گزشتہ دنوں بھارت کے سابق وزیرخارجہ اور جہاں دیدہ سینئر بھاجپا نیتا یشونت سنہا نے کشمیر میں تمام سٹیک ہولڈروں سے مذاکراتی سلسلہ شروع کر نے کی ا پنی مانگ کو تقویت دیتے ہوئے ایک بہت ہی امن پرورانہ تجویز حکومت ِہند کو یہ کہہ کر دی ہے کہ واجپائی دور کی روایت کا اعادہ کر تے ہوئے اُسے بھی کشمیر میں رمضان سیٔز فائر کا اعلان کر نا چاہیے۔ یہ تجویز ایک صحت مندسوچ کی عکاس ہے ۔ قبل ا زیں سابق وزیراعلیٰ اور نومنتخبہ ممبر پارلیمنٹ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھی مر کز کو مشورہ دیا کہ اُ سے رمضان المبارک میں کشمیر میں فوجی کارروائیاں مختصر کر نی چاہیں ۔ اس مثبت تجویز کا لب لباب انسانی حقو ق کی رکھوالی اور شہری آزادیوں کا احترام سمجھا جانا چاہیے ۔ آثار وقرائین سے باورہوتا ہے کہ دلی شاید ہی اس معقول تجویز پر عمل پیراہو گی۔ اس وقت مرکز سے ایک جانب وزیر دفاع متواتر اشارہ دے رہے ہیں کہ عسکریت کا آ ہنی ہاتھوں سے مقابلہ کیا جائے گا، دوسری جانب فوج حد متارکہ کے پار نوشہرہ سیکٹر میں گزشتہ سال کی متنازعہ سرجیکل اسٹرائیک کی طرز پر ایک اور فوجی کارروائی کا دعویٰ کر رہی ہے ، تیسری جانب فوجی سربراہ کشمیر میں فعال وسرگرم عسکریت مخالف فورس راشٹریہ رائفلزکے اُس متنازعہ میجر کو سند ستائش عطاکر رہے ہیں جس نے ۹ ؍ اپریل کو پولنگ کے دن وسطی کشمیر بیروہ کے رہائشی فاروق احمدڈار کو اپنی جیپ کے بانٹ سے رسیوں سے باندھ کر صبح تاشام کئی دیہات میں گھما یا اورگاؤں والوں کو دھمکی دی کہ اگر کہ فورسز پر کسی نے پتھراؤ کیا تو ا س کا یہی انجام ہو گا۔ اس لرزہ خیز واقعے پرپولیس نے ایف آئی آر درج کر کے اپنی تفتیش شروع کی جب کہ دنیا بھر میں اس پر انسانی حقو ق کے علمبردار انگشت بدنداں ہیں ۔ بایں ہمہ مودی سرکار اگربالفرض یشونت سنہا اور فاروق عبداللہ کی تجویز کو تسلیم کر کے کشمیر کی بگڑی بنانے کو ترجیح دیتی ہے تو یہ دنیا کا نواں عجوبہ قرارپائے گا ۔ یہ ایک کھلا راز ہے کہ وادی ٔ کشمیر میں گزشتہ ستائیس سال سے سیاسی بے چینی اور نقصِ امن کے بیچ حقوق البشر کی بدترین خلاف ورزیاں ہوتی ر ہیں اور اس ناقابل ِبیان سیاہ تاریخ میں روزاضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ معاصر تاریخ کے اس گھناؤنے باب کا ایک دل شکن پہلو یہ ہے کہ ریاستی سطح پر انسا نی حقوق کی پاسداری کر نے کی بجائے ان کی پامالیوں کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کیا جا تارہاہے اور یہ تکلیف دہ صورت حال اس بات کا گویاواشگاف اعلان ہے کہ یہاں انسانیت کی کوئی قدر وقیمت ہے اورنہ یہاں مقتدر لوگوں کو امن کی پروائی چلانے میں کوئی دلچسپی ہے۔اس میں دو رائے نہیں کہ جہاں افسپا جیسا کالا قانون بندوق کا پشتیبان ہو ، وہاں انسانی اقدار کی مٹی پلید ہونا طے ہے اور وہاں امن و خوش حالی کی کوئی ضمانت دی جاسکتی ۔ اس قانون کے زیرسایہ وردی پوش جانتے ہیں کہ وہ چاہے عسکریت کا توڑ کر نے کی آڑمیں نہتوں پر راست فائر کھولیں، پتھراؤ جیسے عام واقعات پر قابو پانے کے بہانے پیلٹ گن کا بے جا استعمال کر تے پھریں ،کسی عام شہری کو انسانی ڈھال بنائیں ، کسی گھر کی چادر اور چاردیواری کا تقدس خاک میں ملادیں، کسی بے قصور نوجوان کو قید وبند کی صعوبتوں کے حوالے کردیں ، اُن کا کوئی قانونی مواخذہ نہیں ہوسکتا ۔ سابقہ ریاستی حکومت اور موجودہ مخلوط سرکار نے ا پنی اپنی باری پر عوام الناس کویہ وعدے دئے کہ افسپا کو پہلی فرصت میںچلتا کر دیا جائے گا مگر عمل ندارد۔ عمر عبداللہ نے اس پر کافی عرصہ تک بیان بازیاں کر کے لوگوں کو یقین دہا نیاں دیں کہ وہ اپنے دورِ اقتدار میں اس کالے قانون سے گلوخلاصی کرواکے ہی دم لیں گے ۔ اُن کے سیاسی حلیف کانگریس کے پی چدمبر م نے کئی بار بہ حیثیت وزیر داخلہ یہ خوش خبری سنا دی کہ افسپا کا لعدم قرار دیا جائے گا مگر عملی طوریہ سب زبانی خرچ اور بہلاوا ثابت ہوا۔ اس قانون کے ہوتے ہوئے نہ انسانیت کو تحفظ مل سکتا ہے نہ شہری آزادیوںکا تقدس خاک آلودہ ہونے سے بچایا جا سکتا ہے۔ پی ڈی پی کا سیاسی نظریہ’’گولی نہیں بولی‘‘ کے نعرہ بھی اس کی بھینٹ چڑھا ۔ اس نے اپنے ایجنڈا آف الائنس کی تحریر میں بھاجپا سے مل کر کشمیر کے لئے آسمان سے تارے توڑ لانے کے وعدے دئے تھے مگر آج کی تاریخ میں اس کا فلسفہ ٔ سیاست محض کاغذی گھوڑا بنا ہوا ہے۔ بنابریں وادیٔ کشمیر میں انسانی حقو ق کی حفاظت کا وعدہ ہویانارملسی کا دعویٰ ہو ، یہ دونوں اُس وقت دیوانے کی بڑ ہیں جب تک افسپا چلتا نہیں کر دیا جاتا ۔ غور طلب ہے کہ انسانی حقوق کی ہر خلاف ورزی اور عوام کے خلاف فورسز کی ہر اشتعال انگیز کارروائی دیر سویر نوجوانوں کو انتقام درانتقام کے بھنور میں ڈبوتی رہی ہے ، بالخصوص ناگفتہ بہ حالات کے متاثرہ نوجوان اسی پس منظر میں انتقامی جذبے کی آگ میں جل بھن رہے ہیں۔ بات واضح ہے کہ جب ان کو اپنے ناکردہ گناہوں کی سزا لاٹھی ، گولی ، پولیس تھانوں کے چکر اور تعذیبی مراکز کی مار کاٹ کی صورت میں ملے تو یہ اُمید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ نچلے بیٹھیں ۔ برہان مظفر وانی کی ساری سرگزشت اسی ایک نکتے کے گرد گھومتی ہے کہ ترال کشمیر میں کسی باوردی اہل کار نے سرعام ان کے عزت ِ نفس کو ٹھیس پہنچائی۔اسی ایک نفسیاتی دھچکے نے ا ن کی زندگی کا سفر سمت ہی بدل دیا۔ حال ہی میں شوپیان کے ایک نوجوان نے بھی عسکریت کی راہ چلنے کے بارے میں خلاصہ کیا کہ پولیس کی تنگ طلبی سے بالآخر عسکری تنظیم کی صفوں میں شمولیت ہی اُسے اپنے درد کا درماں محسوس ہوا ۔ اس طرح کی سینکڑوں سر گزشتیں ہیں جن کا براہ راست تعلق وردی پوشوں کی دراز دسیتوں اور بلا جواز کارروا ئیوں کے سر بند ھتا ہے ۔ بالفاظ دیگر عسکری گروپوں میں شمولیت کر نے والے کئی ایک نوجوان نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن کے مصداق بندوق اور بارود کی راہ پکڑتے رہے ہیں ۔ ان سچی کہا نیوں کو اربا ب ِاقتدار بوجوہ نظرا نداز کر نے کی وضع پر قائم ہیں مگر امن اور آدمیت پہ یقین رکھنے والوں کا کلیجہ منہ کو آتا ہے جب وہ دیکھتے ہیں کہ عسکریت مخالف آپرویشنز کے نام پر مختلف النوع جرائم اور قانون شکنیوں میں ملوثین کا ریاستی ادارے بال بھی بیکا نہیں کرتے بلکہ اُلٹا انہیں وقتاً فوقتاً اربا بِ حل وعقد سے شابا شیاں ملتی ہیں ، تمغے عطا کئے جاتے ہیں ، انعامات سے سر فراز کیا جاتا ہے ،ترقیاں دی جاتی ہیں تو ان کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگتی کہ کشمیرکی عصری تاریخ کے اوراق کیوں اشک بار نہ ہوں جب مورخ نے یہ لکھا کہ اخوان کے دورِ ظلمت کے ایک اہم کردارممہ کنہ کو جس طرح پدم شری ایوارڈ سے نوازا گیا، اُسی طرح آج راشٹریہ رائفلز کے میجر گگوئی کے حق میں آرمی چیف مکتوب ِ ستائش جاری کر چکے ہیں۔ ہماری تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جو نہ صرف انسانی حقوق کا منہ چڑاتے ہیں بلکہ اس بات کی چغلی کھاتے ہیں کہ کشمیر میں انسانیت کا جنازہ کن مقتدر لوگوں کے ہاتھوں اٹھا۔ بہر حال وقت کی اذان ہے کہ اہل کشمیرکے زخموں پر پھا ہا رکھا جائے ، اُن کا دُکھ دور بانٹا جائے ا ور جس کسی نے یہاں انسانیت کو کسی بھی عنوان سے لہو لہان کیا، انہیں قانون کی رُوسے کیفر کردار تک پہنچا یاجا ئے۔ا س سلسلے میں رمضان المبارک میں سیئز فائر کی تجویز سے شروعات کرنا قیامِ امن کے حوالے سے ایک نیک شگون ثابت ہوسکتا ہے ۔