اشرف چراغ
کپوارہ// کپوارہ کے درد ہرے کرالہ پورہ میں مٹی کے برتن بنانے والو ں کی بڑی تعداد آباد ہے جس کی وجہ سے یہ علاقہ کمہار محلہ کے نام سے معروف ہے ۔درد ہرے کرالہ پورہ میںبرتن بنانے کے پیشہ سے وابستہ افراد کی خاصی تعداد رہائش پذیر ہے جنکی ہنر مندی کے شاہکار مٹی کے برتنو ں کی صورت میں پورے ضلع میں فروخت ہوتے ہوئے نظر آرہے ہیں ۔ درد ہرے نامی اس بستی میں اس فن نے اپنے وقت میں عروج حاصل کیا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس فن نے بھی دم تو ڑ دیا ۔بستی سے تعلق رکھنے والے ایک بزرگ شہری محمد جمال کمہار کے ہاتھوں میں ایسا جا دو ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے وہ مٹی کے ڈھیر کو چاک پر رکھ کر انتہائی خوبصورت برتن میں تبدیل کر دیتے ہیں ۔محمد جمال نے کشمیر عظمیٰ کو بتایاکہ مٹی سے برتن ،مجسمے ،کھلونے اور دیگر اشیا ء بنانے کا فن قدیم تہذیبوں میں بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔انہوں نے کہا’’ مٹی کے برتن ہماری ثقافت کا لازمی جزو ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل ان سے دور ہوتی جارہی ہے کیونکہ انہیں اس کام سے کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا ہے‘‘۔انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس قدیم صنعت کو حکومتی سطح پر نظر انداز کرنے کے بعد یہ فن زوال کا شکار ہو گیا ۔محمد جمال نے کہاکہ ایک وقت تھا جب درد ہرے میں پائے جارہے اس فن کو کافی شہرت حاصل تھی کیونکہ پورے ضلع میں شادیو ں میں لوگ مٹی کے بڑے برتن استعمال کرتے تھے ۔جمال کے مطابق جب کسی گھر میں شادی ہوتی تھی تو ایک ماہ قبل شادی کی تاریخ پر مٹی کے برتن تیار کرنے کے لئے پیشگی پیسہ بھی ادا کئے جاتے تھے اور شای سے قبل یہ مٹی کے برتن لیکر ان میں واز وان تیار کیا جاتاتھا ۔انہوں نے کہا کہ اتنا ہی نہیں بلکہ درد ہرے کے ماہر کاریگروں کے ہاتھو ں سے بنائی گئی مٹی کے مختلف النوع اشیا ء بیرون ریاست بر آمد کی جاتی تھیں جن سے ہماری آمدنی میں اضافہ ہوتا تھالیکن اب وہ ماہر کاری گر وفات پاچکے ہیں اور باقی روز گار کے دوسرے شعبو ں سے وابستہ ہوگئے ہیں‘‘ ۔محمد جمال کاموقف ہے کہ ان برتنو ں کی تیاری میں لاگت اور محنت زیادہ ہے مگر اس کے مقابلے میں آمدنی کم ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ برتن بنانے کے لئے ہم پہلے مٹی گوندھتے ہیں پھر ا سے مختلف سانچو ں میں ڈال کر یا اپنی فن کا رانہ مہارت کا استعمال کرتے ہوئے مختلف النوع برتن بناتے ہیں اور ان پر رنگو ں سے ڈزاینگ کی جاتی ہے جو انتہائی مشقت طلب کام ہے لیکن پذیرائی نہ ملنے کے سبب اب اس کا مسقتبل معدوم ہوتا جارہا ہے ۔محمد جما ل کا کہنا ہے کہ اب درد ہرے کرالہ پورہ میں 30سال سے مٹی کے برتن بنانے کا کام کم ہو چکا ہے لیکن میں نے اس ہنر کو زندہ رکھا ۔بزرگ دستکار محمد جمال کا کہنا ہے کہ’ مارکیٹ میں سٹیل ،سلور اور دیگر دھاتو ں سے بنے برتنوں کی وجہ سے مٹی کے برتنو ں اور دیگر اشیا ء کی مانگ کم ہوگئی لیکن اب میں نے کرالہ پورہ بازار میں ان چیزوں کی دکان کھول رکھی ہے اور بزرگ لوگ آج بھی میرے دکان سے مٹی کے برتن لے کر اپنے گھروں میں استعمال کرتے ہیں‘ ۔انہوں نے کہا ’’ میں 40سال سے اس پیشے سے وابستہ ہو ں کیونکہ ہمارے آباو و اجدا دبھی یہی کام کرتے تھے اور ہمیں یہ پیشہ ورثے میں ملا ہے‘‘ ۔انہوں نے حکومت سے اپیل کی کہ اس ہنر کو زندہ رکھنے کے لئے ان کی مدد کریں تاکہ مٹی سے برتن بنانے کے کام کو پھر ایک بار عروج مل سکے ۔