رواں سال کے دوران شدید ژالہ باری ،سکیب اور دوسری بیماریوں اور اب آندھی طوفان کی وجہ سے کشمیرمیں میوہ صنعت کو ایک بار پھر شدید نقصان سے دوچارہونا کا احتمال ہے ۔گزشتہ چندبرسوں سے میوہ صنعت مسلسل خسارے سے دوچار ہے اور وجوہات بیشتر قدرتی رہی ہیں گوکہ کچھ حصہ انسانی وجوہات نے بھی ادا کیا تاہم نہ بیتے برسوںمیں اور نہ ہی اس سال سرکار نے ژالہ باری کے طوفانی سلسلوں کو آفت قرار دیا ۔یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے جب کسان نقصانات سے دوچار ہوئے ہوں بلکہ اب تقریباً ہر سال کسان ایسی آفات سے متاثر ہوتے ہیںاورہر انہیں خون کے آنسو رونے کیلئے چھوڑ دیاجاتا ہے ۔ ایک طرف جامع زرعی ترقیاتی پروگرام کے تحت زراعت وباغبانی کے سبھی شعبوں کو فروغ دینے کی باتیں کی جارہی ہیں اور اس پروگرام کے تحت زر کثیر خرچ کیاجارہا ہے تو دوسری جانب کسان مسلسل پریشان ہے ۔محکمہ زرعی پیداوار جن چیزوںکا کریڈٹ لے رہا ہے ،وہ دراصل اس کے بس کی بات ہی نہیں ہے ۔اگر کشمیر میں زرعی پیداوار یا باغبانی پیداوارمیں اضافہ ہوا ہے تو وہ متعلقہ محکموںکا مرہون منت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے خو د کسانوںنے دن رات محنت کی ہے۔اگر متعلقہ محکمہ کو کسانوں کی اتنی ہی فکر ہے تو کیوں ترجیحی بنیادوںپر کسانوںکو انشورنس کے زمرے میں نہیں لایا جارہا ہے حالانکہ اس کیلئے باضابطہ سکیم موجود ہے اور اس سکیم کی عمل آوری کیلئے گاہے بگاہے میٹنگیں بھی ہوتی رہتی ہیں تاہم عملی صورتحال یہ ہے کہ یہ سکیم بیشتر معاملا ت میں کاغذات تک ہی محدود ہے اور عام کسانوںکو اس کا کوئی فائدہ نہیں مل رہا ہے ۔محکمہ باغبانی کو بالعموم اور یوٹی حکومت کو بالخصوص اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہئے کہ باغبانی شعبہ سے جڑے کسان دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں کیونکہ بمپر پیداوار ہونے کے باوجود وہ ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے منڈیوں میں میوہ کے مسلسل گرتے دام ہیں۔جب ایک باغ مالک کو میوہ فصل پر لگی لاگت کے پیسے بھی نہ ملیں تو وہ اپنے باغ کو فروغ دینے کے جتن کیوں کرے؟۔مشاہدے میں آیا ہے کہ اب کئی سال سے باہر سے میوہ خاص کر سیب یہاں لایاجاتا ہے جو بازار میں کشمیری سیب سے کم قیمت میں دستیاب ہے اور نتیجہ کے طور پر کشمیری سیب منڈیوں میں سڑنے کیلئے رہ جاتا ہے اور کوئی خریدار نہیں ملتا ہے ۔تاہم اب یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اس سال مرکزی حکومت نے کشمیری میو ہ صنعت کو تباہی سے بچانے کیلئے بیرونی ممالک سے ایسے سیب امپورٹ کرنے پر پابندی عائد کی ہے جس کی قیمت ،انشورنس اور فریٹ قیمت فی کلو گرام پچاس روپے سے کم ہو۔اس فیصلہ کا باغ مالکان نے خیر مقدم کیا ہے کیونکہ باہر سے لائے جارہے میوہ نے کشمیری میوہ صنعت کی کمر توڑ کررکھ دی تھی ۔ہمیں یاد ہوگاکہ گزشتہ چند ایک برسوں سے ایرانی سیب بھارتی منڈیوں تک افغانستان کے راستے پہنچتا تھا اور وہ ڈیوٹی فری یعنی ٹیکس سے مستثنیٰ ہوتا تھا جس کے نتیجہ میںوہ سیب انتہائی کم لاگت پر یہاں پہنچتا تھا اور پھر انتہائی کم قیمت پر بازار میں دستیاب بھی ہوتا تھا جس کی وجہ سے کشمیری سیب کی پھر مانگ نہیں رہتی تھی اور کشمیری میوہ سڑتا رہتا تھا تاہم اب شاید ایسا نہیں ہوگا اور کشمیری سیب اچھے داموں منڈیوں اور مارکیٹ میں فروخت ہوگا۔ سرکار کو چاہئے کہ اگر وہ قدرتی آفات سے متاثرہ میوہ باغ مالکان کے نقصانات کی بھرپائی نہیں کرسکتی ہے تو کم از کم اس بات کو یقینی بنائے کہ میوہ صنعت کو کسان بیمہ سکیم کے دائرے میں لایا جائے اور کسانوں کو بیمہ کے ذریعے نقصان کا معائوضہ ملنا یقینی بنایا جائے کیونکہ اب میوہ صنعت سے وابستہ مزید نقصانات کے متحمل نہیں ہوسکتے ہیں کیونکہ اب ان کی کمر ٹوٹ چکی ہے اور مزید نقصانات کا مطلب انہیں انتہائی اقدامات پر اٹھانے پر آمادہ کرناہے جس کے ہم قطعی متحمل نہیں ہوسکتے ہیں۔