وادیٔ ٔ کشمیرسے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان نے کئی سال پہلے اپنی خداداد صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی غرض سے ایک نئے نویلے مضمون کا انتخاب کیا۔اس مضمون کا ہندوستان کی کسی بھی یونیورسٹی میں پڑھانے کا انتظام نہیں تھا، ا س لئے نوجوان کوبیرون ملک جاکر یہ سبجکٹ پڑھنے کی ضرورت پڑی۔گھر میں وسائل کی عدم موجودگی کے باوجود بھی اُس نے ہمت نہ ہاری اور کسی نہ کسی طرح خرچہ جوڑ کر بیرون ملک حصولِ تعلیم کے لیے چلا گیا۔بڑی جانفشانی سے اور راتوں کی نیندگنوا کر جب اُس نے کورس مکمل کر لیا تو اُس کے ہاتھ کسی ملٹی نیشنل کمپنی میں نوکری کا پروانہ تھما دیا گیا۔اُس کی ماہانہ مشاہرہ 90؍ ہزار روپیہ تھی۔یہ اُس وقت کی بات ہے جب ایک اعلیٰ درجہ کے سرکاری ملازم کی ماہانہ تنخواہ بیس ،پچیس ہزار روپیہ سے زیادہ نہ ہوتی ۔ چونکہ روزگار کے بعد ہر نوجوان کا خواب ہوتا ہے کہ رشتۂ ازدواج میں بندھ کر گھر گر ہستی شروع کرے، اس نوجوان نے بھی کئی گھرانوں میں نکاح کے پیغامات بھیجے۔ایک لڑکی کے والدین نے پیغامِ نکاح کے جواب میں نوجوان سے نوکری کے بارے میں استفسار کیا۔ لڑکے نے جواب دیا میں ایک کثیر قومی کمپنی میں کام کر تا ہوں اور میری ماہانہ تنخواہ نوے ہزار روپے ہے۔ لڑکی کے والدین نے پوچھا سرکاری نوکری ہے بھی یا نہیں؟ نوجوان نے کہا کہ نوکری تو ہے مگر سرکاری نہیں ۔لڑکی کے والدین نے سرد آہ بھر کر یہ پیغام ِ نکاح ٹھکرادیا۔ یہ کہانی چٹکلے کے طور نہیں سنار ہاہوں بلکہ مقصد یہ ہے کہ قارئین اندازہ کرسکیں کہ ہماری ذہنی پسماندگی کا کیاعالم ہے۔ کیایہ قصہ ہماری ذہنی پسماندگی پر دلالت نہیںکر تا ؟ یہ تصویر کا ایک رُخ ہے۔
اب تصویر کا دوسر ارُخ بھی دیکھئے ۔حال ہی میں جموں و کشمیر سٹیٹ بورڈ آف سکول ایجوکیشن کی جانب سے دسویں جماعت کے نتائج کا اعلان ہوا۔امسال گزشتہ برسوں کے مقابلے میں طلبہ وطالبات نے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ۔ تاہم ایک مقامی روزنامے نے انکشاف کیا کہ تیرہ ہزار ایسے بچوں کو اس سال امتحان میں بیٹھنے ہی نہیں دیا گیا تھا جو یہ تعلیمی اعتبار سے کمزور بتائے گئے تھے ۔خیر متاثر کن نمبرات کے ساتھ پاس ہونے والے طلباء وطالبات جہاں آج کل ایک طرف اپنی کامیابی کا جشن منا رہے ہیں ،وہیں دوسری جانب وہ انتہائی ذہنی تناؤ کے شکار بھی پائے جاتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اُنہوں نے اپنے کیر ئر کے بارے میں بچپن سے جو اَرمان اور خواب دل و دماغ میںپال رکھے ہیں،اُن کو پاش پاش کیا جارہا ہے اور یہ کام کرنے والا کوئی غیر نہیں بلکہ بذات خود ان کے والدین ہیں!کس قدر ستم ظریفی ہے کہ والدین اپنے بچوں بچیوں کی زندگی بنانے کے لئے اپنا آرام تج دیتے ہیں اور ان کو بچپن سے ہی تعلیم دیتے ہیں کہ ’’بے مقصد زندگی اُس ناؤ کی طرح ہوتی ہے جس کا کوئی سمت ِسفر ہوتا ہے نہ کوئی کھیون ہار ‘‘ اور میڑک کے بعد جب یہ بچے اور بچیاں اپنی کشتی ٔ حیات میں اپناپسندیدہ خواب سوار کر تے ہیں یعنی اپنے مستقبل کی منزل کا تعین کرتے ہیں تو اکثر والدین ان پر اپنی مرضی ٹھونس کر پہلی فرصت میں اُن کی اُڑان کے َپر نوچ ڈالتے ہیں، انجانے میںاُن کے خوابوںکا شیش محل چکنا چُور کر تے ہیںاور کچی عمر میں ہی انہیںذہنی طور بانجھ بنا کر رکھ دیتے ہیں۔ میرا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ میں والدین کا اونچا رتبہ کم کروں۔دُنیا میں بچوںکے سب سے بڑا خیر خواہ اور ہمدردوغم گساراُن کے ماں باپ ہی ہوتے ہیں اورکیر ئرکے انتخاب میں اگر والدین بچوں پر من مانی بھی تھوپتے ہیں تو یقینا اس کے پیچھے بھی والدین کی دانست میں بچوں کی بھلائی مضمر ہوتی ہے۔ واقعی اپنے والدین کی چاہتوں پر مر مٹنا ہر اولاد پر فرض عین ہے لیکن والدین کو بھی چاہیے کہ مستقبل کے حوالے سے اپنی اولاد کی بات غور وفکرسے سنیں ، زمانے کی ہوا سمجھیں اور اپنی اولاد کو اپنے من پسند سبجکٹ چننے کی فراخ دلانہ آزادی دیں کیونکہ ایک طالب علم ہی بہتر طور پر اپنے ذوق وشوق اور رُجحان کے آئینے میں اس بات کا تعین کرسکتا ہے کہ مستقبل میں وہ کس پیشے کے ساتھ انصاف کرسکتا ہے اور کس کے ساتھ نہیں۔
وادیٔ کشمیر میں زیادہ تر طالبہ وطالبات کی ذہانت ومحنت قابل داد ہے مگر ہماری سب سے بڑی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں لوگوں میں اکثر وبیشتررائج الوقت ٹرینڈ کی بلا سوچے سمجھے تقلید کی وبا بھی پائی جاتی ہے۔اس عام رو میں پڑھے لکھے والدین ہی نہیں بلکہ طلبہ وطالبات بھی بہہ جاتے ہیں۔ مثلاًہمارے یہاں شہر و دیہات میں یہ روایت پائی جاتی ہے کہ جو طالب علم ذہین وفطین ہوگا وہ سائنس پڑھے گا اور جو طالب علم تعلیمی اعتبار سے کمزور ہو،وہ آرٹس کا انتخاب کرے گا۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بعض والدین محض اس بنا پرکہ’’لوگ کیا کہیں گے‘‘اپنے بچوں پر خود ساختہ مجبوری کے عالم میں سائنس تھوپ دیتے ہیں،گر چہ اُن میں سائنس سے کوئی دلچسپی ہی کیوں نہ ہو۔اس کا ثمرہ یہ ہوتا ہے کہ بچے اپنے تعلیمی مستقبل میں کوئی بہتر کارکرگی نہیں دکھا پاتے اوران کی ناؤ نتائج کے سمندر میں ہمیشہ ہچکولے کھاکر بے کنار ہو جاتی ہے۔ ہمیں بلا سوچے سمجھے ٹرینڈزکی تقلید کر تے ہوئے بھیڑ چال چلنے اور لکیر کا فقیر بننے سے پر ہیز کر نا چاہیے ۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آنکھ بند کر کے اوروں کی تقلید کرنے کی بجائے والدین اور طلبہ و طالبات کو عقل وخرد اور دور اندیشی سے کام لے کر بچوںاور بچیوں کے کیر ئر کے حوالے سے وہی فیصلہ لینا چاہیے جس سے اولاد کے اپنے ارمان بھی نکلیں اور والدین کا سر بھی فخر سے اونچا رہے اور دونوں سماج میں ا پنا شایان ِ شان مقام حاصل کرسکیں ۔ والدین کو یہ بھی چاہیے کہ اپنی اولاد کی بات غور وتدبر سے سنیں ، جہاں ضرورت ہو وہاں ان کی کونسلنگ بھی لازمی طور کریں ، جب کہ بچوں اور بچیوں کو بھی چاہیے کہ مستقبل کے تعلق سے وہ جس میدان میں جانا چاہتے ہیں،ان کے بارے میں والدین کی رائے بھی سنیں اور پھر جو منزل منتخب کرلیں اُس کو پانے کے لئے اپنے اندر چھپی تمام ترصلاحیتیں اور قابلیتیں کھپا دینے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڑیں ، خاص کر یہ یاد رکھیں کہ یہ مسابقت یعنی کمپٹیشن کا انتہائی تیز رفتار دور ہے ۔ طلبہ و طالبات کو اگر والدین اپنا کیر ئر بنانے کی آزادی دیتے ہیں تو اس آزادی کی وہ قدر کریں اور اپنے مستقبل کی تعمیر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منواتے ہوئے سماج کی تعمیر و ترقی میں اپنا مثبت رو ل ادا کرنے کے قابل بن کر دکھائیں کہ ہم کسی سے کم نہیں۔