سبدر شبیر
کبھی کبھی زندگی میں ایسا لمحہ آ جاتا ہے جب سادہ سا جملہ، جو محض محبت کا اظہار ہوتا ہے، انسان کے ضمیر، دین اور منصب کے گرد ایک گونج بن کر گونجنے لگتا ہے۔ ’’صاحب! کھانے پر آئیے نا، محبت سے کہہ رہا ہوں ۔‘‘ بظاہر ایک عام سا جملہ، جس کے پیچھے نمک، روٹی اور خلوص کی مہک ہوتی ہے۔ مگر اگر یہ جملہ ایک سائل کی زبان سے نکلے اور سننے والا کوئی سرکاری افسر ہو، تو یہ بات صرف دعوت نہیں رہتی بلکہ ایک آزمائش بن جاتی ہے۔
اسلام ایک ایسا دین ہے جو محض عمل پر نہیں، نیت پر نظر رکھتا ہے۔ محبت سے دیا گیا کھانا حلال ہے، دعوت قبول کرنا سنت ہے، مہمان نوازی باعثِ ثواب ہے۔ لیکن دین کے ساتھ ساتھ عدل، احتساب اور شفافیت کا بھی تقاضا یہی ہے کہ اگر کسی عمل کے پیچھے مفاد، رعایت یا اثر و رسوخ کی پرچھائیاں ہوں تو وہ عمل کتنا ہی نیک کیوں نہ ہو، اُس کے نتائج تلخ ہو سکتے ہیں۔
جب کوئی سرکاری ملازم، جس کے دستخط کسی کے حق یا ناحق کو طے کرتے ہیں، کسی سائل کے گھر کھانے پر جاتا ہے تو وہ صرف ایک فرد نہیں جاتا، اس کے ساتھ اس کا اختیار، اس کی ذمہ داری اور اس کے پیچھے پوری ریاست کا اعتماد بھی ساتھ جاتا ہے۔ چاہے وہ کھانا محبت سے دیا گیا ہو، چاہے مہمان نوازی کے جذبے سے ہو، اگر دینے والا آپ سے کوئی کام رکھتا ہو تو وہ کھانا کبھی صرف کھانا نہیں رہتا، وہ کسی اور کے لیے پیغام بن جاتا ہے کہ یہاں تعلق بھی چلتا ہے، نوالہ بھی بولتا ہے اور دعوت میں رعایت بھی لپٹی ہوئی ہو سکتی ہے۔یہی وہ مقام ہے جہاں ایک افسر کا اصل امتحان شروع ہوتا ہے۔ کیا وہ محبت کو محبت سمجھ کر قبول کرے یا منصب کی امانت کو مدنظر رکھ کر انکار کرے؟ کیا وہ لوگوں کے خلوص کو دل سے لے کر اس کے جواب میں نرمی دکھائے یا اصول کی چٹان پر کھڑا رہے اور کہہ دے کہ ’’آپ کی محبت اپنی جگہ، مگر میرا فرض مجھے اجازت نہیں دیتا۔‘‘
حضرت عمر فاروقؓ کا قول ہے کہ ’’جو ہدیہ حاکم کو اس کی حیثیت کی بنیاد پر دیا جائے، وہ رشوت ہے۔‘‘ یہ قول صرف الفاظ نہیں، یہ تاریخ کی روشنی ہے جو ہر عہد کے افسر کو راستہ دکھاتی ہے۔ کیونکہ منصب کبھی تنہا نہیں آتا، وہ توقعات کا بوجھ لے کر آتا ہے، انصاف کا وعدہ لے کر آتا ہے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ آپ کی غیر جانب داری کی قسم لیتا ہے۔ اگر ایک دعوت اس غیر جانب داری کو متاثر کر دے، یا اس کا تاثر پیدا کر دے تو چاہے وہ دعوت کتنی ہی سادہ کیوں نہ ہو، وہ سوال بن جاتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت ہمیں ’’سدّ الذرائع ‘‘یعنی برائی کے دروازے بند کرنے کا حکم دیتی ہے۔ اگر کوئی مباح چیز بھی فساد، شک، یا بداعتمادی کی راہ ہموار کرے، تو شریعت کہتی ہے کہ اس سے اجتناب کرو۔ ایک افسر، اگر واقعی امانت دار ہے تو وہ صرف عمل کا نہیں، تاثر کا بھی محافظ ہوتا ہے۔ وہ صرف عدل کرتا نہیں، عدل دکھائی دینا بھی اس کا فرض ہے۔
