روز کی طرح شائستہ سر پر چار مٹکے اور بازئوں میں برتنوں کی ایک بڑی سی ٹوکری لے کے ندی پر آئی اور آج معمول سے کچھ زیادہ ہی سہمی اور ڈری ہوئی تھی۔بیچاری کے دونوں ہاتھ برتن دھوتے دھوتے گھس گئے تھے۔ہاتھوں کی تھرتھراہت کی وجہ سے بار بار ہاتھوں سے برتن پھسل رہے تھے،ہونٹ بھی کانپ رہے تھے اور بار بارز لفوں کی لٹیں گلابی رخسار پر آرہی تھیں،جن کو چہرے سے ہٹاتے ہوئے پانی کی بوندیں اس کے چہرے پر شبنم کی طرح چمک رہی تھیں۔آہیں اور سسکیاں دور بیٹھی سہلیاں بھی سن رہی تھیں مجال کوئی ہونٹوں کو حرکت میں لائے اوراس سے حال پوچھے۔دیکھنے میں تو شائستہ برتن دھو رہی تھی مگر نہ جانے کن خیالوں میں غرق تھی وہ تو اس کشتی کی طرح تھی جو بیچ سمندر میں پے در پے لہروں اور موجوں کی تھپیڑوں کی باعث اپنے ساحل سے نا آشنا ہوچکی تھی۔جلدی جلدی برتنوں کو سمیٹا اور پانی بھر کے گھر کی طرف چل نکلی بنا کسی سے حال احوال پوچھے۔
آنگن میں پہنچتے ہی۔۔۔ساس۔۔۔کہاں مر گئی تھی اتنی دیر کیوں لگائی۔۔ بیٹھی ہوگی ان کم ذات سہیلیوں سے میری برائی کرنے۔۔۔ہائے میری قسمت میں تُو ہی غریب آنی تھی۔۔آج افتخار کو آنے دو تجھے آج یہاں سے رخصت کراکے ہی دم لوں گی۔۔۔
شائستہ ا پنے ہونٹوں کو بنا جنبش میں لائے کچن کی طرف گئی۔۔۔۔
آخر کیوں نہ شائستہ یہ سب طعنے و تشنیع برداشت کرتی اپنے والدین کی پانچویں لڑکی جو تھی ،تین کو تو اس کے بوڑھے والدین نے بیاہا تھاجن میں دو واپس آگئی تھیں طلاق لے کے کیونکہ جہیز کی شرط پوری نہیں کرپائے تھے اس کے والدین۔۔شائستہ کو بھی سماج کا جام ذلت نوش نہ کرنا پڑے اس لئے چپ چاپ کبھی ڈانٹ تو کبھی لات تو کبھی کھانے میں نمک کی وجہ سے طلاق کی دھمکیاں بلا چوں چرا خندہ پیشانی سے قبول کرتی۔۔۔
شب وروز کا یہ ناروا سلوک اس کا کمسن بچہ ندیم بھی اپنی آنکھوں سے دیکھتا تھا۔۔فطری محبت جب کبھی کبھی جوش مارنے لگتی تو ندیم ماں کے آنسو بھی پونچھتا تو کبھی ماں کے منہ میں نوالا بھی ڈالتا تو کبھی ماں کے سر پر ڈوپٹہ بھی رکھتا،ماں کو پٹتے دیکھتا تو مارنے والوں سے احتجاج بھی کرتا تھا۔شائستہ کا اگر کوئی سہارا تھا تو صرف ندیم کی مسکراہٹ۔۔ جس پر وہ اپنی جان بھی قربان کرنے کو تیار تھی اور جس کے سہارے وہ کوہ ہمالہ جیسے مظالم بھی فراخ دلی سے برداشت کرنے کا مادہ رکھتی تھی۔ساس کی آو بھگت سے شائستہ کی آنکھیں نم ہوگئیں تو ندیم دوڑتا ہوا ماں کے گلے لگتا ہے۔دونوں ماں بیٹوں کی کچھ دیر بعد آنکھ لگ جاتی ہے۔۔۔اتنے میں اس کی ساس آئی تو اسے نیند میں ہی زور سے لات ماردی تو شائستہ جھٹ سے کھڑی ہوگئی تو ندیم کے منہ سے یک دم دودھ کے کچھ قطرے نکلے توکچھ قطرے اس کے منہ پر لگ گئے تو کچھ قطرے ماں کی چھاتی پر لگ گئے اور زور سے چلانے لگا کیونکہ اس نے بھی صبح سے دودھ کا اک قطرہ بھی نہیں پیا تھا۔۔۔۔تمہیں سونے سے ہی فرصت نہیں ملتی ہے۔ اٹھو تیری بڑی نند آئی ہے اس کے پیر دبائو۔۔۔ شائستہ جلدی جلدی اٹھ کے باہر نکلی۔۔ چارپائی پر اس کی نند، جس کا نام نگار ہے، تین تکیوں پر لیٹی ہوئی، اتنی موٹی کہ چارپائی بیچ میں زمین کے ساتھ لگی ہوئی تھی،ایک آنکھ شائستہ کی طرف۔۔ارے جلدی آئو کمر درد کررہا ہے۔۔ کندھوں میں بھی تکلیف ہے۔۔ اندر سے مالش کا تیل بھی لانا۔۔۔۔
