پہاڑی ضلع راجوری میں شعبہ صحت انتہا درجہ کی خستہ حالی کا شکار ہے، جسکی زندہ مثال یہ ہے کہ ہسپتال میں آئے روز مریضوں، بالخصوص حاملہ خواتین، کی اموات کے واقعات پیش آتے ہیں۔ ان واقعات کے خلاف کئی مرتبہ عوام نے سڑکوں پر آکر احتجاج بھی کیا اور لواحقین نے ہسپتال میں نامکتفی انتظامات اور اسپتالی عملے پر لاپرواہی برتنے کے الزامات بھی عائد کئے، لیکن اس کے باوجود انتظامیہ نے گہری نیند سے نہ جاگنے کی جیسے قسم کھا رکھی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ ہسپتال کے شعبہ زچگی کے سپیشل نیو نٹل کیئر یونٹ کے بیشتر آلات ناکارہ ہوگئے ہیں جو نوزائیدہ بچوں کی زندگی سے کھلواڑ سکے کچھ کم نہیں۔ آپریشن کے وقت ہسپتال کے اندر تو خون میسر نہیں ہوتا جس کی وجہ سے لوگوں کو پرائیویٹ کلینکوں سے خون خرید کر لانا پڑتاہے۔ ایسا ہی حال عملے کا بھی ہے جہاں سرکار سے تنخواہیں لینے والے ڈاکٹر اور نیم طبی عملہ کئی کئی دن تک غائب رہتا ہیاور وہ اپنے پرائیویٹ کلینکوں میں کرتے ہیں۔یہ حالت ہے خطہ پیر پنچال کے سب سے اہم طبی ادارے یعنی ضلع ہسپتال راجوری کی جوحکومت کے شعبہ صحت کو ترقی دینے کے تمام تر دعوئوں کے برعکس روبہ زوال ہے ۔یہی نہیں بلکہ ان تمام خرابیوں کے بعد اگر حکام کی طرف سے ہسپتال انتظامیہ سے کوئی تفصیلات طلب کی جاتی ہیں تو وہ بھی فراہم نہیں کی جاتیں، جس پر حکام جواب طلبی کا حکم جاری کرنے پرمجبور ہوتے ہیں ۔یوں سمجھئے کہ ضلع ہسپتال راجوری بدانتظامی کی ایک مثال بن چکاہے جہاں روز اس نظام کی خرابی کے حوالے سے روز کوئی نہ کوئی نئی بات سامنے آجاتی ہے ۔اس ہسپتال میں پچھلے ڈیڑھ ماہ کے دوران پانچ سے چھ خواتین کی موت ہوئی ہے۔ ضلع ہسپتال کے ڈاکٹروں سے متعلق یہ شکایت عام ہے کہ وہ ڈیوٹی کی پابندی نہیں کرتے اور من مرضی سے کام لیتے ہیں ۔خاص طور پر رات کے وقت اگر مریض تڑپتا بھی رہے تو وہ اس کی دیکھ ریکھ نہیں کرتے جبکہ نیم طبی عملہ بھی اسی طرح سے آرام طلب بناہواہے جس کا اندازہ اس بات سے لگایاجاسکتاہے کہ بہت سے ملازمین نے وارڈوں میں ڈیوٹی سے بچنے کیلئے اپنے اثرورسوخ کا استعمال کرتے ہوئے ڈیوٹی اوقات کارصبح 10بجے سے شام 4بجے تک رکھوائے ہیں اور وہ اصل ڈیوٹی کے بجائے ریکارڈ کی دیکھ ریکھ کے کام میں لگے ہوتے ہیں ۔اس حالت کو دیکھتے ہوئے ہسپتال حکام کو ایسے ملازمین کے نام ایک سرکولر بھی جاری کرناپڑاہے جس میں ان کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ اپنی اپنی ڈیوٹی پر واپس لوٹ آئیں ۔ انتظامی لاپرواہی کا یہ عالم ہے کہ لفٹ سسٹم (ایلیویٹر ) کاافتتاح 2014میں کیاگیاتھاتاہم اب تک اس کو قابل کار نہیں بنایاجاسکاہے ، نتیجتاً نازک حالت میں بھی مریضوں کو بالائی منزلوںتک پہنچنے کیلئے سیڑھیاں طے کرناپڑتی ہیں جس دوران بزرگوں اور خواتین کو سخت مشکلات کاسامنارہتاہے۔حیران کن طور پر اس لفٹ سسٹم کو چلانے والا ہی کوئی نہیں ہے اور نہ ہی حکام کی طرف سے کوئی انتظام کیاجارہاہے جس کی وجہ سے قیمتی مشینری استعمال میں لائے بغیر تباہ ہورہی ہے ۔ ہسپتال کے حوالے سے سب سے تشویشناک امر یہ ہے کہ مریضوں کو بلڈ بنک سے بوقت آپریشن خون نہیں ملتالیکن اسی بلڈ بنک سے خون پرائیویٹ کلینکوں کو دیاجارہاہے جہاں مریضوں کے آپریشن بھی ہوتے ہیں۔ یہ انکشاف تب ہواجب حال ہی میں ویجی لینس کی ایک ٹیم نے اچانک چھاپہ مارکر پرائیوٹ کلینکوں کا جائزہ لیا جس دوران وہاں کام کررہے عملے نے بتایاکہ وہ خون ضلع ہسپتال کے بلڈبنک سے لاتے ہیں۔ہسپتال انتظامیہ کی طرف سے نوزائیدہ بچوں کی زندگی کے ساتھ کھلواڑ کیاجارہاہے کیونکہ ہسپتال کے سپیشل نیو نیٹل کیئر یونٹ (ایس این سی یو ) میں بیشتر آلات ناقابل استعمال بن چکے ہیں اور انتظامیہ کی طرف سے ان کی مرمت کرنے یا ان کی جگہ کوئی متبادل انتظام کرنے کیلئے کوئی بھی دھیان نہیں دیاجارہا۔ ایس این سی یو جسے چند برس قبل ہی ہسپتال میں شروع کیاگیاتھا، کے بیشتر آلات جن میں انفینٹ ریڈیانٹ وارمر، فوٹو تھراپی یونٹ ، ڈبل فوٹوتھراپی یونٹ ، آکسیجن کنسنٹریٹرس ، سکشن مشینیں ، او ٹی لائٹ ، ٹرانسپورٹ انکیوبیٹر ، ویئنگ مشینیں ، نیڈل کٹر ، پورٹ ایبل ایکسرے مشین ، بلروبن میٹر ، سنٹریفیوج مشین وغیرہ ناقابل استعمال ہیں اور مناسب رقومات ہونے کے باوجود ان کی دیکھ ریکھ نہیں کی جارہی ہے ۔مجموعی طور پر ضلع ہسپتال راجوری کا نظام انتہائی بگڑاہواہے جسے سدھارنے کیلئے انقلابی سطح کے اقدامات کرنے ہوںگے ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ وزیر صحت بلند و بانگ دعوے کرنے کے بجائے دور درا زاور پہاڑی اضلاع کے طبی نظام پر بھی نظردوڑائیں ۔