کبھی کبھی ایک سادہ سی چائے، جو محبت سے دی گئی ہو، عدالت کے پلڑے کو جھکا سکتی ہے۔ ایک روٹی، جو فاقہ کشی میں دی گئی ہو، کسی مظلوم کی آواز دبانے کا ذریعہ بن سکتی ہے اور ایک گرم نوالہ، جو نیت صاف رکھ کر بھی قبول کیا جائے، دوسروں کی نظروں میں مشکوک ہو سکتا ہے۔ کیونکہ لوگ الفاظ سے نہیں، مناظر سے فیصلے کرتے ہیں۔
تو کیا محبت پر بھی پابندی لگا دی جائے؟ نہیں، ہرگز نہیں۔ محبت ہو، ضرور ہو، لیکن مفاد سے پاک ہو۔ تعلق ہو، مگر قانون کے دائرے سے باہر نہ ہو۔ اگر سائل کا کوئی کام افسر کے ہاتھ میں ہے، تو بہتر ہے کہ افسر محبت سے انکار کرے، نرمی سے شکریہ ادا کرے اور اپنے فرض کی عظمت کو مجروح نہ ہونے دے، اور اگر تعلق واقعی خالص ہو اور کھانے کی دعوت صرف انسانیت کے ناتے ہو، تو وہ بھی اس وقت قبول کی جائے جب منصب درمیان میں نہ ہو، جب فیصلے کی تلوار میز پر نہ رکھی ہو اور جب وہ کھانا انصاف کے توازن پر اثر انداز نہ ہو۔افسر اگر چاہے تو محبت کا جواب بھی دے سکتا ہے، لیکن محبت کے ساتھ اصول کا پرچم بھی اٹھا سکتا ہے۔ جب وہ سائل سے کہے،’’میں آپ کی محبت کو سلام کرتا ہوں، مگر میری ڈیوٹی مجھے اجازت نہیں دیتی‘‘ تو وہ صرف ایک جملہ نہیں بولتا، وہ اپنے عہد، اپنے ضمیر اور اپنے کردار کی حفاظت کرتا ہے۔ ایسے لوگ تاریخ میں باقی رہتے ہیں، کیونکہ وہ نظام کو محفوظ رکھتے ہیں۔
محبت کرنا برا نہیں، مگر منصب کے لباس میں محبت کا اظہار محتاط ہونا چاہیے۔ کیونکہ بعض اوقات، محبت بھی نرمی سے راستہ بنا لیتی ہے اور نرمی ہی وہ دروازہ ہوتی ہے جہاں سے مفاد داخل ہو جاتا ہے۔لہٰذا، محبت کیجیے، خلوص اپنایئے، دعوت دیجیے، مگر یاد رکھیے، اگر دوسرا شخص فیصلہ ساز ہے تو آپ کی دعوت اُس کے دل سے پہلے اُس کے ضمیر سے بات کرے گی اور اگر وہ ضمیر جاگتا ہوا ہے، تو وہ ضرور کہے گا ،’’آپ کی محبت سر آنکھوں پر، مگر میری امانت مجھ پر قرض ہے۔‘‘یہی وہ لمحہ ہوتا ہے جہاں ایک روٹی، ایک نوالہ، ایک محبت بھرا جملہ ، آزمائش بن جاتا ہے اور کامیاب وہی ہوتا ہے جو محبت کے ساتھ اصول بھی نبھاتا ہے اور فرض کی راہ میں خلوص کو بھی ادب سے لوٹا دیتا ہے۔