بشارت بشیر
مرد وخواتین کے درمیان جائز تعلقات کے استحکام واستواری کا ایک ہی ذریعہ اسلامی نکاح ہے ، نسل ونسب کی محافظت کا وسیلہ بھی یہی رشتہ ہے یہ کوئی وقتی ، جزوقتی اور کمزور وعارضی تعلق نہیں ، بلکہ ایک ایسا معاہدہ ہے جو مضبوط تر ہے۔ قرآن وسنت نے اس کے فوائد سے خوب آگاہی دلائی ہے اور نسل انسانی کو اس رشتے کو نبھانے کے آداب سے بھی آشنا کیا ہے۔جہاں رشتہ دونوں کو بدنگاہی وسیاہ کاری سے بچاتا ہے، وہاں یہ ذہن وقلب کو سکون وراحت فراہم کرنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔ اسی نکاح سے نیک اور صلاح اولاد بھی جنم لیتی ہے۔جو آگے چل کر درست تربیت بہتر تعلیم اور پاکیزہ ماحول فراہم ہونے کی صورت میں آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون وسرور ثابت ہوتی ہے۔ اس کی اہمیت اتنی کہ اسے تکمیل ایمان کا سبب بتایا گیا اور شرم گاہ کی حفاظت کو جنت کی ضمانت قرار دیا گیا ۔(نسائی)۔ یہ بہت ہی پاکیزہ رشتہ ہے۔ زوجین باہم شیر وشکر ہوں ،انس ومحبت کی فواریں پھوٹ رہی ہوں۔سارے گھر کی خوشی کا راز ان ہی میاں بیوی کے یک جاں و دو قالب ہونے میں مضمر ہے۔ یہ آپس میں صلح وآشتی سے رہیں تو جھونپڑی بھی بڑے شاندار محل کا روپ دھارن کرتی ہے اور اگر رشتہ میں تلخیاں ، کدورتیں اور نفرتیں جنم لیں تو فلک بوس محلات اور بے شمار دھن ودولت کی کوئی قدر وقیمت نہیں ،فطری امر ہے کہ جن دو اشخاص کو رشتہ ازدواج کے بندھن میںباندھ دیا گیا وہ نوع بشر سے ہیں اور دونوں سے خامیوں ،کوتاہیوں اور غلطیوں کا صدور ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ رشتوں کا تقاضا ہے کہ انہیں محفوظ رکھنے کے لئے تحمل وبردباری کا دونوں جانب سے مظاہرہ ہو یہ رشتہ قدم قدم پر صبر وسکون طلب کرتا ہےاور اگر اللہ نخواستہ کبھی کوئی ایسی بات ہوگی کہ نزاع واختلاف بڑھ گیا۔ نشووز ونافرمانی کی فضاء قائم ہوئی تو اس صورت میںبھی شریعت مطہرہ نے زوجین کے درمیان مصالحت ومفاہمت کا ماحول پیدا کرنے کا ایک لائحہ عمل دیا ہے۔
یاد رہے کہ اسلام نے مرد وعورت کی مکمل رضامندی سے ہی ان کا نکاح کرنے کی اجازت دی ہے جہاں لڑکی کے لئے ولی کی اجازت کو اہم قرار دیا ،وہاں لڑکا بھی اپنے والدین کو نظر انداز نہ کرے۔چونکہ نکاح اکثر عالم شباب میں ہی ہوتا ہے دونوں دنیا کے تجربات اور اس کے سردوگرم سے ناآشنا ہوتے ہیں ۔نہیں جانتے کہ سن رسیدہ لوگوں اور بڑوں کی نگاہ دور رس وہ چیزیں دیکھ لیتی ہیں جنہیں دیکھنے کی صلاحیت ابھی ان میںنہیں ہوتی ۔ بزرگوں اور سن رسیدہ لوگوں سے مشاورت کے فوائد اتنے ہیں جنہیں گنا نہیں جاسکتا۔ یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ ہونے والے میاں بیوی کے درمیان فکر وخیال معاشرت ، طرز بودوباش اور دین داری میںکس قدر قربت ویکسانیت ہے ۔ نہیں تو ہزار طرح کے مسائل جنم لیتے ہیں ۔ تنائو بڑھ جاتا ہے دو خاندان سکون سے محروم ہوتے ہیں اور پریشانیاں گھیر لیتی ہیں۔
