مشتاق مہدی
غنی کشمیری کو سرزمین ِ کشمیر سے تعلق رکھنے والے فارسی شعراء کا سرخیل کہا جاتا ہے ۔وہ اپنے زمانے کے بڑے مشہور شاعر تھے ۔برصغیرہند وایران میں انکے بے شمار قدردان موجود تھے ۔کچھ بڑے شاعر صائب ،کلیم وغیرہ ان سے ملنے اور انکا کلام سننے کے لئے ایران سے کشمیر آیا کرتے تھے ۔اُن کے ا سلاف میر سید علی ہمدانی ؒکے ہمراہ واردِ کشمیر ہوئے تھے، پھر انہوں نے یہیں پر مستقل سکونت اختیار کرلی اور سرینگر کے شہرِ خاص علاقہ(کاوڈارہ ) میںرہنے لگے۔
اُن کا نام محمد طاہر تھا ۔غریب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے،کہتے ہیں کہ انہوں نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی ۔اُن کے والد نے محمدطاہر کو ایک عالم فاضل شخص محسن فانی کے حوالہ کردیا۔جس نے انہیںعلمِ طِب ،ادب اور فلسفے کی تعلیم سے روشناس کیا ۔ انیس برس کی عمر میں شاعری کا آغاز کیا ۔پہلے طاہر تخلص تھا پھر کچھ عرصہ بعد غنی کا تخلص اختیارکیا ۔شاید اپنی طبیعت کی بے نیازی ، ویرانہ پسندی اور خود داری کے سبب ۔
اُن کی پیدائش 1630عیسوی میں ہوئی ۔یہ وہ دور تھا، جب کشمیر میں مسلمان بادشاہوں کا دورِ زرین اختتام پزیر ہو چکا تھا ۔ وطن عزیز کی آزادی کا چراغ بجھ چکا تھا۔ساری قوم غم اور ملال میںڈوبی ہوئی تھی ۔کیونکہ سارا کشمیراکبر بادشاہ کے دورِ حکومت میںیعنی1586/ میںمغلوں کے زیر نگیں آچکا تھا۔ہر طرف خلفشار ،بے کیفی اور بد نظمی کی ہوا چل رہی تھی۔شاعر غنی کشمیری جو طبیعتاًـخود دار ،حق گو اور حریت پسند تھا ۔کیسے اپنے لوگوں کی ابتر صورت حال اور کُسم پرسی دیکھ کر آنکھ موندے بیٹھا رہتا ۔اُس نے اپنے درد کو لفظوں کے قالب میں ڈال کر پیش کیا ۔یہ بات میں اس لئے کہہ رہا ہوں ۔کیونکہ اُن کی شاعری میں اس قسم کے اشارے ملتے ہیں۔
کدام باز ندانم در آشیاں بندی است
کہ بست حکم پر کاہ بال مر غاں را
ترجمہ۔ معلوم نہیںشہباز کون سا گھونسلا بنانے کی فکر میں ہے کہ چھوٹے چھوٹے پرندوں کے پر نوچے جارہے ہیں ۔
روزی ما می شو آخر نصیب دیگران
طالع بر گشتہ ھمچون آسیاداریم ما
ترجمہ۔آخر کار ہماری روزی غیروں کا نصیب بن گئی اور ہمارا مقدر چکی کی طرح پھر کر رہ گیا۔
غنی کشمیری کی شاعری کا شہرہ ہر نئے دن کے ساتھ بڑھتا ہی جارہا تھا ۔بادشاہِ وقت اورنگ زیب عالم گیر نے کشمیر کے گورنر سیف شاہ کو حکم دیا کہ ملا طاہر غنی کو دربار میں بھیجا جائے ۔یاد رہے تقریباً سبھی مغل بادشاہ فنون لطیفہ کے دلدادہ تھے ۔ شاعروںاور مختلف فنون سے وابستہ فن کاروں کی حوصلہ افزائی کرنا اپنی شان سمجھتے تھے ۔پسندیدہ شاعر کا کلام سن کرکبھی کبھی اسے ترازو میں تول کر اُ س کے وزن کے برابر اشرفیاں یاچاندی کے سکے بھی مرحمت کرتے تھے۔ گورنر نے غنی کشمیری کو اپنے پاس بلاکر بادشاہ کا پیغام سنایا تو غنی کی رگ ِ حمیت اور خود داری بھڑک اٹھی۔اُ سنے دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا۔بادشاہ کو لکھ دیا جائےکہ غنی دیوانہ اور جنونی ہے پاگل ہے ۔اس لئے وہ دربار عالی میں حاضر ہونے سے قاصر ہے۔گورنر شش پنج میں پڑگیا ۔وہ کیسے ایک دانا مدبر شخص کو دیوانہ قرار دے سکتا تھا ۔صورت حال کی نزاکت سمجھ کر شاعر غنی کشمیری نے فوراً اپنا لباس تار تار کیااور دیوانوں کی سی حرکتیں کرتا ہوا دربار سے نکل گیا ۔
