پیغمبراسلام صلی ا للہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری سے پہلے تقریباًایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیائے کرامؑ وقتاً فوقتًا کرہ ٔ ارض پر تشریف لاتے رہے۔ ان میں سے کہیوں پر کتابیں بھی اُتریں اور کہیوں پر شریعتیں بھی مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی شریعتوں اور کتابوں میں عوام نے اپنی سہولتوں کے مطابق تبدیلیاں اور تحریفیں کردیں۔ اس وجہ سے پہلے نبیوںؑ کی اصل تعلیم زیادہ عرصہ تک قایم نہ رہیںاور آخر کار اللہ نے اپنے آخری نبی محمدؐ کو بھیجا ، آپ ؐ پر شریعت کو مکمل کیا اور اپنی آخری آسمانی کتاب قرآن کو قیامت تک بغیر ردوبدل کے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا۔ہمارے آقا صلعم کے دنیا میں تشریف لانے سے پہلے ہندوستان اور عرب سمیت دنیا کے کئی ممالک میں چھوٹی ذاتوں، غریبوں، غلاموں اور عورتوں کے ساتھ بڑی ناانصافیاں ہوتی رہیں۔ یہی وجہ تھی کہ نبیؐ کی زبان ِ حق بیان سے اعلانِ نبوت کے بعد جوق در جوق کفار اسلام کی صفوں میں حصولِ آزادی کے لئے داخل ہوگئے۔ ہندوستان میں بھی خواجہ اجمیریؓ اور کشمیر میں حضرت بلبل شاہ ؒ اور شاہ ہمدان ؒجیسے بزرگ تشریف لائے جو اپنے ساتھ کوئی فوج نہیں لے کر آئے تھے، اگر ان کے ساتھ کچھ تھا تو وہ پیغامِ حق تھا،جس کے نور سے کفار لاکھوں کی تعداد میںجوق در جوق اسلام لائے۔ بہت کم عرصہ میں آخری نبی ؐکا کلمہ پڑھنے والوں کی تعداد بڑھتے دیکھ کر منکرین ِ دین نے اپنے اپنے مذہبوں میں عورتوں، بوڑھوں، نیچی ذات والوں، غریبوں اور غلاموں پر ہو رہی ناانصافیوں میں سدھار لانے کے لیے تحریکیں شروع کر دیں مگریہ اصلاحی مہمیں دم توڑ گئیں کیونکہ ان کی بنیاد حق اور انسانیت پر نہ تھی بلکہ یہ وقتی سیاست اور زمانی حکمرانی پر منحصر تھی ،ا س لئے بے منزل رہیں۔ اب ان لوگوں نے اسلام کے عالمی ومقامی مارچ کو روکنے کے لئے مختلف مسائل کی آڑ میں اسلام کی غلط تصویریں سامنے لانے کی نامراد کوششوں کا جال بچھایا ۔ آج کل مسلمانوں میں تین طلاق کا بناوٹی معاملے کا اچھالا جانا اسی سلسلے کی ایک کڑی سمجھی جانی چاہیے ۔ اس نا پاک کام میں ریاستِ ہند کے مواصلاتی وسائل اب سرکاری نگرانی میں بروئے کار لائے جارہے ہیں ۔ اسلام کو بدنام کرنے کی غرض سے انہوں نے مسلم خواتین سے ہمدردی کا چولہ پہن کر تعدد ازدواج اور حلالہ کے شرعی امور کو بھی ٹی وی مباحثوں میں شامل کر لیا ہے اور پوری آزادی اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ بکے جارہے ہیں کہ مسلم شوہر تین بار طلاق طلاق طلاق کہہ کر اپنی بیویوں کو نکاح سے آزاد کر دیتے ہیں اور اپنے معاشرے کو خراب کر رہے ہیں۔ میں ان حضرات کے عقل وشعور پر ماتم کر تے ہوئے یہ بتا نا چاہوں گا کہ اسلام میں نکاح کا پاک رشتہ زوجین کی ذمہ داریوں اور فرایض سے مشروط ایک کنٹریکٹ ہوتا ہے جس کی اساس باہمی رضامندی ، محبت اور ادائیگی ٔمہر پر اٹھائی جاتی ہے ۔ مسلم معاشرے میں اور وں کے مقابلے میں طلاقیں بہت ہی کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ، مزید برآں اگر شریعت میں صرف مرد کو طلاق دینے کا اختیار ہے تو اسے بیوی سے جدائی اختیار کر نے سے روکنے کے لئے پہلے بہت سارے دوسرے آپشن بھی دئے گئے ہیں ۔