فی الوقت ہمارے معاشرے کو جن مختلف النوع مصائب ومسائل کا سامنا ہے اُن میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح سر فہرست ہے ۔یہ مسئلہ انتہائی پریشان کن بن چکا ہے اور کتنے ہی والدین ہیں جنہوں نے اپنی دولت بے دریغ لٹا کر بچوں کی شادیاں انتہائی تزک واحشام سے کرلیں۔لیکن کچھ ہی عرصہ گذر جانے کے بعد میاں بیوی میں اَن بن شروع ہوئی ، تلخیاں بڑھتی رہیں ،رنجشوں نے جنم لیا ، کدورتیں آسمان کو چھونے لگیں نوبت بر ایں جا رسید کہ ناز ونعم میں پلی بڑھی جواں بیٹی ہاتھ میں پروانہ ٔ طلاق تھما کر لوٹا دی گئی ۔ بزرگ والدین اور بھائی بہنوں کے لئے یہ واقعات کسی قیامت سے کم نہیں ہوتے ۔ یاد رہے کہ کسی بھی معاشرے کا خاندانی نظام ہی اس کی بنیادی اکائی ہوا کرتا ہے اور مضبوط خاندانی سسٹم ہی انسانی نسل کی بقااور بچوں کی پرورش و پرداخت کے لئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ مت بھولئے کہ ناکام شادیاں صرف دو افراد کے الگ ہونے کا نام نہیں بلکہ یہ عمل اس گھر کی آنے والی نسلوں کو بُری طرح متاثر کرکے رکھ دیتا ہے۔ اس حوالہ سے والدین کی یہ ذمہ داری ہے کہ بیٹے یا بیٹی کے شریک سفر کی تلاش جب شروع کرلیں تو ترجیحی بنیادوں پر دیکھ لیں کہ جس احسن طریقہ پر اُنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت اور اس کی سیرت سازی کی ہے، کیا اس کے بننے و الی جیون ساتھی بھی وہ اخلاقی اقدار موجودہیں ؟وہ کسی امر شنیعہ کا شکار تو نہیں، اُس کا انداز تکلم کیا متاثرکن ہے ۔ اُس میں کس قدر متانت وسنجیدگی موجود ہے۔ ان امور کو دیکھنا، پرکھنا لازم ہونا ہے اور اگر رشتوں کو طے کرتے وقت مطابقت اور ہم آہنگی سے چشم پوشی کی جائے تو نتیجہ پھر طلاق کی صورت میں ہی برآمد ہوگا۔طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح کے جہاں بہت سارے عوامل ہیں، وہاں ہمارے یہاں کے کچھ لوگوں میں یہ سوچ بھی ہے کہ اگر کسی کا بیٹا یا بیٹی کسی ذہنی تنائو اور اعصابی مسائل کا شکار ہے تو اُسے مشورہ یہ دیا جاتا ہے کہ اس کی شادی کا بندوبست کرلو تو سب کچھ ٹھیک ہوگااور ایسی بھی کہیں کہیں رو چلی ہے کہ کوئی لڑکا اگر گھر کا کام کاج نہیں کرتا، ماں باپ کا کہنا نہیں مانتا ، لاڈے بن کے زیر اثر سویا پڑا رہتا ہے۔عیش ونشاط میں مست ومحو نظر آتا ہے ،کھانے سونے اور کھیلنے کے سوا کچھ کرتا نہیں۔ اس کی تند مزاجی نے گھر کے سکون کو لوٹ لیا ہوتا ہے تو کچھ مشیران یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اس کی شادی کا بندوبست کرلو جب سرپر ذمہ داری آن پڑے گی تو خود ٹھیک ہوجائے گا۔اب اگر اُسے ذمہ داری کا احساس دس بیس سال بعد ہوا اس دوران بیوی بچوں پر کیا گذرے گی یا اگر لڑکا خود جلد ہی ذمہ داریوں سے خوف زدہ ہوکر رشتہ توڑنے پر آئے تو بھلا بتائیے ذمہ دارکون ہوگا۔یاد رہے کہ نکاح ایک حساس اور سنجیدہ رشتہ ہے، طے کرنے سے پہلے کئی بار ہر ہر پہلو پر یک سوئی سے غور کرنا ہوتا ہے اور پھر ہر قدم قرینے سے اُٹھانے کا یہ رشتہ ہر آن تقاضا کرتا ہے۔