کہتے ہیں کہ واقعے کے ٹھیک تین دن بعد غنی کشمیری رحلت فرماگئے ۔اُس وقت اُن کی عمر صرف اُنتالیس ( 39) سال تھی۔پائین شہر کے وا نٹہ پورہ (کاوڈارہ )میں لوہے کے جنگلے کے اندرپتھروں کا ایک چوکور حصہ ہے۔مقامی لوگوں نے مجھ سے کہا ۔اِسی چوکور حصے کے نیچے وہ دفن ہے ۔اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے ۔وہاںہر طرف ایک ویرانی سی تھی، کچھ بھی ایسا نظر نہ آیا کہ لگے، یہاں فارسی زبان کے ایک عظیم شاعر کا مدفن ہے ۔اتنی عدم توجہی کا سبب کیا ہے ۔۔۔۔۔۔؟ میں سمجھ نہ پایا
غنی کشمیری کا ایک شعر پیش ہے۔؎
ہمچو آتش روشن زمین بود شمع ہر مزار
من کہ مردم کس چراغی پر سر خاکم سوخت
ترجمہ :۔آتش کی مانند مجھ سے ہر مزار روشن تھی
حیف میں مر گیا،کسی نے میری خاک پر چراغ نہ جلایا
غنی کشمیری کی شاعری میںفنی جمال و کمال کی ساحری بھی ہے،فطرت پسندی بھی ۔غم جان اور غمِ دوراںکے ساتھ ساتھ ظلم وجبر کے خلاف ایک شاعر کااحتجاج بھی نظر آتا ہے ۔زیادہ تر متصوفانہ خیالات کا اظہار ملتا ہے ۔کلام میں خاص کر رباعیوں میں حکمت کے موتیوں کی خیرہ کر دینے والی چمک بھی قدم قدم پر چونکا دیتی ہے ۔ کسی بھی زبان میں لکھی گئی شاعری کو دوسری زبان کے قالب میں ڈالنا بچوں کا کھیل نہیں ہے بلکہ مشکل ہے ۔عادل اثیر دہلوی صاحب نے ر باعیاتِ غنی کشمیری کا منظوم ترجمہ کیا ہے ۔اُنکی کاوش قابلِ تحسین ہے ۔کچھ رباعیات کا ترجمہ پیش ہے۔
۱ : ہر چند خموشی سے ہو دل اپنا خوں
ہرگز نہ کہو کسی سے تم رازِ دروں
جو شخص ذہین ہے ، رہے گا خاموش
پُر کاسہ ہے اگر صدا نہ ہوگی بیروں
۲ : مہمان ہوا فقر ہمارے گھر میں
ویرانہ نظر آ تا ہے سارے گھر میں
ہے در پہ کسی اور کے جا نا بھی گناہ
فاقہ ہے اگر آ ج تمہارے گھر میں
۳ : اے دل تو ہر اِک دوست نما سے ہشیار
دشمن ہیں ترے ، اہلِ دغا سے ہشیار
ہر چند محافظ کے ہے مانند اے شمع
فانوس کے تو دست رسا سے ہشیار
۴ : روٹی کو ترے حرص سے کھائیں دندان
بسیار خوری سے تو ہوا ہے ہلکان
جب تک کہ نہ ہو بھوک کی شدت ظاہر
کھانے کے لئے آگے نہ رکھ ہر گز نان
۵ : اشکوں سے ہے طوفان سا گھر کے اندر
ویرانی ہے دیوار تا در کے اندر
کشتی کو مری چومنے آیا جس دم
پانی کا بنا دہن بھنور کے اندر
۶ :دشمن سے تو جنگ کے لئے شمشیر اٹھا
ہو تیر نظر میں تری زہگیر اٹھا
کیا جنگ میں آرام و فراغت حاصل
پر کھینچ لے تکیے میں سے تیر اٹھا
۷ : خورشید کے غم میں ہیں فغاں اور نالے
جو دل سے کوئی سنے تو جاں پر بیتے
تربت پہ بہاتا ہوں یوں اس کی آنسو
شاید کہ وہ اِس خوابِ گراں سے جاگے