سرینگر// ہندوارہ میں گزشتہ برس جاں بحق طالب علم، جسے پہلے جنگجو قرار دیا تھا، کی ہلاکت کراس فائرنگ کے دوران ہونے کے ضمن میں پولیس نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں رپورٹ پیش کردی ہے۔ کمیشن نے رپورٹ کے بعد متعلقہ ضلع ترقیاتی کمشنر کے نام مکتوب روانہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ متاثرہ کنبے کو کس طرح کا معاوضہ فراہم کیا جائے گا۔گزشتہ برس22اگست کوہندوارہ کے مضافاتی جنگل میں جنگجومخالف آپریشن کے دوران فوج نے ایک عدم شناخت شدہ جنگجوکوجاں بحق کرنے کادعویٰ کیا تھا،تاہم بعد میں مذکورہ نوجوان شاہد احمد میر ولد بشیر احمد میر ساکن ہفرڈہ تارت پورہ ہندوارہ نامی ایک عام شہری ثابت ہوا۔ ہلاکت کے بعد انٹرنیشنل فورم فار جسٹس چیئرمین محمد احسن اونتو نے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن میں ملوث اہلکاروں کو سزائیں دینے اور متاثرہ کنبے کو معاوضہ دینے کی درخواست کی تھی ۔کمیشن نے اس سلسلے میں پولیس سے مفصل رپورٹ طلب کی تھی،جو گزشتہ روز پولیس نے کمیشن کے ممبر عبدالحمید وانی کو پیش کردی۔پولیس نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے’’ گلشن بیگم زوجہ بشیر احمد میر نے پولیس تھانہ ویلگام میں ایک تحریری شکایت درج کی،جس میں انہوں نے کہا کہ اسکا فرزند شاہد بشیر ،جو کہ دماغی طور پر کمزور ہے،اور بی ایس سی کا طالب علم ہے،21 اگست سے لاپتہ ہے۔رپورٹ کے مطابق اسی روز گمشدگی کی رپورٹ درج کی گئی،جبکہ فوج کے ویلگام کیمپ سے وابستہ6 آر آر نے ایک عدم شناخت نعش تھانے پہنچائی،اور بتایا کہ،انہوں نے ہنگنی کوٹ میں تلاشیوں کا آپریشن شروع کیا تھا،جس کے دوران جنگجوئوں نے گولیاں چلائیں،جس کا جواب دیا گیا،اور اس دوران ایک عدم شناخت شخص کراس فائرنگ کے دوران مارا گیا۔پولیس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے’’اس سلسلے میں ایک ایف آئی آر زیر نمبر81/2017 زیر دفعات307 , 7/27آر پی سی آرمڈ ایکٹ درج کیا گیا۔تحقیقات کے دوران،عدم شناخت نعش کی شناخت شاہد بشیر میر ساکن دریل کی طور ہوئی اور آخری رسومات کو ادا کرنے کیلئے نعش اہل خانہ کے سپرد کی گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ گواہوں بشمول انکے والدکے بیانات کو دفعہ164Aسی آر پی سی کے تحت عدالت کے سامنے درج کیا گیا۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے’’ گواہوں نے اپنے بیانات میں اس بات کا انکشاف کیا کہ شاہد بشیر21 اگست2017 سے لاپتہ تھا،اور ذہنی مریض تھا۔مذکورہ طالب علم جنگجوئوں اور فوج کے درمیان ہنگنی کورٹ جنگلاتی علاقے میں کراس فائرنگ کے دوران جاں بحق ہوا،جبکہ مہلوک نوجوان کسی بھی جرم میں ملوث نہیں تھا‘‘۔پولیس نے کہا ہے کہ اس کیس کی تحقیقات ہنوز جاری ہے۔ کمیشن نے پولیس رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد ڈپٹی کمشنر کپوارہ کے نام ایک مکتوب روانہ کیا،جس میں کہا گیا کہ اس بات کو دیکھیں کہ متاثرہ کنبے کو کس طرح معاوضہ فراہم کیا جائے۔ اس سے قبل گزشتہ برس سرحدی ضلع کپوارہ کے تارت پورہ ویلگام ہندوارہ علاقہ میں اسوقت احتجاجی لہرچھڑگئی تھی جب فوج کی جانب سے ہفرڈہ کے مضافاتی جنگل میں ایک جنگجوکوہلاک کئے جانے کادعویٰ غلط ثابت ہوا،اوریہ تلخ حقیقت سامنے آئی کہ جنگل میں ماراگیانوجوان کوئی جنگجونہیں بلکہ دارئل نارت پورہ کارہنے والاایک لاپتہ کالج طالب علم ہے ۔شناخت کے نتیجے میں مہلوک نوجوان کی پہچان ڈگری کالج ہندوارہ میں بی اے فائنل ائرمیں زیرتعلیم طالب علم شاہداحمدمیرولدبشیراحمدمیرساکنہ دارئل تارت پورہ ویلگام کے بطورہوئی ۔مہلوک نوجوان کے قریبی، رشتہ داروں نے بتایا تھاکہ شاہداحمدمیر21 اگست کی شام کسی کام سے گھرسے نکل کرنزدیکی دکان پرچلاگیالیکن وہ واپس گھرنہیں لوٹا۔انہوں نے کہاکہ رات دیرگئے اہل خانہ نے شاہدکوتلاش کیالیکن اُنھیں اسکے بارے میں کوئی سراغ نہیں مل سکا،جسکے باعث اگلے روزیعنی اہل خانہ نے پولیس تھانہ ویلگام جاکرشاہداحمدکی پُراسرارگمشدگی سے متعلق رپورٹ درج کرادی ۔ لوگوں کاکہناتھاکہ شاہدکوگرفتارکرنے کے بعدفوج نے ہفرڈہ کے مضافاتی جنگل میں لیجاکرپہلے جسمانی اذیتوں کانشانہ بنایا اورپھراس معصوم کے خون سے ہاتھ رنگے گئے ہیں ،اسلئے فوجیوں کیخلاف دفعہ302کے تحت قتل کامقدمہ درج کیاجاناچاہئے ۔اس دوران ڈی سی کپوارہ نے مظاہرین کوپولیس تھانہ کی مرتب کردہ اُس کلیرنس سرٹیفکیٹ کی ایک کاپی یانقل بھی فراہم کی تھی جس میں واضح طوریہ لکھاگیاہے کہ مہلوک نوجوان کسی بھی غیرقانونی سرگرمی میں کبھی ملوث نہیں رہا اورنہ اس کاکسی جنگجوتنظیم کیساتھ کوئی تعلق تھا۔