سرینگر//’طفیل متو ہلاکت کی سر نوتحقیقات ‘‘کیلئے سرینگر کی ایک عدالت میںدائر عرضی کو زیر سماعت لایا گیا۔عرض دہندہ کے وکلاء اور سرکاری وکیل کے دلائل سننے کے بعد ایڈیشنل مجسٹریٹ سرینگر نے کیس کی اگلی سماعت کیلئے22اپریل2017کی تاریخ مقرر کر دی۔گرمائی ایجی ٹیشن2010کے اوائل میں ماہ جون کی 11تاریخ کو غنی میموریل اسٹیڈیم راجوری کدل کے نزدیک پولیس کے ہاتھوں جاں بحق ہوئے 11ویں جماعت میں زیر تعلیم طالب علم طفیل اشرف متو کی ہلاکت سے جڑے کیس نے سنیچر کو اس وقت نیا موڑ لیا جب ہائی کورٹ کی ہدایت پر یہ معاملہ ایڈیشنل مجسٹریٹ سمال کازز سرینگر کی عدالت میں زیر سماعت لایا گیا۔ جاں بحق طالب علم کے چچا منظور احمد متو کی جانب سے ایڈوکیٹ میاں عبدالقیوم اور دیگر وکلاء عدالت میں بحث کیلئے حاضر تھے جبکہ سرکار کی طرف سے پراسیوکیوٹنگ افسر بھی عدالت میں موجود تھے۔ مزید جانکاری فراہم کرتے ہوئے ایڈوکیٹ مظفر نے بتایا کہ ریاستی ہائی کورٹ کی ہدایت پر اب یہ معاملہ ایڈیشنل مجسٹریٹ سمال کازز سرینگر کی عدالت میں زیر سماعت لایا جارہا ہے اور ہم نے عدالت میں یہ درخواست دائر کی ہے کہ طفیل متو کیس کی سر نو تحقیقات کے احکامات صادر کئے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی ہائی کورٹ میں معاملہ زیر سماعت لایا گیا جبکہ عدالت عالیہ کی ہدایت پر پہلے ریاستی پولیس نے تحقیقات کیلئے خصوصی تحقیقاتی ٹیم یعنی SITتشکیل دی اور اس کے بعد تحقیقات کیلئے کرائم برانچ کا سہارا بھی لیا گیا لیکن دونوں تحقیقات کے بعد عدالت عالیہ میں یہ بتایا گیا کہ طفیل متو کی ہلاکت میں ملوث پولیس اہلکاروں کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں مل سکی۔ ایڈوکیٹ مظفر نے بتایا کہ ریاستی ہائی کورٹ کے ایک سابق سینئر جج جسٹس وریندر سنگھ نے کچھ برس قبل عدالت عالیہ میں طفیل متو کیس کی سماعت کے دوران تاریخی احکامات صاد ر کرتے ہوئے اندیشہ ظاہر کیا تھا کہ اس کیس میں ملوث پولیس اہلکاروں کو بچانے کیلئے مختلف حربے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ اس دوران سنیچر کے روز منظور احمد متو کی طرف سے طفیل متو کیس کی سماعت کے دوران ایڈوکیٹ میاں قیوم اور انکی ٹیم نے اس پورے کیس کی تاریخ بیان کی اور عدالت کو تمام باتوں کی جانکاری فراہم کرتے ہوئے بتایا کہ پولیس کی جانب سے طفیل متو کی ہلاکت میں ملوث اہلکاروں کے بارے میں نیک نیتی سے تحقیقات عمل میں نہیں لائی گئی اور یہی وجہ ہے کہ آج تک اس کیس کو پایہ تکمیل تک نہیں پہنچایا جاسکا۔ اس موقعہ میں عدالت میں موجود سرکاری وکیل نے بھی پولیس کا دفاع کرتے ہوئے دلائل پیش کئے۔ متعلقہ جج نے کیس کی اگلی شنوائی کے لئے 22اپریل2017کی تاریخ مقرر رکھی۔