ان میں میاں بیوی کے درمیان مصالحت کاری، ان میں جوڑ قائم رکھنے کی فضیلتیں اور ایک دوسرے کے تئیں محبتیں قائم رکھنے کے لئے ہر کوئی طریقہ آزمانے کی جیسی بہت ساری گنجائشیں شامل ہیں ، حتیٰ کہ میاں بیوی کو بچھڑنے سے بچانے کے لئے مصالحت کار کے لئے جھوٹ بولنے تک کو کار ِ ثواب مانا گیا ہے ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جب خلوصِ دل سے میاں بیوی کو سمجھا بجھا کر بگڑے رشتے میںبننے کی آس پیداہوئی تو معاملہ رفع دفع ہوا تو فبہا لیکن اگر یہ تمام وسائل اختیار کر نے کے باوجود فطرت کے تقاضوں اور وسیع تر سماجی مفاد میں طلاق ہی کی راہ اختیار کر ناپڑے تواسلام اس کی کر اہت و ناپسندیدگی کے ساتھ اجازت دیتاہے۔ تاہم پس از طلاق بچوں کی کفالت کا بار نان نفقہ کی صورت میں شوہر پر عائد ہوتا ہے نہ کہ بیوی پر ۔ مزید بر آں اُسے اپنی مطلقہ بیوی کو مہر ادا کرنا پڑتا ہے جو کسی دوسرے غیر مسلم سماج میں نہیں پایاجاتا۔ سچ یہ ہے کہ مسلمانوں کے مقابلے ہندوؤں کے یہاں طلاق کے زیادہ واقعات ہو تے رہتے ہیں۔ اگر چہ ہندو دھرم میں طلاق کا کوئی تصور بھی نہیں ، وہاں تو عورتوں کو یہ تعلیم دی جاتی ہے کے پتی تمہارا پر میشوراورایشور ہے، وہ پتی دیو ہے، تم ا س کی داسی ہو ، وہ تم پر جتنا مرضی ظلم کرے ،کچھ بھی کرگزرے ، تم بس اس کے چرنوں میں پڑی رہو ،وہ مر جائے تو اس کی چتا پر ستی ہوناتا کہ سورگ میں جاؤ۔ اس کے مقابلے میں اسلام نے بیوی کے بھی حقوق بیان کئے ہیں اور شوہر کے بھی اور اگر ان دونوں میں بد قسمتی سے نااتفاقیاں بڑھ جائیں، چاہے اس کا ذمہ دار مرد ہو یا عورت ، یا دونوں ہوں، اس صورت میں اگر یہ لگے کہ ایک ہی چھت کے نیچے انہیں گھٹ گھٹ کر مرجانے سے بہتر یہی ہے کہ دونوں ایک دوسرے کے بندھن سے آزاد ہو جائیں تاکہ دونوں نئے سرے سے کسی اور جیون ساتھی کے ساتھ اپنی زندگی کی نئی شروعات کر سکیں، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ عورت کو یا اس کے میکے والوں کو دوبارہ مطلقہ کی شادی کروانے میں دشواری بھی ہو سکتی ہے، اس لئے مرد پر مہر واجب رکھا گیا ہے ،جو اُسے ہر حال میں ادا کرنا ہی کرنا ہوتا ہے۔ نیز بچوں کی پرورش وپرداخت کی مالی ذمہ داری بھی مرد پر ہی عائد ہوتی ہے۔ یہ تو ہمیں پتہ ہے کہ طلاق تب ہوتی ہے جب دونوں ایک دوسرے کے ساتھ خوشی خوشی زندگی بسر کرنے کی امید چھوڑ دیں مگریہ نا پسندیدہ اقدام اس سے بہتر لگتاہے کہ مرد رشتۂ زوجیت ختم کرنے کے لئے بیوی کا قتل کر دے یا بیوی مرد کے ساتھ نبھاہ نہ ہونے کی صورت میں خود کشی کر ڈالے۔ کیا یہاں کے ہندو حکمران یہی چاہتے ہیں کے مسلمانوں میں طلاق کا سسٹم ختم ہو جائے اور میاں بیوی میں ناچاقیاں ہونے کے بعد اُن دونوں کی زندگیاں جہنم بن جائیں اور نوبت یہ پہنچے کہ وہ بھی وزیراعظم نریندر مودی کی طرح بیویوں کو الگ رہنے پر مجبور ہوں ؟ جو کندہ ٔناتراش یہ کہتے ہیں کے ایک ہی جھٹکے میں تین طلاقیں دے کر مرد عورت کو آزاد کر دیتا ہے تواس سے ان کے بچوں کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے، ان سے سوال ہے تو کیا ان دونوں کو مجبوراً ایک دوسرے سے بناوٹی جوڑ بنائے رکھنے یا بیوی کو بچوں سمیت میکے والوں پر بوجھ بناکے ان کی گھریلو زندگی تباہ وبرباد نہیں ہوتی ؟ کیا ان کے بچوں کی زندگیاں اس طرح خراب نہیں ہوتیں ؟