طلاق کی متعدد وجوہات میںسے ایک اہم وجہ جیسا کہ عرض کرچکا کہ عدم برداشت ہے، ہم سب جانتے ہیں کہ معاشرتی اور خاندانی عمارت محبت ، اخلاقیات اور رواداری کے ستونوں پر کھڑی ہے۔اور جب یہی چیزیں عنقاء ہوجائیں گی تو نکاح روبہ زوال نہیںہوگا تو کیا عروج پائے گا؟اکثر چھوٹی چھوٹی خامیاں جیسے سالن میں نمک یا مرچ کم یا زیادہ محسوس ہو ،روٹی کا کونا تکونی کیوں ہے گول کیوں نہیں، کپڑے اچھے سے پریس نہیں کئے ہوئے ہیں۔ دُھلے کپڑوں سے کبھی صابن کی بو آگئی، وقت پر ناشتہ نہیں ملا تو شوہر نامدار فوراً آپے سے باہر ہونا شروع ہوتے ہیں اور پھر بعض اوقات بات اس قدرآگے بڑھتی ہے کہ طلاق پر منتج ہوکر ہی دم لیتی ہے ۔ ہاں اس عدم برداشت کے بھی کئی وجوہات لوگ مختلف النوع مسائل کے شکار ہیں۔بے روزگاری ٗ صحت کی خرابی اور بڑھتی منگائی سے ہر فرد بشر کے اوسان خطاء کرلیتے ہیں ۔ان پر یشانیوں نے بھی لوگوں کے اذہان کو منتشر کرکے رکھ دیاہے اور اس کے منقی اثرات نے لوگوں کو نفسیاتی عوارض سے بھی دوچار کرلیا ہے۔ جس وجہ سے عدم برداشت کی روش تیزی سے فروغ پارہی ہے۔ یہ سنگین مسائل ضرور ہیں لیکن ہر مسئلے کا حل ضرور ہوتا ہے ،اس کے لئے بیوی شوہر اور دیگر افراد کنبہ کا مل بیٹھ کر مسائل پر سنجیدگی سے سوچنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ سوچوں میں ہم آہنگی ہو تو کوئی عقدہ نہیں جو وانہیں ہوسکتا اور کوئی مسئلہ نہیں جو حل کا پہناوا نہ پہن سکے۔ مادی ومالی اعتبار سے راتوں رات بادشاہ وقت بننے کی حرص نے بھی کچھ کم انتشار معاشرہ میں پیدا نہیں کیا ہے۔ ہم کم پر اکتفا نہیں کرنا چاہتے اور زیادہ کے حصول کے لئے شب وروز ایک کرلیتے ہیں ،اس بھاگم دوڑ میںہم زندگی کے اصل مقاصد کو نظر انداز کرکے خود نئی ضرورتوں کے انبار میں ہر آنے والے دن کے ساتھ اضافہ کرتے ہوئے پریشانیوں کو بڑھاوا دینے کے ذمہ دار بھی بن رہے ہیں ۔ لازم ہے کہ اللہ کی کتاب میں دئے گھئے زوجین کے فرامین کو بغور پڑھ کر انہیں عملایا جائے تو گھر جنت نظیر بن سکتا ہے۔سوشل میڈیا بھی خاندانی نظام میں بکھرائو پیدا کرنے کا موجب بن رہا ہے۔ خواب وہاں کچھ دکھائے جاتے ہیں پھر عملی زندگی جب شرو ع ہوتی ہے ۔تو پھر بیوی شکایت کرتی ہے کہ شوہر اُسے وقت نہیں دیتا ۔اس عدم توجہی کی سب سے بڑی وجہ بھی سوشل میڈیا ہی ہے اور خود عورت سے ہی تو یہی شکایت ہے کہ جو موبائیل فون اُس کے ہاتھ سے چھوٹتا نہیں کوئی چیز اُس سے مانگ لی جائے کوئی سوال کیا جائے تو آنکھ اُٹھا کر دیکھنے کی فرصت بھی نہیں بلکہ نظر یں موبائل پر ٹکا کر ہی انتہائی ترش روئی سے جو کہنا ہو کہہ دیتی ہے ۔رشتوں کا تقدس اُدھر باقی ہے نہ اس جانب اس کی پرواہ، نہیں جانتے کہ یہ بے توجہی بڑھ کر اور آتش فشاں بنتے ہوئے ان کے رشتے کی عمارت کو ڈھا سکتی ہے۔
اس ساری صورت حال کی اصل وجہ یہ ہوا کرتی ہے کہ میاں بیوی نکاح کے اصل پیغام سے آشا ہی نہیں ہوتے، نکاح کے ذریعہ ان کے مابین پاکیزہ محبت اور اصل الفت پر مبنی رشتہ ظہور پذیر ہوتا ہے۔ مفادات سے بالا تر ہوکر وہ ایک دوسرے کے ساتھی بنتے ہیں ۔دونوں کی خوشی باہم اور غم سانجھا ہوتا ہے۔ ایک کو کانٹا چھبے تو دوسرا جگر میںکسک محسوس کرے۔ وہ ایک دوسرے کے ہمدرد بن کر زندگی کی گاڑی کو کھینچ لیں ۔مرد چار پیسے کما کر بیوی اور بچوں کے نان شبینہ کا بندوبست اور اولاد کی تربیت وتعلیم کا اہتمام کرے اور بیوی گھریلو امور کی انجام دہی میں مصروف ہو۔ اپنے شوہر کو سکون فراہم کرے اور بچوں کی پرورش کا نازک کام انجام دے۔ شوہر بیوی کی مجبوریوں کو سمجھتا ہے اور بیوی دن بھر کے تھکے ہارے شوہر کا شام گھر واپسی پر مسکرا کر استقبال کرکے اسے سکون فراہم کرتی ہے ۔غرض دونوں میں ایک دوسرے کے لئے محبتوں کے چشمے پھوٹتے ہوں اور قرآن نے یہ بات یوں بیان کی اور اس کی نشانیوں میںسے یہ ایک ہے کہ اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی جنس سے بیویاں پیدا کیں تاکہ تم ان کے پاس سے سکون حاصل کرسکو اور اس
نے تمہارے درمیان محبت اور ہمدری قائم کردی ۔(الروم :21)
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پڑھئے :’’ نکاح کرنے والے جوڑے کے درمیان جو محبت ہوتی ہے اس جیسی محبت کسی اورجوڑے میں دیکھی نہیں گئی۔‘‘(صحیح الجامع للالبانی
5200؍السلسلۃ الصحیحہ:624)
رشتے کو بچانے کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر صدق دلی سے اعتماد کریں ،بدگمانیوں کو دل میںجگہ نہ دیں ، سنی سنائی باتوں کو وجہ نزاع نہ بنائیں ،شکوک وشبہات سے پرہیز کریں۔قرآن نے کہا :’’اے ایمان والو!تم زیادہ گمان کرنے سے بچو کیونکہ بعض گمان گنا ہ ہیں اور جاسوسی نہ کیا کرو‘‘۔ اس لئے بہر صورت ہر بات کی تحقیق لازم ہے۔بے تحقیق ردعمل دے کر سارے کنبہ کا سکون غارت نہ کریں۔ہاں دونوں نکاح کے حصارمیں رہیںاور پاکدامنی شیوہ بنارہے ۔بے حیائی سے اجتناب ہو ٗ نامحرم لوگوں کو بے گھروں خواب گاہوں اور باورچی خانوں میںنہ آنے دیا جائے۔ہزار مسائل جنم لیتے ہیں ۔کچھ عورتیں شوہروں کی نافرمانی کو شیوہ بناتی ہیں ۔ من مانیاں کرتی ہیں ہر بات کا اُلٹ کرتی ہیں یہ طرز عمل اُن کے لئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے اور اکثرطلاق پر نوبت بھی آتی ہے وہ اس ارشاد ربانی سے ناواقف ہوتی ہیں۔
وللرجال علیھن درجۃ۔ اور مردوں کو عورتوں پر فوقیت حاصل ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سی عورت افضل ہے تو فرمایا :’’ جو کہ اپنے خاوند کو خوش کرے جب وہ اسے دیکھے فرماں برداری کرے جب وہ اُسے حکم دے اور اپنے نفس ومال میںشوہر کی خلاف ورزی اس طور نہ کرے جو شوہر کو ناپسند ہو۔‘‘(صحیح البانی فی صحیح سنن النسائی :1838)
بہر حال معاشرے میں بڑھتے ہوئے طلاق کے رجحان نے حساس طبقوں کو ہلا کے رکھ دیا ہے۔اس لئے لازم ہے کہ شادی کرنے سے پہلے اخلاقی اقدار کو جانچا پرکھا جائے دینداری کو ملحوظ نظر رکھا جانا چاہیے۔دونوں میاں بیوی کو دین کی بنیادی باتوں سے آگاہی ہو۔ اور وہ ایک دوسرے کے حقوق سے واقف ہوں، لازم ہے کہ دونوں اس حوالہ سے سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا مطالعہ کریں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی ، ازواج مطہرات کے ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا سلوک اور ازدواج مطہرات کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت وفرماں برداری کا عمل سب سامنے آئے گا، پھر اس روشنی میں اپنی زندگی کو سنبھالنے سنوارنے کی کاوشیں زوجین کریں،تو سکون وراحت گھروں کا مقدر بن کے رہ جائیں گا۔ اِن شاء اللہ
رابطہ۔7006055300