گاڑی سبک رفتاری سے پکنک سپاٹ کی طرف دوڑ رہی تھی۔ ڈرائیور کی ڈرائیونگ سے بیشتر سواریاں مطمئن تھیں۔ کیونکہ وہ اس کی ماہرانہ ڈرائیورنگ سے واقف تھے اور کئی بار اس بس میں سفر کرچکے تھے۔ ڈرائیور حسب ضرورت سپیڑبڑھاتااور گٹھاتا تھا۔ سپیڈ بریکر اور موڑ کاٹنے کا بھی خاص خیال رکھتا تھا۔کیونکہ یہ پہاڑی راستہ تھا ‘جہاں دن میں بھی گاڑی چلانا آسان کام نہیں تھا۔ اس کے باوجود چند سواریاں عادت سے مجبور یا اپنی دانائی کا بخار نکالنے کے لئے بیچ بیچ میں ڈرائیور کے پاس جاکر بلند آواز میں گاڑی احتیاط سے چلانے'سیپڑ بریکر دیکھتے ہی گئیر بدلنے اور موڑ کاٹنے یا اورٹیک کرنے کے بارے میں ہدایات دیتی رہتیں۔ ڈرائیور ہر کسی کی بات صبر سے سنتا اور مسکراہٹ کے ساتھ سبھی کا شکریہ ادا کرتارہتا۔ یہ لوگ ڈرائیور کی شاباشی سے خوش ہوکر سواریوں کی طرف فخر سے دیکھتے اور انہیں جتلانے کی کوشش کرتے کہ ہم بھی اس فن کے استاد ہیں۔
گاڑی پکنک سپاٹ پر ٹھیک طرح سے پہنچ گئی۔ڈرائیور نے گاڑی پارک کردی اور واپسی کا وقت بھی بتایا۔ لوگ دن بھر سیروتفریح اور فطری مناظر سے محظوظ ہوتے رہے اور وقت مقررہ پر گاڑی میں سوار ہوگئے۔گاڑی واپسی کی طرف چل پڑی۔ بیشتر سواریاں دن بھر کی سیاحت کے قصے ایک دوسرے کو سنانے لگیں۔لیکن وہ لوگ پھر سے ڈرائیور کے پاس جاکر ہدایات نامہ پیش کرتے رہے۔ان لوگوں کی یہ طفلانہ حرکتیں دیکھ کرایک آدمی بغل میں بیٹھی سواری سے کہنے لگا کہ ان لوگوں کو خود بائیک تک چلانی بھی ٹھیک طرح سے نہیں آتی ہے لیکن ڈرائیور کو باربار تنگ کرتے ہوئے ماہرجتلانے کی کوشش کرتے ہیں اور ڈرائیور کی شرافت دیکھ کر اس کے سر پر ہی چڑھتے جارہے ہیں۔یہ سن کربغل والی سواری میں پوشیدہ دل کی بات زبان پر آگئی اور اس نے کہا:
’’دراصل ایسے لوگ ہر جگہ پائے جاتے ہیں 'جو خودتو کسی فن میں ماہر نہیں ہوتے ہیں لیکن اپنی غیر ضروری موجودگی دکھا کر خود کو عقلمند ظاہر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔‘‘
میدانی راستہ ختم ہوکرپہاڑی راستہ شروع ہوگیا۔ ڈرائیور نے گاڑی سائیڈ میں کھڑی کردی۔جب چند منٹ تک گاڑی نہیں نکلی تو ایک سواری نے ڈرائیور سے گاڑی روکنے کے بارے میں پوچھا۔ ڈرائیور خاموش رہا۔ جب کئی اور لوگوں نے روانہ ہونے کے لئے کہا تو ڈرائیور اپنی سیٹ کو چھوڑ کرہاتھ میں چابی لیکر سامنے کھڑا ہوگیا اور ہدایت دینے والوں سے مخاطب ہوا:
’’میں آپ لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ دوران سفر آپ لوگوں نے مجھے ڈرائیونگ کے اصول و ضوابط اور احتیاطی تدابیر کی آگاہی سے نوازا۔ مجھے لگتا ہے کہ آپ مجھ سے زیادہ ڈرائیونگ میں مہارت رکھتے ہیں۔ ادھر اندھیرا بھی ہونے والا ہے اور راستہ بھی پہاڑیوں سے گزرتا ہے جو کہ دن کے اجالے میں بھی کاٹنا مشکل ہوتاہے۔ اس لئے میں سوچتا ہوں کہ آپ میں سے کوئی اب ڈرائیو کرے، تاکہ سفر بغیر خوف وڈر کے طے ہو جائے۔‘‘
سبھی لوگ حیران ہوگئے۔ ڈرائیور نے دو تین بار اپنی بات دہرائی۔ خود کو دانا سمجھنے والے ڈر کے مارے خاموش ہوگئے۔ سبھی کا دانائی بخار اُتر گیا۔۔ جب کوئی بھی آگے نہیں بڑھا تو ڈرائیور نے طنزآمیز مسکراہٹ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے گاڑی اسٹارٹ کی:
''طرم خان کے چیلے''
وڈی پورہ ہندوراہ
موبائل نمبر؛7006544358