صیام۔۔۔ مقصدیت وپیغام

Kashmir Uzma News Desk
12 Min Read
رمضان نکلا ہے لفظ رمض سے اور اِس کے لغوی معنٰی تیزی اور شدت کے ہیں۔ یہ اسلامی ہجری سال کا نواں (۹)مہینہ ہے جس میں عرب و عجم کے مسلمانوں پر صبح صادق سے لے کر کے غروبِ آفتاب تک روزہ رکھنے کو فرض قرار دیا گیا ہے۔چنانچہ اللہ رب العزت قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے : اے ایمان والو! تمہارے اوپر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے والوں پر فرض کئے گئے تھے۔ (البقرہ : ۱۸۳)
روزہ کا عربی لفظ صوم ہے اور اِس کے لغوی معنیٰ امساک یعنی رُک جانا یا ٹھہر جانا کے ہیں۔چنانچہ حضرت حافظ ابن حجر علیہ رحمہ نے روزہ کی تعریف میں لکھا ہے: مخصوص وقت میں مخصوص شرائط کے ساتھ مخصوص چیزوں سے رکنے کا نام روزہ ہے۔اِسی لئے جب حضرت مریم علیہا السلام کی قوم نے آپ ؑسے اپنی خاموشی توڑنے کو کہا تو آپ ؑنے اشارے سے کہا: بے شک میں نے رحمٰن کے لئے روزہ مان لیا ہے (المریم : ۲۶)اسی طرح عرب اپنے گھوڑوں کو جہاد کے لئے تیار کرتے تھے کیوں کہ جہاد کے وقت اُن گھوڑوں کے لئے چارہ اور دانہ پانی میسر نہیں ہوتا تھا،اس لئے عرب کے لوگ گرمی کے موسم میں اپنے گھوڑوں کی تربیت کے لئے اُن کا دانہ پانی بند کر کے بھوکا پیاسا رکھتے تھے۔اُن گھوڑوں کو عربی میں صائمیعنی روزہ دارکہا جاتا تھا لیکن شرعی اصطلاحات میں روزہ صبح صادق سے لے کر کے غروبِ آفتاب تک کھانا پینا اور جماع سے رک جانے یعنی پرہیز کرنے کو کہا جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ نے جہاں تمام اہلیانِ ایمان پر روزہ فرض قرار دے دئے وہیں دو طرح کے لوگوں کو اِس سے راحت دے دی۔فرمایا : پھر جو کوئی تم میںسے بیمار ہو یا سفر میں ہو اُس پر واجب ہے کہ وہ دوسرے ایام کا شمار کر کے روزہ رکھے (البقرہ : ۱۸۴)۔اس طرح بھی ماہِ مقدس کے روزوں کی فضیلت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مہلت دی گئی بیماری سے فراغت پانے کی اور سفر سے لوٹ آنے کی، چھوٹ نہیں دی گئی۔اب سوال یہ ہے کہ اس آیت مبارکہ میں جس بیمار اور مسافر کا ذکر ہے وہ کون ہے؟مریض سے مراد وہ بیمار ہے جس کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت تکلیف ہو یا مرض بڑھ جانے کا خدشہ ہو۔فرمایااللہ تعالیٰ کو تمہارے ساتھ آسانی کرنا منظور ہے۔جمہور فقہائے امت کا یہی مسلک ہے(معارف القرآن)مسافر کے حوالہ سے فرمایا گیا ہے کہ کسی شخص کا اپنے گھر اور وطن سے باہر نکلنا روزہ میں رخصت سفر کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ سفر کچھ طویل ہونا چاہئے کیوں کہ علٰی سفر کا مفہوم یہ کہ وہ سفر پر سوار ہو۔اسی لئے رسول اللہﷺ کے بیان اور صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کے تعامل سے امام ابو حنیفہ علیہ رحمہ اور بہت سارے فقہاء نے سفر کی مقدار تین منزل ،یعنی وہ مسافت جس کو پیادہ سفر کرنے والا بآسانی تین روز میں طے کر سکے، قرار دی ہے جو آج کے حساب سے اڑتالیس (۳۸) میل بنتا ہے۔مزید بر آں جو مسافر کسی ایک جگہ پر پندرہ (۱۵) دن ٹھہرنے کی نیت کرے وہ علٰی سفرمیں مزید نہیں کہلاتا۔اس لئے وہ رخصت سفر کا بھی مستحق نہیں۔(معارف القرآن)
