جس وقت پورا بھارت یوم جمہوریہ منانے کی تیاریوں میں مصروف تھا اور دلی میں یہ تقریب منانے کے لئے ریڈ کارپٹ بچھانے کی تیاریاں شدو مد سے جاری تھیں ، اُسی وقت دنیا کے مظلوم ترین خطہ کشمیر کی گلیوں میں معصوم انسانیت کا لہوبڑی ہی بے دردی کے ساتھ بہایا جارہا تھا۔ ۲۴؍جنوری کی شام کو ضلع شوپیان کے ایک دیہات میں فوجی محاصرے اور انکاؤنٹر کے دوران حسب معمول وردی پوشوں نے معصوم اور نہتے لوگوں کے سینے گولیوں سے چھلنی کردئے۔ ۱۷؍برس کے ایک معصوم نوجوان شاکر احمد میر کو فوج نے راست گولی مار کرجان بحق کردیا جب کہ دو کم سن لڑکیوںسمی جان دختر غلام حسن بٹ اور صبرینہ دخترہلال احمد بٹ پر بھی گولیاں چلاکر اُنہیںشدید زخمی کردیا۔ یہ دونوں بچیاں تادم تحریر ہسپتال میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں ۔۲۰۱۷ء کی ابتداء سے ہی انکاونٹر والی جگہوں پر نہتے اور عام شہریوں پر بندوق کے دھانے کھولنے کا چلن عام ہوا ، جب کہ انسانی حقوق کی شدید ترین خلاف ورزیوںکو یہ کہہ کر جواز فراہم کیا جا تارہا ہے کہ عام لوگ فوجی آپریشنوں میں رخنہ ڈالنے کی کوششیں کررہے ہیں۔ یہ آدھا سچ ہے ، اصل حقیقت یہ ہے کہ عسکری جھڑپوں کے دوران اور ان کے ما بعد کشمیر کی گلیوں کو انسانی لہو میں نہلا نافورسز کی ’’اچھی ‘‘ کا رکردگی کی کسوٹی بنائی جاچکی ہے۔ اسی لئے عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ نہتے نوجوانوں کے جنازے بھی آئے روز اُٹھ رہے ہیں۔ لگتاہے کہ ماؤں کی کھوکھ اُجاڑنے کی دوڑ مختلف ایجنسیوں میں لگ چکی ہے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومت وقت کے تمام کارندے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کادعویٰ رکھنے والی طاقت کی ظلم و زیادتیوں کو نہ صرف جواز فراہم کررہے ہیں بلکہ ایسے گھناؤنے فعل کے مرتکب وردی پوشوں کی وکالت بھی کرتے ہیں ۔آئے روز رونما ہونے والے انسانیت کش سانحات سے یہ قوم اتنی مانوس ہو چکی ہے کہ اب کسی معصوم کا سینہ چھلنی ہونے سے کوئی خاص ہلچل پیدا نہیں ہوتی ہے اور نہ معمولات ِ زندگی میں کوئی ٹھہراؤ آتا ہے۔ بدقسمتی سے برسراقتدار طبقہ اور حکومتی ادارے عوام کو کچھ اس طرح سے اُلجھا ئے رکھ رہے ہیں کہ یہاں جاریہ نسل کشی کی جانب عوام کا جیسے دھیان ہی نہیں جاتا ہے۔
ایک جانب کشمیرمیں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بدستور جاری ہیں، دوسری جانب گزشتہ چند برسوں سے منفی پروپیگنڈا کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ پوری کشمیری قوم ’’انتہا پسند‘‘ ہے۔ بیرونی دنیا پر یہ باور کرایا جارہا ہے کہ کشمیری انسانیت کے لیے’’مہلک‘‘ ثابت ہوسکتے ہیں اگر اُنہیںپہلے ہی قابو نہ کیا جائے۔ بالخصوص جب سے دلی میں بی جے پی کی سرکار وجود میں آئی، ہندوستانی سیاست دانوں سے لے کر فوج کے اعلیٰ افسران تک کے بیانا ت کا جائزہ لیا جائے اور میڈیا کی جانب سے چلائی جانے والی کشمیر مخالف مہم کوباریک بینی سے دیکھا جائے تو صاف طور واضح ہوجاتا ہے کہ ایک منصوبہ بندی ، حکمت عملی اور تسلسل کے ساتھ کشمیریوں کو بدنام کرنے کی کوشش کی جارہی ہیں جس سے ایک ایسا ماحول تیار کیا گیا ہے جس میں ہر کشمیری کو موت کے گھاٹ اُتار دینا گویا ’’بچاؤ‘‘ کارروائی دِ کھتی ہے۔ اس تناظر میں بھارتی فوج کے سپاہ سالار جنرل بپن راوت کے کئی تیز طرار بیانات قابل فہم بنتے ہیں ۔ ان کا تجزیہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ کشمیریوں کے حوالے سے بھارت کے اعلیٰ دفاعی اداروں اور فوجی ذمہ داروں کی مجموعی سوچ کس طرح کی ہے۔ گزشتہ سال ۲۰؍اکتوبر کو جنرل راوت نے جموں میں اخباری نمائندوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ’’کشمیر میں بڑھتی ہوئی انتہا پسندی کو آرمی سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے اور اس انتہا پسندی کے فروغ میں سوشل میڈیا کا نمایاں رول ہے۔‘‘ رواں ماہ کی ابتدا میں موصوف نے ایک اور بیان میں کہا کہ ’’ریاست جموں وکشمیر کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب کو دیکھنے کی ضرورت ہے، یہاں ہندوستان کے نقشے کے ساتھ ساتھ کشمیری نقشہ بھی رکھا جاتا ہے، کشمیر کی تاریخ الگ سے پڑھائی جاتی ہے۔ اسکولوں کے ساتھ ساتھ دینی اداروں کو بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔‘‘بقول اُن کے کشمیر کے نصابِ تعلیم ہی انتہا پسندی کے بیج بو رہا ہے اور کشمیری نسلوں کی تشدد اور بھارت مخالف راہ پر ڈال رہا ہے۔ اس بیان کے اگلے ہی روز انہوں نے کہا کہ ’’کشمیر میں سوشل میڈیا پر قدغن کے بارے میں سنجیدگی کے ساتھ غور ہونا چاہیے کیونکہ سوشل میڈیا ہی یہاں کے نوجوانوں کو انتہا پسندی کے قریب کررہا ہے۔‘‘اسی طرح کے ایک اور بیان میں جنرل صاحب نے ایک ایسی گل افشانی کی جس کو کشمیر کے حساس طبقے کافی سنجیدگی سے لے رہے ہیں ۔اُنہوں نے کہا کہ ’’سیاسی جدوجہد کرنے والوں اور عسکریت پسندوں کے ساتھ ایک ہی طرح کا رویہ اختیار کرلیا جانا چاہیے۔‘‘گویا نہتے احتجاجی نوجوانوں اور عام لوگوں پر گولیاں برسانا اور اُن کی زندگیاں لینا جائز قرار دیا گیا۔ حالانکہ ناقابل تردید حقائق یہ ہیں کہ عملی طور پر گزشتہ تین دہائیوں سے یہاں یہی پالیسی چل رہی ہے۔ ۱۹۹۰ء سے لے کر آج تک ہزاروں ایسے دل خراش سانحات تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں جن میں کشمیریوں کا قتل عام ہوا۔ اجتماعی قتل عام کے درجنوں سانحات کی یادیں عام کشمیریوں کے ذہنوں میں ابھی بھی تازہ ہی ہیں۔گاؤ کدل، بجبہاڑہ، زکورہ، ٹینگ پورہ، سوپورہ، ہندواڑہ، کپواڑہ،سنگرام پورہ، پازی پورہ کپواڑہ ، عالمگیری بازار، وندہامہ وغیرہ میں سینکڑوں لوگوں کو دن کے اُجالے میں گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ ۲۰۰۸ء سے لے کر آج تک یہاں ہر سال اور ہر ماہ اور ہردن کشمیری نوجوانوں کی نسل کشی جا ری ہے۔اگرچہ کشمیریوں کی نسلی تطہیر کوئی نئی بات نہیں ہے، البتہ اس مرتبہ جنرل بپن راوت نے کھلے عام یہ کہہ کر دلی کی کشمیر پالیسی کا خلاصہ کیا کہ سیاسی حقوق کی بازیابی کی بات کرنے والے ہر شخص کے ساتھ اُسی طرح نپٹنے کی ضرورت ہے جس طرح عسکریت کے ساتھ بھارت برسر پیکار ہیں۔ یہ بیان کشمیری عوام کے خلاف کسی سیاسی مکالمہ آرائی کے بجائے دلی کی جارحانہ پالیسی کا عکاس ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ کشمیر کی پوری آبادی اپنے سلب شدہ پیدائشی سیاسی حق کی باز یابی کے لیے جدوجہد کررہی ہے، خود بپن راوت نے بھی یہ کہہ کہ’’کشمیریوں کو اب اس بات کا اندازہ ہوچکا ہے کہ اُنہیں وہ چیز نہیں ملنے والی ہے جس کے لیے وہ جدوجہد کررہے ہیں‘‘اعتراف کرلیا کہ پوری قوم ِکشمیر کسی ’’چیز ‘‘ کی مشترکہ طور مانگ کرر ہے ہیں۔ اگرچہ ایسی بیان بازی کسی جمہوری ملک کے فوجی سربراہ کے شایانِ شان نہیں مگر دلی کے نزدیک کشمیری قوم کے خلاف اس نوع کی ہر زہ سرائی قابل قبول ہے بلکہ اسے دیش بھگتی کا کھلا اظہار مان کر تالیاں بجتی ہیں ، ترقیاں دی جاتی ہیں اور تمغے ملتے ہیں۔ بایں ہمہ کیا مجال کہ جنرل صاحب کی ایسی گفتنی دوسری ریاستوں کے بارے میں برداشت ہو ۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کو کھلے عام زیر کرنے کا آغاز۲۰۱۴ء میں اُسی وقت شدومد سے شروع ہوا جب بی جے پی دلی میں برسر اقتدار آگئی۔ اس دن سے ہندوستانی مسلمانوں سے صاف صاف کہا جارہا ہے کہ وہ یا تو ہندوستان سے چلے جائیں یا پھر اپنے آپ کو ہندتوا کے رنگ میں رنگ جائیں۔ لہٰذا’’ گھر واپسی‘‘ محض ایک نعرہ نہیں ہے بلکہ یہ زعفرانی فلاسفی ہے جس کو عملانے کے لیے زمینی سطح پر مسلسل کام ہورہا ہے۔ اسی وجہ سے گاؤ رکھشا کو ہندوستان کی مختلف ریاستوں میں سرکاری سرپرستی حاصل ہے۔ اب تو حد یہ ہے کہ مسلمانوں کی شریعت میں ردوبدل کر نے کے لئے قانون سازی کا درواز کھولا جانے لگا ہے۔ ملک میں کئی کئی دہائیوں سے عدالتوں میں پڑے مختلف کیسوں کی فائلیں دھول چاٹ رہی ہیں لیکن چند ہفتوں میں ہی تین طلاق کا مسئلہ کھڑا کرکے نہ صرف اُس پر کورٹ میں فیصلہ سنایا گیا بلکہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کی جست بھی لگائی گئی۔ حتیٰ کہ حج بیت اللہ کے مقدس فریضہ کی ادائیگی میں عورت کو بغیر محرم جانے کی اجازت بھی مرحمت کی گئی جسے مسلم خواتین کی’’ آزادی‘‘سے تعبیر کیا جارہا ہے۔مسلمانوں کے دینی احکامات اور عقائد میں اس مداخلت سے یہی متباور ہورہا ہے کہ ایک منظم سرکاری کوشش کے تحت مسلمانوں کے لئے آہستہ آہستہ مذہبی احکامات بندشیں ڈھیلی کی جارہی ہیں تاکہ بعد میں اُنہیں اپنامذہب چھوڑ دینے پر مجبور کیا جاسکے۔ یہ دہائیوں پر محیط ہندتوا پلاننگ ہے جس میں اب زعفرانیت سیاسی قوت کے بل پر اپنارنگ بھررہی ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی یہ ہے کہ مسلم اکثریتی ریاست جموں وکشمیر کی انفرادیت اور متنازعہ حیثیت کو تہس نہس کر نے کے ساتھ ساتھ یہاں عوام کی فکری وحدت اور جذبۂ مزاحمت کو کچلنے کے لیے طاقت کا بے تحاشہ سہارا لیتے ہوئے ایک منظم انداز میں یہاں نسل کشی کی جارہی ہے، نوجوانوں کو تنگ طلب کیا جارہا