پیر پنچال اور چناب خطوں میں طبی خدمات کی فراہمی کے دعوے تو بہت کئے جاتے ہیں مگر زمینی حقیقت اس کے بالکل منافی ہے ۔جہاں ان خطوں میں محکمہ صحت کی لگ بھگ پچاس فیصد اسامیاں خالی پڑی ہیں وہیں بڑی تعداد میں طبی عملہ ایسا بھی ہے جو دور دراز علاقوں کے طبی مراکز میں ڈیوٹی دینے میں کوتاہ اندیشی کا مرتکب ہو رہاہے جس کے نتیجہ میں کئی مراکز بند پڑے رہتے ہیں اور مریضوں کو مقامی سطح پر معمولی سے مرض کے علاج معالجہ کی سہولت بھی نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں راجوری ،پونچھ، ڈوڈہ، کشتواڑ،رام بن اور ریاسی جیسے پہاڑی اور دور دراز اضلاع کے مریضوں یا زخمیوں کو چھوٹے چھوٹے طبی مسائل کےلئے یاتو جموں یاپھر سرینگر کے ہسپتالوں میں پہنچناپڑتاہے، جو ان غریبوں کیلئے صرف تکلیف دہ ہی نہیں بلکہ مالی طور پر بھی نقصاندہ ثابت ہوتاہے۔محکمہ صحت کے دعوئوں پر حقیقی صورتحال کا اندازہ ضلع راجوری کے طبی نظام سے باآسانی لگایاجاسکتاہے جہاں کئی طبی مراکز عملے کی قلت کی وجہ سے بالکل ہی بند پڑے رہتے ہیں ۔ چند روز قبل ڈپٹی کمشنر راجوری نے محکمہ صحت کے افسران کی ایک میٹنگ کی جس دوران یہ انکشاف ہواکہ ضلع میں چھ طبی مراکز ایسے ہیں جو طبی عملہ نہ ہونے کی وجہ سے مقفل ہیں ۔میٹنگ کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ کابینہ اور ہائی کورٹ کے احکامات کے باوجود کئی ڈاکٹراٹیچ منٹوں پر تعینات ہیں جنہیں فوری طور پرغیر منسلک کرکے اپنی اصل جگہوں پر تعینات ہونے کی ہدایت تو دی گئی تاہم ایسی ہدایات ماضی میں بھی بہت بار دی جاچکی ہیں لیکن اٹیچ منٹوں کا مسئلہ نہ ہی محکمہ صحت اور نہ ہی محکمہ تعلیم کے حکام حل کرپائے ہیں۔محکمہ صحت میں پائی جارہی دیگر خامیاں توقابل تشویش ہیں ہی لیکن سب سے بڑ اور سنگین مسئلہ طبی مراکز کا مقفل رہناہے جس کے نتیجہ میں ہزاروں افراد طبی خدمات سے محروم ہورہے ہیں۔ضلع راجوری ریاست کی سرمائی راجدھانی سےصرف ڈیڑھ سو کلو میٹرکی دوری پر واقع ہے جو آج کے جدید دور میں کوئی مسافت ہی نہیں ۔ لیکن یہاں چونکہ باوا آدم ہی نرالا ہے ، لہٰذا پہاڑی علاقہ جات کی جانب کسی کی نظر نہیں جاتی ہے ۔ ایسے میں کم و بیش اڑھائی سو کلو میٹر دوری پر واقع پونچھ اور اسی طرح سے خطہ چناب کے کشتواڑ اور رام بن اضلاع کا کیا حشر ہوگا۔اگر اعدادوشمار پر نظر دوڑائی جائے تو پوری ریاست میں ہی طبی عملہ کی قلت کاسامناہے تاہم سب سے زیادہ خراب صورتحال خطہ چناب اور خطہ پیر پنچال کی ہے ۔چند ماہ قبل جاری ہوئے اعدادوشمار کے مطابق خطہ چناب میں ڈاکٹروں کی 438میں سے 236یعنی چون فیصد اسامیاں خالی ہیں جبکہ راجوری اور پونچھ اضلاع میں 454میں سے 294یعنی 65فیصد اسامیاں خالی پڑی ہوئی ہیں۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ خطہ پیر پنچال اور خطہ چناب پہاڑی علاقے ہونے کی وجہ سے جغرافیائی طور پر دور افتادہ علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں دیگر سہولیات کے فقدان کے ساتھ ساتھ لوگوں کو سڑک روابط سے بھی پوری طرح سے نہیں جوڑاجاسکاہے اور ایسے علاقوں میں طبی مرکز کاکئی کئی ہفتوں تک بند پڑے رہناانسانی جانوں کے ساتھ ایک طرح سے کھلوا ڑ ہے ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ان دونوں خطوں کے ضلع ہسپتالوںسے لیکر پرائمری ہیلتھ مراکز تک طبی و نیم طبی عملے کی شدید قلت پائی جارہی ہے اور باہر کے جن ڈاکٹروں کو ان علاقوں میں تعینات کیاجاتاہے ،وہ سیاسی سفارشات کے بل بوتے پر اپنا تبادلہ کرالیتے ہیں جبکہ کئی وجوہات کی بناپر بہت سے مقامی ڈاکٹروں کی بھی یہ خواہش رہتی ہے کہ ان کی ڈیوٹی جموں خاص میں رہے۔حکام کی غفلت اور افرادی قوت کی کمی کا ہی نتیجہ ہے کہ ان خطوں کے عوام کوطبی جانچ کے لئےمختلف ٹیسٹ کروانے کی خاطر جموں یا سرینگر کاسفر کرنے پر مجبور ہوناپڑتاہے۔ضرورت اس بات ہے کہ ریاست خاص کر خطہ پنچال اور خطہ چناب کے طبی نظام کوپٹری پر واپس لانے کیلئے بڑے پیمانے پر اقدامات کئے جائیں اور افرادی قوت کی تعیناتی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ مشینری اور دیگر ادویات بھی دستیاب رکھی جائیں تاکہ کسی مریض کو مقامی طبی مرکز مقفل ہونے کی بناپرعلاج کیلئے بڑے ہسپتالوں کا کرنے کیلئے دربدر نہ ہوناپڑے۔