سید مصطفیٰ احمد
ایک نجی کوچنگ سنٹر میں کچھ طلباء کو پڑھانے کا شرف کچھ سالوں سے حاصل ہوا ہے۔ مختلف اقسام کے طلباء کے درمیان رہ کر میں نے بہت کچھ سیکھاہے۔ جب انٹرنیٹ کا اثر مخصوص طبقوں تک محدود تھا، طلباء کے اندر توجہ کا کسی بھی قسم کا فقدان نہیں پایا جاتا تھا۔ بیشتر طلباء اپنی پڑھائی میں دلچسپیاں لیا کرتے تھے۔چیزوں کو یاد کرنے اور رکھنے کے بھی سامان مہیا ہوا کرتے تھے۔آج کا یاد کیا ہوا سبق اگلے دن طوطے کی طرح ایک طالب علم کی زباں پر ہوتا تھا لیکن آج حالات کچھ اور ہیں۔ دماغ کی ایسی wiring ہوچکی ہے کہ ایک معصوم بچہ تعلیمی دنیا کی بیشتر چیزوں کو یاد رکھنے سے قاصر ہے۔ یاد کرنے کو تو وہ دنیا کی دوسری ساری چیزیں یاد کرتا ہے لیکن جب تعلیم سے جڑی ضروری باتوں کا ذکر ہوتا ہے تو اس بچے کی ناؤ بھنور میں پھنسنے لگتی ہے۔ میں کیا لکھوں اور کہاں سے لکھوں، میں خود بھی سمجھنے سے قاصر ہوں۔ جی چاہتا ہے کہ اس مضمون کو اسی وقت لکھنا چھوڑ دو اور کسی اور اچھے کام میں اپنی طاقت کا بھرپور استعمال کرو ں،لیکن دل کی گہرائیوں سے آواز آرہی ہے کہ نہیں کہ کچھ الفاظ کو قلمبند کرنا بہت اہم ہوگیا ہے۔ تو اس ضمن میں، میں پھر سے اپنے قلم کو جنبش دیتا ہوں اور کچھ الفاظ کو تحریر کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کچھ دن پہلے دسویں جماعت کے ایک طالب علم سے میری بات ہورہی تھی۔باتوں باتوں میں اس بچے نے مجھ سے اپنی ایک پریشانی کا ذکر کیا۔ اُس نے مجھ سے اپنی داستان سناتے ہوئے کہا کہ میں جو کچھ بھی آنے والے سالانہ امتحانات کے لئے یاد کرتا ہوں، وہ مجھے بھول جاتا ہے۔ میں جتنا زور لگاتا ہوں، اتنا ہی زیادہ چیزیں میرے دماغ سے غائب ہوجاتی ہے۔ اس نے مزید کہا کہ میرے دوستوں کا بھی یہی حال ہے، وہ سب بھی آگے دوڑ پیچھے چھوڑ کی حالت میں ہیں۔ ان کے مطابق وہ پڑھائی پر جب بھی دھیان لگانے کی بھرپور کوششیں کرتے ہیں، تو کچھ وقت چیزیں بہترین اندازہ سے یاد رہتی ہیں لیکن تھوڑا ہی وقت گزرنے کے بعد وہ ان کو دوبارہ زبانی ورد کرنے سے محروم رہتے ہیں۔ حالات یہاں تک سنگین ہوگئے ہیں کہ پڑھائی کے دوران جسم کہیں اور دماغ کہیں اور ہوتا ہے۔ ہم۔distractions کا شکار ہوتے ہیں یا پھر جب ہم ان ڈسٹریکشنس سے چھٹکارا پاتے ہیں، ہماری توجہ پھر بھی اپنے مقصد سے کہیں دور اُڑان بھرتی ہے۔ اس سے ہماری mental health پربُرا اثر پڑا ہے۔ ہم جیسے ایک کنویں میں بند ہیں جس میں ہر طرف سے مختلف قسم کی روشنیاں ہمیں چیزوں کو صاف دیکھنے سے روک رہی ہیں۔
ان بالغ طلباء کی صورتحال کی تہہ میں میں جب اُترا تو مجھے بہت سارے وجوہات کی نشاندہی ہوئی جو ان طلباء کی عدم توجّہ کے محرک ہیں۔ پہلی وجہ ہے روشنی کی رفتار سے بھاگتی ہوئی زندگی۔ اس تیز رفتار بھاگتی ہوئی زندگی کے آسان شکار نوجوان نسل ہوتی جارہی ہیں۔ میں خود انتیس سال کی عمر میں زمانے کی رفتار کو دیکھ کر دھنگ رہ جاتا ہوں۔ میں بھی کبھی کبھار ڈسٹریکشن کی گہری وادیوں میں چلا جاتا ہوں۔ دوسری وجہ ہے وقت سے پہلے بڑا ہونا۔ یہ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ عمر کے لحاظ سے ایک طالب علم کی زندگی میں چیزوں کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ زندگی کے دوسرے معاملات میں بھی یہ بات صحیح بیٹھتی ہے لیکن جب عمر سے پہلے ہی ان چیزوں سے مقابلہ ہوجائے، جس کے لئے من اور تن تیار نہ ہو، اُس وقت حالات بد سے بدتر ہوجاتے ہیں۔ اندرونی طوفان راہ میں آنے والی ہر چیز کو بہا کرلے جاتے ہیں اور ان حالات میں ترقی کی بات کرنا دیوانوں کے خواب کے مترادف ہیں۔ تیسری اور آخری وجہ ہے سماج میں پھیلی ہوا زہر۔ سماج زہر اور دوا کی آماجگاہ ہے لیکن جب سماج میں زہر کی شدت بڑھنے لگے تب حالات ایک ہی ڈگر پر نہیں رہتے ہیں۔میں سماج ہوں اور سماج کا حصہ بھی، مجھ سے سماج جنم لیتا ہے۔ جب سارے افراد زہر کے شوقین ہوجاتے ہیں، اس وقت بےچینی اور بےقراری کا عالم جنم لیتا ہے۔ ایسا عالم جس پر خوف طاری ہوتا ہے اور انسانی اقدار کا گلا گھونٹنا وہ اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے معصوموں کی دنیا میں طوفان لاتا ہے۔
وقت کی ضرورت ہے کہ جو طلباء عدم توجّہ کا شکار ہوگئے ہیں ،اُن کے ساتھ شفقت اور پیار سے پیش آکر اُن کو اس گرداب سے باہر نکالنے کی کوششیں کی جانی چاہیے۔ ماحول میں زہریلے سانپوں نے اپنے بلوں سے نکلنا شروع کردیا ہے۔ ان کے ارادے تباہی کے ہیں۔ ہمارے بچے ہمارے بچے ہیں۔ نابالغ ہونے کی وجہ سے پیار کرنا تو اہم ہوجاتا ہے لیکن اصلی پیار کس کہتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں، اس پر بات ہونی چاہیے۔ آج زیادہ پھسل جانے کے مواقع ہیں۔ ہم سب کو بہت محنت کرنی ہیں کہ ہمارے نابالغ بچے کہیں دور کسی کھائی میں گرنے نہ پائیں۔ اللہ ہمارے حال پر رحم کرے!
رابطہ۔7006031540
[email protected]