری نے زندگی میں نشیب و فراز جتنے بھی دیکھے ہیں ان تجربات و مشاہدات کو من و عن صفحۂ قرطاس پر بکھیرا بھی ہے۔ حالات کے تھپیڑے کھانے ہوئے انسان کے اس گرد سفر کے سوا جھولی میں اور ہے بھی کیا ۔لہٰذا شاعر ان تمام محسوسات کو اپنے شعری سانچے میں ڈھال کر زمانے کی اتھل پتھل کی بھی آگہی فراہم کرتے ہیں۔ انہیں معلوم ہے کہ وقت کی گھڑی سے ہی نکل کر کئی اجگر سامنے آجاتے ہیں جو ایک فرد کی تمناؤں کو بھوکے نگل جاتے ہیں۔

وقت کی گھٹری سے نکلتے ہیں ہزاروں اجگر
جو تیرے گھر کے اجالوں کو نگل جاتے ہیں

یہاں شعری کردار زندگی اور زندگی سے منسلک کئی چیزوں کا پٹارہ بھی کھولتے ہی ۔ زندگی ایک اور اس کے رنگ انیک ہیں۔شاعران رنگوں میں کیسے خود کا گذارہ کر لیتا ہے جس کے دائیں بائیں بھوکی تمنائیں ہیں اور اس پر زمانے کا تنگ قافیہ اور اب یہ زندگی اخبار کی مانند لگ رہی ہے۔ارشادمظہری کی شاعری میں متنوع زاویوں سے زندگی اور اس کے رنگوں کی کہانی درج ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کا طرز اسلوب بہت ہی دور سے پہچانا جاتا ہے۔

جگنوؤں کی روشنی کس کا ہو سکتا بھلا
ہر طرف بس تیرگی تھی اور ہم خاموش تھے

یہاں زندگی اور زندگی سے منسلک اشیاء کو بہت ہی قرینے سے بیاں کر دیتے ہیں۔ اگر چہ ان کے کلام میں حیات و کائنات کے جملہ مسائل بھی درجہ بہ درجہ بیاں ہوتے ہیں اور اس بیاں میں ان کے یہاں جمالیاتی حس بیدار ہے اور جس کے چلتے شاعر نے ذات کے تئیں بھی ان ہی احساسات کو بھر پور احساسیت کی زباں پہلو بہ پہلو دی ہے۔

دن نکلنے ٬ رات کے ڈھلنے کا نام
زندگی ہے آگ پر چلنے کا نام

اکیسویں صدی میں انسان اگر چہ مادی طور پر آسودہ حال ہے اور اس رفتار میں وہ بہت آگے نکل چکا ہے مگر یہ اس ترقی سے عاری و بیزار پن لئے ہوئے ہے جس میں اقدار کی پاسداری نہ ہو ٬ جس میں انسان بھیڑ میں رہ کر بھی تنہائی کا شکار ہے۔ جہاں بھائی بھائی کا عدو جاں بن گیا ہے۔

ڈھونڈتے ہو صحن میں ارشاد کیا
چاندنی تھی ٬ بادلوں میں کھو گئی
منتقل ہو کر عجب کمرہ ملا
کوئی کھڑکی ٬ کوئی پنکھا بھی نہیں

یہاں شاعر کا کمال ان کے اختصار میں پنہاں ہے کیونکہ بڑے سے بڑا مشاہدہ و تجربہ بھی اختصار کے ہی بطن سے پھوٹتا ہے ۔ اور کہا جاتا ہے کہ شعر میں وضاحت اس کی عیب ہے۔ اس کا خیال کرتے ہوئے ارشادمظہری فن کے اونچے پائیدان پر نظر آرہے ہیں جو ان کی کامیابی کا ضامن بھی ہو۔سکتا ہے۔

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
جموں کے4چاراضلاع 18مقامات پرایس آئی اےچھاپے
جموں
راہل گاندھی کا دورۂ پونچھ آج | گولہ باری متاثرین سے ملاقات کریں گے
پیر پنچال
بھیڑ دھوتے ہوئے ڈوبنے سے خانہ بدوش شخص جاں بحق
پیر پنچال
نوشہرہ فاریسٹ ڈویژن کے بریری اور کنگوٹہ جنگلات میں بھیانک آگ سرسبز درخت خاکستر، جنگلی حیات متاثر، محکمہ جنگلات کی خاموشی پر سوالات
پیر پنچال

Related

کالممضامین

غلام نبی شاہد کے نظموں کا مجموعہ’’چاند گواہ ہے تبصرہ

May 23, 2025
کالممضامین

مرزا بشیر احمد شاکرحکیم الامت کے آئینے میں تجزیہ

May 23, 2025
کالممضامین

سہل اندازی سےذرا نکل کر تو دیکھو | رقص کرنا ہے تو پھر پاؤں کی زنجیر نہ دیکھ (قسط دوم )

May 23, 2025
کالممضامین

! بھارت میںترکی کے سیب کی درآمدگی پر پابندی کشمیر ی سیب باغات مالکان کے لئے خوش خبری

May 23, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?