بلا شبہ ہمارے کشمیری معاشرے میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک کثیر تعداد موجود ہے،جو عدم مساوات، وسائل کی ناقص منصوبہ بندی اور معاشرتی ناہمواری کی تقسیم سے ایک ہیجانی کیفیت میں مبتلاہے،جس کی وجہ سے طبقاتی کشمکش میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔جبکہ معاشرہ کی ترقی کی راہ میں حائل نوجوانوں کی بے روزگاری بہت بڑا مسئلہ ہے۔ معاشرے میں تعلیم یافتہ بے روزگار زیادہ تر ڈگری یافتہ ہیںاور ان کی شرح تناسب میںمسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔چنانچہ ہمارے یہاں عرصۂ دراز سے چلی آرہی غیر یقینی سیاسی صورت حال اور معاشرتی نا ہمواری نےافراتفری کی جو فضا قائم کرلی ہے۔اُس سے نہ صرف بے روز گار نوجوان بلکہ محدود آمدن والے لاکھوں لوگ غربت و لاچاری اور بے بسیکی زندگی گذار رہے ہیں،جس نےبیشتر نوجوانوں میں احساس کمتری پیدا کردی ہے۔وہ یہی آس لگائے لگائے بیٹھے ہیں کہ یہاں کی حکومت کی طرف سے کب ایسے جامع قوانین اور تعلیمی پالیسیاں مرتب ہوں گی ،جن سے دوررس اور خوش آئند نتائج سامنے آئیں اور نوجوانوں کو درپیش مسائل کا مستقل بنیادوں پر حل نکل آئے۔ظاہر ہے کہ معاشرےمیں نوجوان نسل کی کثیر تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ وہاں کے نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد ابھی تک تعلیم سے نابلد ہیں لیکن وہاں کے باشعور نوجوانوں کی خواہش ہے کہ ان کے گائوں میں معیاری سرکاری اسکول، کالج، اسپتال اور ڈسپنسری وغیرہ قائم ہوں ، بجلی ، صاف پانی اور ضروریات زندگی کی دیگر اشیاء عوام الناس کو میسر ہوجائیں، تاکہ مقامی باشندے بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی سے استفادہ حاصل کرسکیں ۔لیکن ایسا ہر گائوں میں ممکن نہیں ہے، اس کی وجہ وہاں کا روایتی اور قدیم نظام ہے جو بااثر خاندانوں اور افراد کے بنائے ہوئے اصولوں اور قانون پر مبنی رہتا ہے،ان خاندانوں کے نوجوان اپنے اثر و وثوق کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں،لیکن غریب اور مفلس حال نوجوان اُسی روایتی تنگ دستی کے حالات میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتےہیں۔ نوجوان نسل کی کثیر تعداد دیہی علاقوں میں رہتی ہے،جن میںسے ایک خاصی تعداد تعلیم سے نابلد ہے۔ وہاں کے باشعور نوجوانوں کی خواہش ہے کہ ان کے گائوں میں معیاری سرکاری اسکول، کالج، اسپتال اور ڈسپنسری وغیرہ قائم ہوں ، بجلی اور صاف پانی عوام الناس کو میسر آئے، تاکہ مقامی باشندے بنیادی سہولیات اور ضروریات زندگی سے استفادہ حاصل کرسکیں لیکن ایسا ہر گائوں میں ممکن نہیں ہے، جس کی وجہ وہاں کا روایتی اور قدیم نظام ہے جو بااثر خاندانوں اور افراد کے بنائے ہوئے اصولوں اور قانون پر مبنی ہے۔ان خاندانوں کے نوجوان اپنے اثر و وثوق کے ساتھ آگے بڑھ جاتے ہیں،اور پھرزیادہ ترشہر میں ہی بسیراڈالتے ہیں جبکہ غریب اور مفلس حال نوجوان اُسی تنگ دستی کے حالات میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبورہیں۔ المیہ یہ بھی ہےکہ ہمارے یہاں کے دیہی علاقوںاور دیہات میں ایسا کوئی باقاعدہ منظم طریقہ کار نہیں ،جہاں نوجوانوں کو دیہی زندگی کے فروغ کے لئے مختلف طرح کے تربیتی مراکز قائم ہوتے،جن سے وہ اپنی اپنی مقامی زبان میںابتدائی معلومات کرکےاپنی مستقبل کی راہیں استوار کرسکتے،اور جب دیہی علاقوں سے وابستہ نوجوان شہروں سے پڑھ کر واپس گائوں آتے تو وہ اپنےگائوں اور دیہات میں بھی ترقی کا پہیہ چلاتے اور پرانے فرسودہ نظام کی جگہ نت نئی مشینری کے ذریعے زراعت اور دیگر صنعتی شعبوںمیں تبدیلی لاتے اور اس طرح طبقاتی نظام میں بھی شعوری تبدیلی کی فضا قائم ہوجاتی۔ جموں و کشمیر میں آج بھی دور دراز پہاڑی علاقوںمیں تعلیم کے فقدان کی کئی وجوہات ہیں جن میں غربت، بے روزگاری اور نظامِ تعلیم کی ناقص پالیسیاں اورانتظامیہ کی ناکارہ حکمت عملی بھی ہیں۔ نوجوانوں کی کثیر تعداد تعلیم سے محروم ہے۔ اب جبکہ نئی حکومت اقتدار سنبھالنے والی ہے توضرورت اس بات کی ہے کہ طبقاتی کشمکش کو مٹانے کے لئے دیہات اور دور درازدیہی علاقوں میں تعلیم کا نظام وسیع کیا جائے،کیونکہ تعلیم ہی وہ واحد ذریعہ ہے،جس سے انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے اور جب انسان کا شعور بیدار ہوتا ہے تو وہ معاشرے میں موجود طبقاتی نظام کے خلاف اپنا کردار اداکر سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی ذات کے علاوہ ، خاندان، معاشرے اور ملک کی ترقی میں بھی بھرپور کردار ادا کرسکتا ہے۔