ہے، اُنہیں فوجی کیمپوں اور پولیس اسٹیشنوں میں بلا بلا کر اس حد تک پریشان وہراساںکیا جارہا ہے کہ وہ انتہائی اقدام پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔ اس سوچھی سمجھی چال کے نتیجے میں کشمیری نوجوانوںکو موت کے گھاٹ اُتار دینے کی انڈسٹری پھل پھول رہی ہے ، اُنہیں پیلٹ کا نشانہ بنانے اور جرم بے گناہی کی پاداش میں سلاخوں کے پیچھے دھکیل دینے کے لیے بھی حیلے بہانے ڈھونڈے جارہے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح کی جارحانہ حکمت عملی(جسے مبصرین ڈول ڈاکٹرئین کانام دیتے ہیں ) سے کیا دلی کے پالیسی سازوں کو کچھ حاصل ہوگا؟ کیا وہ بندوق کی نوک پر ظلم وجبر کے خلاف برسر پیکار نہتے عوام کو خاموش کراسکتے ہیں؟ کیا وہ خوف و ہراس کے ذریعے یہاں قبرستان کی خاموشی قائم کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے؟ گزشتہ تین دہائیوں کی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ طاقت کاجو وحشیانہ استعمال کمزور وبے نوا کشمیری قوم کوزیر کر نے کے لئے کیا گیا، نوے سے لاقا نونیت اور مار دھاڑ کا جو سلسلہ یہاں جاری رکھا گیا،آپرویشن کیچ اینڈکل سے لے کر آپرویشن آل آؤٹ تک طاقت آزمائی کے جو تمام اوچھے فارمولے بروئے کا رلائے گئے ،وہ کشمیریوں کو اپنے حقوق کی بازیابی کے لیے اپنی مضبوط آواز بلند کرنے سے باز نہ رکھ سکے ، بلکہ زمانے کی گردش نے دیکھ لیا کہ اٹھائیس سال تک تمام تر ظلم و ستم سہنے والی قوم آج بھی بدستور ایک نئے جوش اور ولولے کے ساتھ کشمیر حل کے لئے تن من دھن سے نثار ہورہی ہے۔تلخ حقیقت یہ ہے کہ دلی اس لٹی پٹی قوم کی سیاسی اُمنگ کو دبانے کی ہزار ہا کوششوں کے باوجوداور اپنے مقامی سیاسی د لالوں کی بعوض اقتدار ’’ مرہمی خدمات‘‘ کے باوصف کشمیریوں کو اپنی جائز جدوجہد سے روک نہ سکی ۔
تاریخ کاکلیہ یہ ہے کہ کسی بھی ٹھوس سیاسی مسئلہ کو حقیقت پسندانہ انداز میں ایک غیر متزلزل سیاسی عزم وارادے کے ساتھ ایڈریس کر نے میں ہی سیاسی مردانگی مضمر ہے۔اس کے بجائے اگر طاقت کے بے جاا ستعمال سے مسئلے سے گلا چھڑانے کا رقص نیم بسمل کیا جائے تو یہ عمل بالآخر خودکشی کے مترادف ثابت ہو کر رہتا ہے۔ عقل وفہم سے عاری کوئی غالب قوت اگر سیاسی افہام وتفہیم کے بجائے اپنے زیر تسلط مغلوب ومحصورقوم کو طاقت کی وحشت اور خوف کے حربوں سے دبانے کی بھول کرتی ہے تو اس کے نتائج جہاں موخرالذکر کے لئے تکلیف د ہ ہوتے ہیں،وہاںاول الذکر کے لئے بھی یہ کسی معنی میںٹھیک نہیں نکلتے ۔سوال یہ ہے کہ کشمیرکاز کی جدوجہد کی بنیاد تاریخ کی سچائی پر قائم ہے ،اس کا ہیولیٰ اُصولوں اور حقائق پر استوار ہے ، اور اگراس کی نفی بزور ِ بازو کی جائے تواس طرزعمل سے سلجھاؤ آئے گا یا الجھاؤ پیدا ہوگا؟ اس لئے فریقین کا ارضی حقائق تسلیم کرکے کوئی متفقہ حل نکالنا ہی عقل مندی کاتقاضا ہے۔ اس عقل مندی کا مظاہرہ دلی سے آج تک نہ ہوا،ا س نے زیادہ سے زیادہ کشمیر میں کرائسس منیجمنٹ کے لئے پیچ ورک سے کام چلایا مگر یکے بعد دیگرے یہ تجربات ہمیشہ ناکام ہوتے رہے ۔ فی الحقیقت برصغیر میں بقول مودی غربت ، جہالت ، بھوک اور بیماری سے لڑنے کی اشد ضرورت ہے مگر انہیںیہ بھی کڑوا سچ بھی بولنا چاہیے کہ ان گھمبیر مسائل کی تخم ریزی مسئلہ کشمیر کے کھیت کھلیان کی مرہون ِ منت ہے ۔ یہ مسئلہ حل طلب رہنے سے ہی غربت وافلاس ، ناخواندگی و امراض کے مارے ہندوستان اور پاکستان ایٹمی طاقت بنے اور اب ان کے مابین جوہری جنگ کی باتیں گشت کررہی ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ انہیں اس سچائی کا ادراک نہیںکہ اگر کشمیرکی وجہ سے ہی نیوکلیر جنگ چھیڑ گئی تو ہیبت ناک تباہی کا منظر ریاست جموں وکشمیر تک ہی محدود نہیں رہے گا بلکہ خدانخواستہ ایسی جنگ کے نتیجے میںپورے برصغیر کی مکمل تباہی و بربادی طے ہے۔ بہر صورت ووٹ بینک کی بھٹی گرماتے ہوئے کشمیر حل ٹالنا اور گفت وشنید سے اعراض کرنا دراصل اُن کروڑوں لوگوں کے ساتھ دھوکہ ہے جنہیں ’’دیش بھگتی‘‘ یا’ دھرم یدھ ‘‘ کے عنوان سے بہکایا جارہا ہے۔ہندوستانی عوام کو اپنے حکمرانوں اور سیاست دانوں کی اس موقعہ پرستانہ اور مفادات پرستانہ سیاست کو سمجھنا چاہیے اوراپنے سووزیاں سے باخبر ہوکر کشمیر مسئلہ کے بارے میں نہ صرف حقائق جاننے چاہیں بلکہ یہاں پر ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر غیر جانبداری کے ساتھ اپنے ضمیر کی آواز بلند کرنی چاہیے۔
یہ اکیسویں صدی ہے، قوموں اور انسانوں کو براہ راست غلام اوربندھوامزدور بنانے کا دور کب کا ختم ہوچکا ہے۔ اب دنیا کی بڑی بڑی جابر قوتیں اپنے نئے عالمی نظام کے حوالے سے’’انسانی آزادی‘‘ کے بلند بانگ دعوے تو کررہی ہیں لیکن عملاً حالت یہ ہے کہ آج بھی دور جاہلیت کی طرح طاقت اور طاقت ور کی پوجا ہوتی ہے۔ اور تضاد آرائی کا عالم یہ ہے کہ طاقت کے نشے میں بدمست قومیں انسانیت کے خلاف جرائم کا ارتکاب کریں تو پوری دنیا آنکھ موند لیتی ہے لیکن اگر کوئی کمزور قوم اپنے حقوق کی بات کرنے کی بھول کرے تو اُنہیں شدت پسند ،انتہا پسند، امن دشمن، باغی اور سرکش قرار دیا جاتا ہے۔یہ ناانصافی دنیا کو تباہی کی جانب دھکیل دینے کی موجب ہے۔ اس سے عوامی سطح پر باغیانہ سوچ کو فروغ مل جاتاہے اور اس ذہنیت سے پُر امن قومیں بھی تشدد وتخرب کی راہ اختیار کرنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔کشمیری کی جدوجہد حقائق پر مبنی ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے ساتھ دست وگریبان طاقت ہمیں ہر سطح پر اشتعال دے رہی ہے لیکن ہماری جدوجہد کی بنیاداخلاقی اعتبارسے مضبوط تر ہے اس لیے یہ قوم کسی بھی صورت میں اشتعال انگیزی کا شکار ہوکر دامن انصاف نہیں چھوڑے گی بلکہ پر امن طریقوںاور نتیجہ خیز مزاحمتی کردار سے اپنی جدوجہد کو ہر قیمت پر جاری وساری رکھے گی ۔ ہمیں اپنے اللہ پر پورا بھروسہ اور کامل یقین ہونا چاہیے کہ وہ ہماری مبنی برحق جدوجہد اور قربانیوں کو کبھی بھی رائیگان نہیں ہونے دے گا، چاہے غالب قوت ہمیں کتنی بھی مسلتی رہی اور روندتی جائے ۔