تو میں عرض کررہا تھا کہ جب یہودؔ اس بات کا یعنی کس حیوان کا فیٹ مختلف اشیا ء میں استعمال ہوتا ہے کو خاطر خواہ جواب نہ دے سکے تو انہوں نے پینترا بدلا تو انہوں نے ایک اور پینترا بدلا ۔انہوں نے مصنوعات کی جزؤ تر کیبی یعنی (Ingrediants)میں دیگر اشیاء کے ساتھ فیٹ کی جگہ نمبر لکھنے شروع کئے جیسے E 140,E 337وغیرہ ،اسی طرح کے نمبر جس کا مطلب صرف بنانے والے کو معلوم ہوتا تھا اور صارف صاف دھو کا لگ جاتا تھا اور اس طرح سے وہ سور کی چربی کا استعمال کرتے رہے ، اپنی بات اور اپنے مطلب کو روبہ عمل بھی لاتے رہے ،اور حقیقت کو چھپاتے بھی رہے جب کہ عرب دیش میں یہ مسلمانوں کو کھلاتے بھی رہے ،دوسری مصنوعات جیسے ٹوٹھ پیسٹ ،کریم ، صابن ،بسکٹ ،لپ اسٹک اور چاکلیٹ وغیرہ کے ذریعے یہ لحم الحرام دھڑلے سے استعمال بھی کراتے رہے اور اپنی مذہبی و دینی سادگی میں مسلمان بلا چوں و چرا اپنی بساط سے ہٹتا بھی رہا ، بے غیرت اور کمزور بھی بنتا رہا اور اغیار خوشیاں مناتے رہے کہ اُس کا بدلا ہوا پینترا بڑی آسانی کے ساتھ کامیاب رہا۔گویا ایک تیر میرے سینے پہ مارا کہ ہائے ہائے کے مترادف فقط چند جاننے والے اور واقف کار ہی کڑُھتے رہے اور کف ِافسوس ملتے رہے جب کہ عام طور پر لوگ غفلت کے شکار ہی رہے۔ایسا نہ صرف یورپ کی مختلف یہود ؔ ملکیت کمپنیاں اور کارخانے ہی کرتے رہے بلکہ ہندوستان میں چند اشیاء ایسی بنتی ہیں جن میں سور کی چربی شامل ہوتی ہے ۔فرق صرف اتنا ہے کہ یوروپین مختلف مصنوعات تیار کرنے والی کمپنیاں صرف مسلمانوں کا کردار و اخلاق پر نشانہ ساد لیتے ہیں جب کہ ہندوستان میں صرف کاروباری نقطہ نظر سے چیز کو جاذب نظر اور مزیدار بنانے کے لئے اس حرام چیز کا استعمال کیا جاتا ہے، بھلے سے وہ مضر صحت ہو ۔
موجودہ وقتوں میں فری ٹریڈ کی وجہ سے دنیا کے کئی ممالک اپنی مصنوعات دوسرے ملکوں کے ساتھ شیئر کرتے ہیں ۔سعودی عربیہ ؔ میں کپڑے ،لتے بستر ،پردے ،کھلونے ،جوتے ،تکیے ،مسند ،فرنیچر کی بات ہی نہیں ،نماز کے لئے ٹوپیاں اور تسبیحیں بھی چین ؔ سے آتی ہیں۔اپنے یہاں بھی کئی چیزیں باہر سے تو آتی ہی رہتی ہیں، اب پھل بھی دساور سے آتا ہے ۔کچھ ہی عرصہ قبل میں نے کئی ممالک کی اشیاء بازار میں دیکھیں جن میں سے مجھے بھی کچھ چیزیں خریدنے اور چکھنے کا موقع نصیب ہوا ۔انہی مصنوعات اور کھانے کی چیزوں میں سے میں نے ذاتی طور پر تھائی لینڈ کی مونگ پھلی ،مصر کا جیم ،سکاٹ لینڈ ی انجیر کا جیم،سویئزرلینڈ کا سیب ، ساؤتھ افریقہ کا ناشپاتی ،ترکی کا کینڈی اور انجیر اور بھی کئی چیزیں ذاتی طور پر خرید کر استعمال کیں۔غرض کہنے کا مطلب یہ ہے کہ فری ٹریڈ کی وجہ سے ایسا ہونا ممکن ہوسکا ہے اور اس طرح سے ہمارا فروٹ اور زعفران وغیرہ بھی دوسرے ملکوں میں برآمد ہوتا ہے۔
اس تمہید کے لانے سے میرے کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ آپ بے شک دوسرے ممالک کی مصنوعات اور فوڈ پروڈکٹس شوق سے استعمال کرتے رہئے ،چکھئے،کھایئے مگر براہ کرم اپنی سیفٹی کے لئے اُن پدارت کی اجزائے تر کیبی یعنی بناوٹ میں استعمال شدہ چیزوں کو استعمال کرنے سے قبل ایک بار ضرور ملاخطہ کریں ۔مجھے ایسا کہنے کی ضرورت اس لئے پڑرہی ہے کہ ابھی چند روز قبل ہی میں نے سکاٹ لینڈ میں تیار کیا گیا لائم کئرڈ (Lime curd)کے نام سے ایک بوتل خریدی اور اُس کٹھے میٹھے دہی کو چکھنے والا ہی تھا کہ ایک دم مجھے خیال آیا کہ میں نے تو اس کی بناوٹ کے ا جزاء چیک ہی نہیں کئے اور یہ دیکھ کر میں حیران رہ گیا کہ دوسری چیزوں کے ہمراہ اُس نمبر E 375بھی تحریر تھا ۔میں چونک پڑا اور رب کا شکریہ بجا لایا کہ میں حرام یعنی سور کی چربی کھانے سے بچ گیا ۔حالانکہ بوتل کا ڈھکن میں کھول چکاتھا اور چمچہ میرے ہاتھ میں تھا ۔
