راجوری//ضلع ہسپتال راجوری میں لفٹ سسٹم (ایلیویٹر ) کاافتتاح اگرچہ 2014میں کیاگیاتھاتاہم اب تک اس کو چالو نہیں کیاجاسکاہے جس کے نتیجہ میں مریضوں کو بالائی منزلوںتک پہنچنے کیلئے پائوں سے چل کرسیڑھیاں طے کرناپڑتی ہیں جس دوران بزرگوں اور خواتین کو سخت مشکلات کاسامنارہتاہے ۔ذرائع نے کشمیر عظمیٰ کوبتایاکہ ضلع ہسپتال میں 4فروری 2014کو اس وقت کے وزیرمملکت برائے صحت (آزادانہ چارج ) شبیر احمد خان نے اس کا افتتاح کیاتھا جو راجوری کے ممبراسمبلی بھی تھے ۔ذرائع نے مزید بتایاکہ افتتاح کے روز ہی لفٹ لگادی گئی تھی اوراس کو پھر کچھ عرصہ تک چلایابھی گیالیکن اس کے بعد آج تک قابل کار نہیں بنایاجاسکاہے ۔ذرائع کاکہناہے کہ اگر اس نظام کو استعمال کیاجائے گاتو ہر ایک منزل تک اسی کے ذریعہ پہنچاجاسکتاہے ۔ذرائع نے بتایاکہ لفٹ استعمال نہ کئے جانے کی وجہ سے مریضوں کو سخت مشکلات درپیش ہیں اور سب سے زیادہ پریشانی بزرگوں کو ہوتی ہے جنہیں پائوں کے سہارے سیڑھیاں چڑھنا اور اترناپڑتی ہیں ۔ذرائع کاکہناہے کہ اگرچہ اس نظام کی تنصیب ہوچکی ہے لیکن سال بھر اس کی دیکھ ریکھ کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ذرائع نے مزید بتایاکہ ایک سال قبل چندی گڑھ سے ایک کمپنی کو معاہدے کیلئے بلایاگیاتاکہ وہ اس کی دیکھ ریکھ کرسکے لیکن یہ معاہدہ نہیں ہوسکا اوراس کے بعد اب تک کسی بھی افسر نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی تاکہ معاہدے کے حوالے سے جائزہ لیاجائے یا اس کو دوبارہ سے شروع کرکے حتمی مرحلے تک پہنچاجاسکے ۔ محکمہ صحت کے ایک افسر نے کشمیرعظمیٰ کو بتایاکہ اس کی دیکھ ریکھ کیلئے مسئلہ ہے اور وہ تب تک اس کاقابل کار نہیں بناسکتے جب تک کہ اس کو چلانے کیلئے ماہرین دستیاب نہ ہوں ۔اس حوالے سے بات کرتے ہوئے افتتاح کرنے والے سابق وزیر صحت شبیر خان نے کہاکہ راجوری کاہسپتال ’ریفر ہسپتال‘ بن گیاہے جہاں لائے جانے والے ہر ایک مریض کو جموں منتقل کردیاجاتاہے ۔ انہوںنے کہاکہ ان کے وقت نصب کی گئی مشینری ٹھپ پڑی ہوئی ہے اور آئے روز ہسپتال میں اموات ہورہی ہیں ۔انہوںنے کہاکہ ڈاکٹروں کی شدید قلت ہے اور لوگ انتہائی پریشانی سے دوچار ہیں تاہم افسوس ناک بات یہ ہے کہ متعلقہ نمائندگان کا اس ہسپتال کی طرف دھیان ہے نہیںاور نہ ہی وہ مریضوں کے درد کو جانتے ہیں۔انہوںنے کہاکہ ڈپٹی کمشنر بھی کوئی توجہ دے رہے ہیںاورضلع انتظامیہ مفلوج بن کر رہ گئی ہے ،نہیں معلوم کہ وہ کس دبائو تلے ہے ۔