کہا جاتا ہے کہ مسلمانوں میں صرف مردوں کو طلاق دینے کا حق کیوں؟ عورتوں کو کیوں نہیں؟ اگر یہ سوال کر نے والے غیر مسلم ہیں تو ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے ؟ مگر سوالی کوئی مسلمان ہے اور اس کے باوجود اللہ اور اس کے آخری رسول ؐ کے بتائے ہوے قانونِ نکاح وطلاق پر بلا کسی واقفیت کے انگلی اٹھاتا ہے تو معاف کیجئے وہ نام کا مسلمان رہا کیونکہ اول یہ خیال کرنا ہی غلط ہے کہ بیوی کو جدائی کااختیار حاصل نہیں ، قطعی نہیں، اسلام نے بیوی کو خلع یعنی مردسے جدائی کا مشروط اختیار دیا ہے، دوم جوحضرات اللہ اور اس کے رسولؐ کے قانون کو نہ مانے وہ مسلمان کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر وہ لاعلمی کے عالم میں کہتے پھریں کہ طلاق کا قانون مولویوں نے بنائے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ یہ باور کرانا چاہتے ہیں سبھی مسلمان غلط ہیں اور ایک ہم سب سے بڑے عالم ومدبر ہیں ۔میں ا یسے جاہل حضرات کو کہہ دینا چاہتا ہوں کہ وہ اس خود فریبی سے باہر آکر علم اور معلومات کی بنیاد پر اپنے ایمان ویقین کا از سر نو جائزہ لیں پھر موضوعِ نکاح و طلاق پر گفتگو کر یں ۔
اصل بات یہ ہے کہ مودی حکومت اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے پیچھے لٹھ لئے گھوم رہی ہے ۔اس کا کام ہی یہ ہے کہ نفرت ، شکوک شبہات اور غیر ضروری مسائل کو اچھال کر اپنا ووٹ بنک تعمیر کر ے اور اسلام کی انفرادیت اور مسلمانوں کی مسلم پرسنل لاء پر وحدتِ فکر اور ملّی سالمیت کو زک پہنچائے ۔ اس لئے مسلمانوں کو مسلکوں اور فرقوں کی تقسیم سے اوپرا ٹھ کے مسلمانوں کو اس بار شاہ بانو مقدمے کے زمانے کی طرح ایک ساتھ آواز بلند کرنا ہو گی۔اگر اس وقت ہم نے اپنے لایعنی اختلافا ت میں بہک کر شرپسندوں اور اسلام دشمن برہمن واد کو اسلام کے خلاف مورچہ زن ہونے سے نہ روکا تو یقین مانئے کہ یہ اسلام کو اسی طرح ملک بدر کر ے گا جس طرح بر ہمنوں نے بودھ مت اور جین ازم ہندوستان سے کھدیڑا تھااور اب یہ مسلم اور دلتوں کے پیچھے پڑکر ان اقلیتوں کوبکھیر نا چاہتے ہیں۔ اصولی بات ہے کہ مرد کہیں نکاح اور طلاق کو کھیل تماشہ نہ بنا دیں کہ جب چاہا چھوڑ دیا اور جب چاہا دوبارہ نکاح کر لیا ، اس حماقت سے بیویاں واقعی کھلونا نہ بن جائیں،ا س کے لئے علماء اور دانش وروں کو آگے آنا چاہیے ، سماجی اصلاح کاروں کو شادی بچاؤگھر بناؤ مہمیں چھیڑنی چاہیے۔ نیز ہر مسلم شادی شدہ مرد جانتا ہے کہ کسی ناچاقی ، جھگڑے اور معمولی گھریلو مسئلے اورا ختلاف میں پڑ کر وہ طلاق لینے یا دینے سے پہلے ہزار مرتبہ اپنے مستقبل پر سوچ وچار کر نے کا پابند ہے کہ کہیں طلاق کا چار حرفی لفظ کہہ کر خود کی بربادی کا سامان تو نہیں کرر ہا ؟ وہ یہ بھی جانتاکے تین طلاقیں اور تنسیخِ نکاح کے بعدمیاں بیوی دوبارہ ایک دوسرے سے نکاح نہیں کر سکتے جب تک اس سلسلے میں شر یعت شریف کے تمام کھٹن تقاضے پورے نہ ہوں۔ عورت کو بھی شریعت نے اختیار دیاہے کہ وہ اپنے مرد کے ساتھ نکاح کی دستاویز ِحیات پر خط ِتنسیخ پھیر دے مگر یہ اختیار بعض اہم شرائط سے مقید ہے،کیوں کہ اسلام کی تعلیمات میں ہر فرد بشر کے لئے عدل وانصاف ہے ۔ قربان جایئے اسلام کے قوانین پر کہ اس نے ہر ایک کا پورا پورا خیال رکھا ہے، مرد کو قوام ٹھہرایا ہے مگر اس کی اپنی تمام تر فطری ذمہ داریوں کے ساتھ۔ اسی کے پہلو بہ پہلو میاں بیوی کو ایک ودسرے کا لباس کہا ہے ، ان کا رشتہ سمجھانے کے لئے انہیں کھیتی اور کسان سے مشابہت دی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دونوں برابر کے ذمہ وار ہیں اور گھر گرہستی کی گاڑی یا کشتی مشترکہ طور اپنے اپنے دائرہ کار میں چلانے کے وعدہ بند ہیں ۔ نیز عورت کو خلع کا ہی اختیار نہیں دیا گیا بلکہ وہ اپنے نکاح کے معاملے میں اپنے سر پرست اور ولی سے اپنی مرضی کہنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔ بہر حال مسلم پرسنل لاء کے سفینے میں چھید کر نے کے لئے کروڑوں مسلمانوں کے نمائندے وہ دو چار وظیفہ خوار اور حکومت نواز ایمان فروش نہیں بن سکتے جو اپنے حقیر مفاد ات کے لئے ۴۸۱ ملین مسلمانوں کے دینی جذبات ٹی وی چنلوں کی وساطت سے مجروح کر تے پھرتے ہیں۔ ہندوستان میں سبھی شہریوں کو آئین نے مذہبی آزادی دی ہے اور یہ آزادی کوئی کرنسی نوٹ نہیں کہ ملک کا سربراہ اسے زبان کے چٹخاروں میں طلاق طلاق طلاق کہیں اور پوری قوم کو بحران زدہ کر کے چھوڑدے بلکہ مذہبی اورسیاسی آزادی کا مفہوم یہ ہے کہ شہریوں کا دین دھرم اٹل ہے ،اس میں کسی فرد یا ادارے کی مداخلت برداشت نہیں کی جاسکتی ،چاہے وہ ملک کا حکمران ہو یا کوئی عام آدمی یا عدلیہ ۔
اس وقت بکاؤ میڈیا پر طلاق کا گر ما گرم ٹاپک بوجوہ مودی حکومت چلوارہی ہے تاکہ ہندوستان کے شہری اصل مسائل سے غافل رہ کر اسی گورکھ دھندے میں پڑیں رہیں اور حکومت اپنا وقت عیش و آرام سے کاٹتی رہے، لو گوں کو مہنگائی اور بے روزگاری کے جہنم میں جل بھن جانے کی فکر سے زیادہ اوروں کے بارے میں لایعنی قسم کی پر یشانی لاحق رہے۔ میری طرح ہر محب وطن انسان موجودہ ہند تو سرکار سے ادب کے ساتھ عرض کرنا چاہے گا کہ خدارا ہندوستان کو ان مسائل میں الجھا کر کمزور نہ بنائیں،نہ دوبارہ بابری مسجد کی شہادت اور ممبی ٔبم بلاسٹ جیسے واقعات کے جنم داتا بننے کی غلطی کا اعاد ہ کریں ۔ آپ مسلمانوں کے جذبات کے ساتھ کھیل کر ہندوستان کا مفاد خود اپنے ہاتھوں بر باد کر رہے ہیں ۔ اپنے ہم وطن ہندو بھائیوں سے بھی بصد احترام کہوںگا کہ آرایس ایس کے ہندو راشٹر کے سہانے سپنے کے بہکاوے میں آکر فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے والوںکو اس پیارے دیش کے حال اور مستقبل سے کھلواڑ نہ کر نے دیں۔ سکھ، عیسائی، بدھ اور جین سب قومیں سب جانتی ہیں کہ انہیں اس پیارے ملک میں آینی آزادیاں حاصل ہیں اور ان میں یہ صلاحیت بھی بدرجہ ٔ اتم موجود ہے کہ نکاح و طلاق اور وراثت کے معاملات اور مسائل اپنے مذہب کے مطابق حل کر یں ۔ صرف سنگھ پریوارہی سبوں کی ٹھیکیدار کیوں بنی ہوئی ہے؟ اس ملک میں امن وآشتی کی برقراری کا پہلا مطالبہ یہ ہے کہ غیر ہندوؤں کے مذہبی معاملات میں مداخلت کر نے سے گریز کیا جائے۔ میڈیا پر ایسے حساس معاملات کو اچھالنے پر روک لگانی چاہیے اور سپریم کورٹ کو فوری طور پر اجتماعی ضمیر کی تسکین کے لئے تین طلاق والے معاملے کو خارج کرلے تاکہ نہ صرف عدلیہ کا بلند پایہ وقار ہر حال میں اونچا رہے بلکہ اس ملک میں ہر قوم کوبرابر ی کا درجہ ملے اور کسی کو بھی دو قومی نظریے کی وکا لت کا موقع ہاتھ نہ آئے۔
رابطہ 9858976734