سورؔ کی چربی کے متبادل نمبرات جو اصلیت کو چھپانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ،میں نے بڑی تگ و دو کے بعد جمع کرکے قارئین کے سامنے رکھے تھے اور نیت یہی تھی کہ اُمت مسلمہ خصوصاً اپنے ہم وطن مردو زن حرام کھانے یا حرام شئے کو استعمال کرنے سے بچے رہیں گے مگر لگتا یہی ہے کہ یہاں کے موبائل فون راج نے باقی تمام اقدار کی مٹی پلید کی ہے ۔میں نے سمجھا کہ لوگ اس بارے میں محتاط (Conscious)ہوں گے اور احتیاط برتتے ہوں گے یا وہ فہرست سامنے رکھتے ہوں گے جب وہ کسی بدیشی شئے کو استعمال میں لاتے ہوں ۔البتہ اگر اس بارے میں کوئی صاحب احتیاط برتتے ہوںگے تو اللہ تعالیٰ اُن کے ایمان میں پختگی عطا کرے۔
یہ بات بھی اگر ہم ذہن میں رکھیں گے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ جاپانؔ ہماری ریاست سے بہت دور سمندروں کی گود میں ایک ترقی یافتہ ملک ہے مگر جاپانؔ کے پانیوں سے بھی ہٹ کر اور بھی زیادہ دور فجی واقع ہے۔یہ واقعی حیران کُن بات ہے کہ وہاں ان جزائر میں بھی مسلمان آباد ہیں ۔وہاں کے پانیوں کے اوپر اذان کی سرمدی تانیں جلترنگ بجاکر دنیائے انسانیت کو ہی نہیں بلکہ دنیائے حیوانیات اور زیر آب آبی مخلوقات کے کانوں میں بھی اُسی ربِ واحد کی عظمت و خا لقیت کے عجزوعرفان بھرے نغمے انڈیلتے رہتے ہیں ۔یہ کتنی حیران کن بات ہے کہ وہاں کے پھل یہاں درآمد ہوتے ہیں ۔سوچئے کہاں فجی اور کہاں کشمیرجیسا ریموٹ علاقہ۔اس لئے چیز کہاں سے آتی ہے وہ مسئلہ نہیں بلکہ ہم بھی ان جگہوں کی پیداوار سے فیضیاب ہوجاتے ہیں،جہاں محدود سے چند خوش قسمت انسانوں کے ۔۔۔ہمار ا تصور بھی نہیں پہنچ سکتا،بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اُن اشیاء جو بوتل بند،ڈبہ بندخصوصاً کھانے پینے اور جسم پر لگانے کی چیزوں کی جزوترکیبی کی ضرور جانچ کیاکریں ،ایک بار ضرور غور سے دیکھیں کیونکہ احتیاط بہرحال لازمی ہے ۔
سورؔکی چربی (بلکہ ہر ایک چیز بشمول کھر ،بال اور کھال بھی)نہ صرف حرام ہے بلکہ اس کے استعمال سے بڑھاپا جلدی آجاتا ہے ۔چہرے پر جھریاں پڑتی ہیں ،ہونٹوں پر پیڑیاں جم جاتی ہیں اور وہ بے رونق بھدے لگتے ہیں ۔ کینسر ہو جاتا ہے ۔صارف بے غیرت ،بے شرم اور بے حیا ء ہوجاتا ہے وغیرہ۔میں ایک بار پھر اُن کو ڈ نمبرات کی فہرست دے رہا ہوں جو سورؔ کی چربی کے متبادل کے طور پر استعمال میں لائے جاتے ہیں اور لوگ انجانے میں یا بغیر احتیاط کئے بڑی آسانی کے ساتھ بھول بھلیوں میں پر کر غچی کھا جاتے ہیں ۔
نمبرات :
E 100,E 110, E 120 , E 140 ,E 141 ,E 153, E 210 ,E213, E 214, E216, E 234 , E 252, E 270 , E 280.
E 322, E 325, E 326, E 327, E 334, E335, E336, E 337. E 442 , E 439, E 431, E 432, E 433, E 435, E 436, E 437. E442, E 430, 431, E 432, E 433, 434, E 435, E 436, E 440, E 470, E 471, E472, E 473, E474, E475, E476, E 472, E 473, E 475, E 476, E 477, E 478, E 481, E 482, E 483, E 491, E 492, E 493 , E 494, E 495. E 503, E 542, E 570, E 572. E 631, E 635, and E 904.
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995