یواین آئی
کابل// طالبان حکومت نے اعلیٰ تعلیمی اداروں پر اپنی نظریاتی گرفت مزید مضبوط کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں۔ ان اقدامات میں متعدد مضامین کو ختم کرنا، سینکڑوں کتابوں پر پابندی لگانا اور نصاب کو اپنے مخصوص شرعی تصور کے مطابق ڈھالنا شامل ہے۔وزارتِ تعلیم اعلیٰ نے اعلان کیا ہے کہ 18 یونیورسٹی مضامین مکمل طور پر ختم کر دیے گئے ہیں، 201 مضامین کا ازسرنو جائزہ لیا جائے گا، جبکہ 679 کتابوں کی تدریس پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ وزارت تعلیم کے مطابق یہ اقدامات “جامعات کے نصاب کو شریعت اسلامی اور امارت اسلامی کی پالیسیوں کے مطابق ڈھالنے” کے لیے کیے گئے ہیں۔العربیہ ڈاٹ نیٹ اور الحدث ڈاٹ نیٹ کے مطابق حذف کیے گئے مضامین میں سیاسیات اور قانون سے متعلق موضوعات خاص طور پر شامل ہیں۔ بنیادی حقوق، سیاسی اسلام کی تحریکیں، انسانی حقوق، جمہوریت، افغان آئین، خواتین کا سماجی کردار، تعلقات عامہ میں خواتین کا کردار، سیاسی نظام، سماجی علوم اور جنسی ہراسانی جیسے مضامین نصاب سے خارج کر دیے گئے ہیں۔وزارت نے وضاحت کی ہے کہ یہ مضامین “شریعت اسلامی اور امارت اسلامی کی پالیسیوں سے متصادم ہیں” اور یہ فیصلہ علما و ماہرین کے مشورے کے بعد کیا گیا ہے۔ ساتھ ہی 201 دیگر مضامین کو جزوی طور پر پڑھانے، تنقیدی انداز میں زیر بحث لانے اور ان میں ترامیم کرنے کی ہدایت بھی دی گئی ہے۔