گھنٹوں تک شائستہ کبھی مالش تو کبھی کندھے دبارہی تھی۔۔ بیچاری کے ہاتھ بھی لال ہوگئے۔۔اندر سے ندیم کے رونے کی آواز بھی آرہی تھی پر شائستہ زمین میں گاڑھی ہوئی کیل کی مانند تھی اسکی کوئی حرکت بھی اُس کا زدکوب کرواسکتی تھی۔شائستہ کو اونگھ آنے لگی تو نگار نے اتنے زور سے جھٹکا دیا کہ بیچاری شائستہ کی دھرتی ہل گئی۔۔۔۔کام چور،نکمی تجھے میری ماں نے سر پر بٹھا کے رکھا ہے۔ تجھے کوئی بھی سلیقہ ہی نہیں سکھایا، تجھے خوب چھوٹ دی رکھی ہوئی ہے۔۔۔۔ اٹھو اب گائے کو چارہ ڈالو آج کچھ زیادہ ہی ڈالنا مجھے شام کو ملائی والا دودھ چاہے، مجھے دوائی کھانی ہے۔
شام کو شائستہ کا شوہر افتخار ظلم و جبر کا پیکر گھر پہنچا تو باہر دہلیز پر ماں کو سر کو پکڑے ہوئے دیکھا تو افتخار نے اپنا بیگ پھینکا اور ماں کی طرف لپکا۔۔۔کیا ہوا ماں سب ٹھیک تو ہے نا ۔۔ماں نے آپنا منہ دوسری طرف پھیر لیا۔۔۔۔ ہونٹوں کوچبھاتے ہوئے اور ہاتھوں کو مسلتے ہوئے سمجھ گیا اسی نے آج بھی کچھ کیا ہوگا۔۔۔ارے چھوڑ بیٹا تیری قسمت تو خراب ہے۔۔۔
افتخا ر :ـــ ماں تو بتا مجھے آج میں اس کانٹے کوہمیشہ کے لیے نکالوں گا۔۔۔۔
ماں:ارے بیٹا اللہ مجھ سے جھوٹ نہ بلوائے، جب وہ ندی سے آئی تو کچھ نہ پوچھو کہ اس نے مجھے کیا کیا کہا۔۔میں تو کان پکڑکے کہتی ہوں کہ اللہ اس جیسی بہو کسی کو نہ دے۔۔ہائے۔۔
افتخار:اس کی یہ ہمت ۔۔شائستہ۔۔شائستہ۔۔باہر نکلو
شائستہ افتخار کے لیے پانی گرم کررہی تھی جونہی اس نے افتخار کی آواز سنی تو جلدی جلدی باہر نکلی۔۔۔۔۔ فرمائیے جی۔۔
تم نے میری ماں سے بدتمیزی کی ہے۔شائستہ نے اپنی نگاہ اپنی ساس کی طرف اٹھائی تو ساس نے اپنی آنکھیں دوسری طرف پھیر لیں تو شائستہ کی نگاہ شکست خوردہ ہوکر نیچی ہوگئی۔۔افتخار نے شائستہ کو تھپڑ مارا تو وہ زمین پر گر پڑی ہونٹوں سے خون کے قطرے بہنے لگے۔۔تجھے یاد نہیں میں نے صبح کیا کہا تم سے۔۔۔۔یہ سنتے ہی شائستہ نے افتخار کے دونوں پیر پکڑ لیے۔۔۔ خدارا وہ الفاظ زبان پر مت لائیے۔۔میری روح کانپ اٹھتی ہے۔۔آپ کے لیے تو آسان ہے پر میں تو زندہ در گور ہوجائوں گی۔۔۔۔افتخار نے زور سے پیر جھٹکا اورگرج کر بولا زبان پر نہیںمیں تو اب عملی جامہ پہناتا ہوں۔۔۔طلاق۔۔نہیں خدارا نہیں۔۔۔۔طلاق۔۔۔۔شائستہ کے سر کے بال بکھر گئے ڈوپٹہ زمیں گر کر گرد آلود ہوگیا۔۔۔۔۔۔۔اللہ کے لیے مجھے گھر سے نہ نکالیے۔۔۔۔ طلاق۔۔۔۔۔۔ شائستہ اب کچھ کہتی پر اس کی زبان گنگ ہوگئی،گلے میں منت سماجت کے سارے الفاظ اٹک گئے،آنکھوں سے آنسو رواں دواں اور بستا گھر اجڑتاہوا اورسورج پہاڑوں کے پیچھے سے غروب ہوتا ہوا۔۔۔۔
���
پاہو پلوامہ،موبائل نمبر؛9149620962