نئی نویلی دلہن کی طرح سجی سنوری۔۔۔خوبصورت اور دل کو موہ لینے والی شکل و صورت،چھریرا بدن،جلد کی چمک۔۔۔۔حیران کن تھی۔
وہ چلا رہی تھی۔۔۔اور چلائے جا رہی تھی۔۔۔
’’میرے ساتھ ظلم ہو رہا ہے۔۔۔‘‘
’’میری خوبصورتی کو مسخ کرنے والو۔۔۔‘‘
میری من موہنی صورت کو داغدار بنانے والو۔۔۔‘‘
’’میرے بدن کی خوشبو کو بدبو میں بدلنے والو۔۔۔
’’میری چمک اور آب و تاب کو مٹانے والو۔۔۔‘‘
’’میں تمہیں کبھی نہ بخشوں گی۔۔۔‘‘
’’میں نے تمہیں کیا نہیں دیا۔۔۔‘‘میں نے تمہیں خوبصورتی دی‘‘
’’میں نے تمہیں اپنی چھاتی پر چلنے کی آزادی دی۔۔۔‘‘
’’تمہیں رہنے کے لئے گھر دیا،رہنے کی جگہ دی۔۔۔‘‘
’’تمہارے گھر والوں کے لئے روزی روٹی عطا کرنے کا سامان دیا۔۔۔‘‘
’’تمہیں تمہارے فالتو اوقات میںخوشیا ںعطا کی۔۔۔‘‘
اور تم لوگوں نے۔۔۔مجھے کیا دیا‘‘
لوگ جوق در جوق جمع ہوگئے کہ یہ درد بھری آواز کس کی ہے۔کس کی آواز نے ان سب کو چونکا دیا۔دیکھا کہ ایک ستم ظریف نوجوان دلہن ،جو دلہن کا روپ لئے مگر بڑھاپے کی شکل میںکھڑی ہے۔جس کا چہرہ مسخ شدہ ہے اور جو اپنا دریدہ لباس لئے سڑک پر ایستادہ ہے۔
ؒلوگوں نے پوچھا۔’’کون ہو تم اور یہ سب کیا کہہ رہی ہو۔۔۔کس نے تمہاری یہ حالت کی ہے۔؟‘‘
’’میں کشمیر کی گود میں پلنے والی ایک ایسی دلہن ہوں جس کو تم لوگوں نے جیتے جی مار ڈالا۔
میرے بدن کو کاٹ کاٹ کر اس کے ٹکڑوں کو اپنے نام لکھوا دیا۔
میرے خوبصورت اور خوبرو چہرے کو اتنا گندہ کردیا کہ میرا چین اور میرا قرار لٹ گیا۔
میں راتوں کو سوتی نہیں ہوں۔جب تک میرے جسم کے تمام اجزا جو جھاڑیوں اور تاروں میں بند پڑے ہیں نہ کھولیں جائیں، مجھے تب تک چین نہ آئے گا اور میں تب تک یونہی چلاؤں گی۔
تمام گندگی اور کوڑا جو تمہارے گھروں سے نکلتا ہے تم میرے منہ پر دے مارتے ہو۔
میرے منہ پر لگی گندگی جب تک صاف نہ کی جائے اسی طرح واویلا کرتی رہوں گی۔‘‘
’’تمہارے ساتھ یہ ظلم کس نے کیا؟‘‘
’’ میرے ساتھ یہ ظلم خود کشمیریوں نے کیا‘ ‘۔
تم بتاتی کیوں نہیں کون ہو تم ‘‘لوگ اصرار کرنے لگے
’’میں جھیل ہوں‘‘
’’تمہارا نام کیا ہے۔‘‘
’’میرا نام ڈل ہے۔جھیل ڈل اور میں کشمیر کا دل ہوں‘‘
٭٭٭