رسولِ رحمتﷺ نے ارشاد فرمایا کہ یہ مہینہ یعنی رمضان المبارکہ پورے سال کا دل ہے۔اگر یہ درست ہو گیا تو پورا سال درست ہو جائے گا۔امامِ ربانی حضرت مجددِ الف الثانی علیہ رحمہ فرماتے ہیں کہ یہ مہینہ آنے والے پورے سال کا مقدرہے۔ اس مہینہ کو اللہ رب العزت نے فرمایا ہے کہ ’’یہ میرا مہینہ ہے‘‘۔اِسی لئے نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اس مبارک مہینہ کی راہ تکتے تھے۔چنانچہ دو مہینے قبل ہی سے مخصوص عبادات میں محو ہو جایا کرتے تھے اور یہ دعا فرماتے تھے :  اے اللہ! رجب اور شعبان میں ہم پر برکت نازل فرمااور ہمیں رمضان تک پہنچا۔اِس دعاء سے بھی رمضان المبارکہ کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے کیوں کہ کسی جگہ یا مقام تک پہنچنے کی تمنا تب کی جاتی ہے جب کہ اُس میں کوئی خاصیت ہو۔حضرت ابن الفضل علیہ رحمہ صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین کی بات نقل فرماتے ہیں کہ ہم چھ مہینے اللہ رب العزت سے دعا کرتے تھے کہ وہ ہمیں رمضان تک پہنچا دے اور جب رمضان گزر جاتا تو چھ مہینے ہم اللہ تعالیٰ سے یہ دعامانگتے تھے کہ یہ رمضان ہمارے حق میں قبول فرما۔اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ اپنے مخصوص خزانوں کے دروازے کھول دیتا ہے۔یہ مہینہ بے انتہاء رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے۔ایک مرتبہ نبی کریمﷺ نے اپنے صحابۂ کبار رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین سے ارشاد فرمایا کہ تمہارے اوپر رمضان آ گیا ہے جو برکت والا مہینہ ہے۔اِس میں اللہ رب العزت تمہاری طرف متوجہ ہوتا ہے اور تم پر اپنی رحمتیں نازل فرماتا ہے۔تمہاری خطائوں کا معاف کرتا ہے، دعائیں قبول کرتا ہے اور اِس میں تمہارے تنافس کو دیکھتا ہے ۔ اسی حوالہ سے امامِ ربانی حضرت مجددِ الف الثانی علیہ رحمہ اپنے مکتوبات میں فرماتے ہیں کہ رمضان المبارکہ کے مہینہ میں اتنی برکات کا نزول ہوتا ہے کہ بقیہ پورے سال کی برکتوں کو رمضان المبارکہ کی برکتوں کے ساتھ وہ نسبت بھی نہیں جو پانی کے قطرہ کو سمندر کے ساتھ ہوتی ہے۔یہ مہینہ اللہ سبحان تعالیٰ سے مانگنے کا مہینہ ہے۔حضرت ابو سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ رمضان المبارکہ کے ہر دن اور ہر رات میں جہنم سے جہنمیوں کو بری کرتا ہے اور ہر مومن کی کوئی نہ کوئی دعاء قبول کرتا ہے۔اس حدیثِ مبارکہ سے عیاں ہوتا ہے کہ اِس مبارک مہینہ کا ہر ہر لمحہ ساعتِ حسنہ یعنی قبولیتِ دعاء کا لمحہ ہوتاہے۔لہٰذا اِس مہینہ میں دعائوں کی کثرت کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔نبیِ کریمﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ افطار کے وقت روزہ داروں کی دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ رب العزت رمضان المبارکہ کی ہر ہر رات میں آواز لگاتاہے کہ ہے کوئی مانگنے والاجس کو میں عطا کروں، ہے کوئی توبہ کرنے والا میں اُس کی توبہ قبول کروں گا، ہے کوئی مغفرت چاہنے والا میں اُس کی مغفرت کروں گا۔
نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ جس شخص نے حالت ایمان میں ثواب کی نیت سے روزہ رکھا اُس کے اگلے پچھلے گناہ معاف کئے جاتے ہیں۔ایک اور حدیثِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ روزانہ افطار کے وقت ایسے دس لاکھ آدمیوں کو جہنم سے خلاصی عطاء کرتا ہے جو جہنم کے مستحق ہوچکے ہوتے ہیں اور جب رمضان کا آخری دن ہوتا ہے اللہ تعالیٰ یکم رمضان سے لے کر اُس دن تک جتنے لوگ جہنم سے بری ہوئے ہوتے ہیں ایک رات میں اُن کے بقدر لوگوں کو جہنم سے خلاصی نصیب کرتا ہے۔رمضان المبارکہ کو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے صبر کا بھی مہینہ کہا ہے۔چنانچہ ارشاد فرمایا کہ وہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ صبر خواہشات وشہوات ، لغو کاموں اور فحش باتوں وغیرہ سے پرہیز کرنا ہے۔نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا کہ روزہ کھانے اور پینے سے بچنے کا ہی نام نہیں بلکہ روزہ تولغو اور فحش کاموں سے بچنے کی وجہ سے ہوتا ہے۔لڑائی، جھگڑے اور بد کلامی سے صبر کرنا بھی روزہ داری کا جزو ہے بلکہ یہاں تک ارشاد فرمایا کہ اگر کوئی تم سے تمہارے روزہ کی حالت میں جھگڑنا چاہے تو اُس سے کہہ دو میں روزہ سے ہوں۔جھوٹ اور جھوٹ کے متعلقہ کاموں کا چھوڑنا بھی لازمی ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص جھوٹ اور جھوٹ کے متعلقہ کام یعنی کھوٹ نہیں چھوڑتا اللہ تعالیٰ کو اِس کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ وہ شخص اپنے کھانے اور پینے کو چھوڑ دے۔
قبولیتِ دعا، مغفرت اور صبر کے علاوہ نبیٔ محترمﷺ نے رمضان المبارکہ کو غم خواری کا بھی مہینہ بتایا ہے۔احادیث مبارکہ میں آتا ہے کہ یوں تو نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کی سخاوت کا دریا پورے سال موج زن رہتا تھا لیکن رمضان المبارکہ میں آپؐ کی سخاوت ایسے سرگرم ہوجاتی تھی جیسے ٹھاٹھیں مارتی ہوئی ہوائیں سرگرم ہوتی ہیں۔جو کوئی آپﷺ کی خدمت اقدس میں آتا اُسے کبھی خالی ہاتھ نہ لوٹاتے ۔اس لئے اس مہینہ میں صدقات و زکوٰۃ کا خاص اہتمام کرنا چاہئے۔اِس مبارک مہینہ میں کسی روزہ دار کو افطار کرانے کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے۔چنانچہ فرمایا کہ جو شحص کسی روزہ دار کو افطار کرائے اُس کے گناہوں کے معاف ہونے اور آگ سے نجات کا سبب بنتا ہے۔اس مہینہ کو عبادات کا بھی مہینہ کہا گیا ہے۔نفل پر فرض اور ایک فرض پر ستر(۷۰) فرائض کا اجر دیا جاتا ہے۔یہ وہ مہینہ بھی ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :رمضان وہ مہینے ہے جس میں ہم نے قرآن نازل فرمایا(البقرہ : ۱۸۵)۔اس لئے اس مہینہ کو قرآن و تلاوت کا مہینہ کہنا بھی درست ہے۔اِس لئے اس ماہِ مبارکہ میں تلاوت کلامِ پاک کا اہتمام کرنا چاہئے۔تراویح میں بھی قرآن عظیم الشان سننا بہت فضائل کا حامل ہے۔اکابرین کے بارے میں کتابوں میں آتا ہے کہ وہ یہ پورا مہینہ قرآنِ کریم کی تلاوت میں گزارا کرتے تھے۔فرمایا کہ قیامت کے دن نبی علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ساتھ قرآنِ پاک بھی مومنوں کی شفاعت کرے گا اور اِسی طرح اُس روز انسان کا روزہ بھی اُس کی شفاعت کرے گا۔چنانچہ فرمایا روزے اور قرآن قیامت کے دن بندہ کی شفاعت کریں گے۔گویا یہ شفاعت کا بھی مہینہ ہے۔قیامت کے دن روزہ داروں کے اکرام میں جنت کاایک مخصوص دروازہ ، جسے باب الریان کہتے ہیں، کھولا جائے گا اور اُس سے گزر کر روزہ دار جنت میں جائیں گے۔
رابطہ :شہرِ خاص، سرینگر9469366682
 
Share This Article
Leave a Comment

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *