چرار شریف//صبح کے8 بج چکے تھے ‘حلقہ انتخاب چرارِ شریف میں 86ووٹ پڑ چکے تھے تاہم دیگر انتخابات کے برعکس پہلی مرتبہ ووٹروں کی قطاریں نظر نہیں آرہی تھیں گویا چرار شریف حلقے سے منسلک تمام پولنگ بوتھوں پر بے تحاشہ پولنگ ہونے کی روایت ٹوٹ رہی تھی۔اکثر پولنگ بو تھوں پر الو بول رہے تھے جبکہ لوگ اپنے اپنے گھروں میں ہی بیٹھے تھے ۔اس دوران کئی پولنگ مرکز پراُکا دُکا پتھر پھینکنے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ ڈھلون چرار شریف میںقائم گورنمنٹ ہائی سکول کے پولنگ بوتھ پر تعینات فورسز اہلکاروں نے پولنگ بوتھ کی طرف کچھ پتھر پھینکنے والے بچوں کی طرف جوابی سنگ بازی کی۔ صورت حال کچھ دیر تک جوں کی توں رہی ،اس دوران دوسرے کچھ نوجوان بھی مشتعل ہوکر پولنگ مرکز پر پتھرائوکرنے لگے جبکہ فورسز نے ایک منٹ ضائع کئے بغیر، کسی مجاز آفسر یا موقعہ پر موجود پریذائڈنگ آفسر سے اجازت لئے بغیر پولنگ بوتھ سے تقریباً200فٹ کی دوری پر موجود لوگوں پربراہ راست بندوقوں کے دہانے کھول دیئے۔ کئی لوگ لہو لہان ہوکر سڑک پر گرکر تڑپنے لگے،چاروںطرف چیخ وپکار کی صدائیں گونجنے لگی ، تاہم شور وَ الم کے دوران ہی لوگوں نے زخمیوں کو ہسپتال پہنچا دیا ۔جائے واقعہ پر موجود ایک عمر رسیدہ بزرگ عبدالر زاق کا کہنا ہے ’’ نہایت کم عمر کے بچے چھوٹی چھوٹی کنکریاں اُس طرف مارتے تھے‘ فوجی اہلکار تو پہلے چھوٹے بچوں کی اس حرکت پر ہنس رہے تھے جبکہ وہ بھی واپس پتھر مارتے تھے۔ان کا کہنا تھا’’ دوسرے تماشہ بینوں کی طرح میں بھی آرام سے نزدیکی سکول احاطے کے قریب دیکھتا اور اکثر دوسرے لوگوں کی طرح ایسا کرنے والوں کو ٹوکتا تھا،لیکن بیچ میں اچانک ایسا لگا کہ شاید آسمان سے کوئی بجلی گری کہ فورسز اہلکاروں نے سڑک کے اُس پار موجود لوگوں کی طرف ٹارگٹ فائر کرکے یہاں ماتم برپا کردیا‘ ‘۔مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ فورسز نے کئی گولیاں چلائیں اور اس دوران زخمی ہوئے 7ویں جماعت کے ہونہار طالب علم فیضان فیاض اور عباس جہانگیر شدید طور پر زخمی ہوئے اور انہیں اسپتال پہنچایا گیا ۔ فیضان کی طوطلی زبان سے سست لہجے میںخدایا، او خدایا، بچاؤ بچاؤ جیسی آوازیں نکل رہی تھی،جس کے ساتھ ہی وہ خاموش ہوگیا۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ ہم نے معصوم فیضان کے سر میں اسکے دائیں کان کے بالائی حصے سے بہہ رہے خون کو دیکھتے ہی بھانپ لیا کہ ہم فیضان کے نیم مردہ جسم کو گود میں اُٹھا رہے ہیں تاہم جب ہم نے انہیںپکھر پورہ پہنچایا تو وہاں پر موجود ڈاکٹر نے فیضان فیاض کو مردہ قرار دیا ۔علمدار بینڈنگ سکالرز سکول ڈھلون میں 7ویں جماعت میں زیر تعلیم ابھی تک پیہم اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والا فیضان فیاض کا ننھا جسم خاک میں مل گیا۔ مقامی لوگوں کے مطابق فیضان دیکھتے ہی دیکھتے پارلیمانی انتخابات کی بھینٹ چڑھ گیا اور عمر بھر اپنے والدین کو وہ زخم دے گیا جو ان کیلئے کسی ناسور سے کم نہیں۔ فیضان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہمارا لخت جگر گھر سے قریب ساڑے8بجے صبح نکلا کہ میں’’ بال‘‘ (ٹیلے)پر تماشہ دیکھ لوں گا،وہاںالیکشن ہورہا ہے‘ صبح سے ہی گائوں میں سرد مہری جیسی دکھائی دے رہی تھی۔چند ہم عمر بچوں کے ساتھ فیضان بھی قریب 300فٹ کی دوری پر موجود ایک اُونچے ٹیلے پر پولنگ کا نظارہ دیکھ رہا تھا۔غم ونمناک ماحول میں فیضان فیاض کا پورا کنبہ نڈھال ہے جبکہ انکی والدہ وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے سوالیہ انداز میں پوچھتی ہیں’’ تم بھی کسی بچے کی ماں ہونا‘بس مجھے اپنا معصوم واپس کرو؟‘‘۔ چرار شریف کے اس علاقے میں ایک مرتبہ اس وقت پھر بجلی گر جب ایک اورزخمی نوجوان عباس جہانگیر کو انتہائی نازک حالت میں اگرچہ فوراً چاڈورہ پہنچا یا گیالیکن تب تک وہ بھی اپنی زندگی کی آخری سانسیں بند کرچکا تھا ۔ لواحقین کے مطابق جب ہر طرف سے چیخ وپکار اُٹھی تو گھر سے باہر آتے ہی ہمیں یہ افسوس ناک خبر ملی کہ گھر کا لاڈلہ عباس جہانگیر گولیوں سے بھون ڈالا گیا ہے۔عباس احمد نے گزشتہ برس میٹرک کا امتحان پاس کیا تھا ۔عباس والدین کی خواہش کے مطابق تعلیم جاری رکھتے ہوئے کے اے ایس کرنا چاہتا تھا۔ تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ اس کے باپ کی کمر تو 2014کے دوران ہی اسوقت ٹوٹ چکی تھی جب اسکے پہلے فرزند جو کہ سافٹ وئر انجینئر تھا ،کو چاڑورہ کے مقام پر ہلاک کیا گیا تھا۔آج فتح محمد راتھراپنی آنکھوں سے نہ تھمنے والے آنسوؤں کو مشکل سے روکتے ہوئے انتہائی غم ناک وَ درد دینے والی صورت حال کے درمیان محسوس کرتے ہیں کہ اسکے کانوں میں ہر لمحہ گذرنے کے دوران یہ صدائیں گونجتی ہیں۔۔۔۔ دیکھو’ ائے میرے پاپا میں تو اُس ٹیلے سے دیکھتا ہوں کہ گولی میرے سر کے دائیں طرف سے پیوستہ ہوکر شاید بائیں طرف سے پار ہوگئی‘؟۔