فاضل شفیع بٹ
نوید اپنے باپ کے ہمراہ جنگل کے راستے ننھیال جا رہا تھا جو کہ قدرے ایک طویل مسافت والا راستہ تھا۔ ویسے بھی نوید کے گاؤں میں آمد و رفت کا کوئی معقول ذریعہ نہیں تھا۔ صبح ایک گاڑی قصبے کے لئے نکلتی تھی اور شام کو وہی گاڑی لوٹ کر واپس آتی تھی۔ جنگل کے بیچ ایک خوبصورت ندی بہہ رہی تھی۔ نوید کو پیاس کا احساس ہوا تو اس کے والد فردوس نے نہر کے میٹھے اور ٹھنڈے پانی سے اسے سیراب کیا۔ باپ بیٹا جنگل کے راستے مزے سے اپنا سفر جاری رکھے ہوئے تھے کہ اچانک نوید کی نظر ایک خوبصورت سفید کبوتر پر پڑی جو جنگل میں شاید کچھ دانے ڈھونڈھ رہا تھا۔ دراصل اس کبوتر کے گھونسلے میں ننھے ننھے بچے تھے اور یہ کبوتر ان کے لئے خوراک جمع کر رہا تھا۔ اس کے بچے گھونسلے میں کبوتر کے لوٹ آنے کے منتظر تھے۔
کبوتر کو دیکھتے ہی نوید ضد کرنے لگا اور زار و قطار رونے لگا۔ وہ پرندہ نوید کے دل کو بھا گیا تھا اور وہ اپنے باپ فردوس سے اسے پانے پر اصرار کر رہا تھا۔ نوید کی یہ چاہت تھی کہ وہ کبوتر ہمیشہ کے لئے اس کا ہو جائے۔
فردوس نے اپنے بیٹے کو لاکھ سمجھانے کی کوشش کی، مگر نوید کی ضد کے سامنے وہ بے یار و مددگار تھا۔ بالآخر فردوس نے بیٹے کی خوشی کےلئے ایک جال بچھاکر کبوتر کو قید کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ کبوتر اب نوید کی قید میں تھا۔ نوید خوشی سے پھولے نہیں سما رہا تھا اور اس پرندے سے دوستی کرنے کے لئے بے تاب تھا۔
کبوتر اب فردوس کا قیدی تھا۔ اسے اپنے بچوں کی یاد ستا رہی تھی جو کھانے کے منتظر تھے اور جنہیں پورا یقین تھا کہ ان کی ماں دانہ لے کر ضرور لوٹے گی، مگر نوید اور فردوس اس بات سے بالکل ناواقف تھے۔ نوید کی خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔ اس نے اپنے باپ سے گھر لوٹنے کی ضد کی تاکہ وہ اپنی اماں کو یہ خوبصورت پرندہ دکھا سکے۔ چنانچہ فردوس اور نوید نے ننھیال کا ارادہ ترک کر کے گھر کا رخ کیا۔ ادھر گھونسلے میں ننھے بچے اپنی ماں کے انتظار میں بیتاب تھے اور اس کی گرفتاری سے بے خبر۔
کچھ ہی دیر میں نوید گھر پہنچ گیا۔ اس نے اپنی اماں کو سفید کبوتر دکھایا اور فردوس نے سارا ماجرا بیان کیا۔ فردوس کی بیگم غصے سے آگ بگولہ ہوئی۔ اسے یہ عمل بہت گراں گزرا مگر وہ بھی اپنے بیٹے کی ضد کے آگے بے بس تھی۔ فردوس نے بازار سے ایک پنجرہ خریدا اور کبوتر کو اس میں قید کر دیا گیا۔ اب کبوتر کو اپنے بچوں کی فکر کھائے جا رہی تھی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس کے بچے کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے۔ ایک بے زبان پرندہ بھلا اپنا حالِ دل کس سے کہتا؟ وہ درد و کرب میں مبتلا تھا، مگر اس کے احساسات انسان کی سمجھ سے پرے تھے۔ وہ رہائی کے لیے تڑپ رہا تھا، اپنے بچوں کے پاس لوٹ جانا چاہتا تھا۔ اسے یہ بھی نہ معلوم تھا کہ بھوک اور انتظار نے اس کے ننھے بچوں کی سانسیں چھین لی تھیں۔ گھونسلے میں ان کے مردہ جسموں کو ّے نوچ رہے تھے۔
نوید کو کبوتر سے بے حد محبت تھی۔ وہ نہایت لاڈ سے اس کا خیال رکھتا، اسے پانی اور دانہ خود دیتا اور دن بھر اس کی صحبت میں رہتا۔ نوید اپنی دوستی تو نبھا رہا تھا مگر اپنے دوست کی دلی کیفیت سے ناواقف تھا۔ اسے خبر نہ تھی کہ اس نے اس کے سجے سجائے آشیانے کو اجاڑ دیا تھا۔ فردوس بھی کبوتر کا خاص خیال رکھتا تھا مگر نوید کی ماں ان دونوں سے خفا تھی۔ وہ کبوتر کی آزادی چاہتی تھی اور روز باپ بیٹے کو سمجھاتی تھی، لیکن وہ اس کی بات سننے پر آمادہ نہ تھے۔
پنجرے میں قید کبوتر اپنے بچوں کی جدائی میں دن بہ دن کمزور ہوتا جا رہا تھا۔ اسے نوید کی دوستی راس نہ آ رہی تھی۔ وہ اس قید سے آزادی چاہتا تھا، مگر یہ ممکن نہ تھا۔ نوید کبوتر سے بے پناہ انسیت رکھتا تھا اور اسی کمرے میں سوتا تھا جہاں اس کا پنجرہ رکھا تھا۔ سوتے وقت وہ کبوتر کو پانی پلاتا اور اس کے کھانے کا سامان پنجرے میں رکھ دیتا۔ وہ اپنی محبت نبھا رہا تھا مگر کبوتر کو یہ محبت قید سے بدتر محسوس ہوتی تھی۔
ایک رات نوید نے ہمیشہ کی طرح کبوتر کو پانی پلایا اور سو گیا۔ صبح جب وہ بیدار ہوا تو پنجرے سے کوئی آواز نہ آ رہی تھی۔ کبوتر بے حس و حرکت پڑا تھا۔ نوید کو لگا شاید وہ سو رہا ہے، اس نے پنجرہ ہلایا، مگر کبوتر ٹس سے مس نہ ہوا۔ بچوں کی جدائی کے غم اور قید کی اذیت نے اس کی سانسیں چھین لی تھیں۔ ایک قیدی مجبور پرندہ آخر کب تک درد سہتا؟
کبوتر مر چکا تھا۔ نوید نے زور زور سے رونا شروع کر دیا۔ اس کی ماں نے بہت سمجھایا، مگر اس کے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ اس کا دوست مر چکا تھا۔ وہ دوست جو اس کے ساتھ سوتا، جس کے ساتھ کھیلتا، جسے وہ دل و جان سے چاہتا تھا۔ نوید کے دل پر یہ صدمہ پہاڑ بن کر گرا۔ اس کے ذہن پر گہرا اثر پڑا اور وہ ایک ذہنی بیماری میں مبتلا ہو گیا۔ اس کا علاج جاری ہے، اور اس کے والدین اس کی صحتیابی کے لئے ہر قربانی سے گذر رہے ہیں۔
مگر شاید فردوس نہیں جانتا کہ بعض زخم جسم کے نہیں، روح کے ہوتے ہیں۔ کبھی کبھی ایک بے زبان پرندے کی موت انسان کے اندر وہ خاموشی بو دیتی ہے جس سے زندگی بھر کوئی صدا نہیں پھوٹتی۔ نوید اب بھی روز شام کو پنجرے کے قریب بیٹھتا ہے,جہاں اب صرف ہوا رہتی ہے، اور ایک احساسِ جرم جو پر کھول کر اڑ نہیں سکتا۔
نوید کی ماں اپنے خاوند سے کہتی رہتی ہے کہ تم نے کبوتر کو مارا۔ کیا پتا اس کے بھی بچے ہوں۔ کبوتر کے بچوں اور کبوتر کی پنجرے میں موت کی پرچھائی آج بھی ہمارے گھر کی فضاؤں میں تیر رہی ہیں، جیسے کسی ان دیکھی جیل کی دیواروں پر پر پھیلائے کہہ رہی ہو کہ تم سب اپنے ظلم کے اسیر ہو۔
نوید کے وجود میں اب بھی ایک پنجرہ آباد ہے, جس میں اُس کی معصوم خواہش، اُس کا دوست، اور اُس کی آزادی قید ہے۔ کبوتر تو مر گیا، مگر اس کے ساتھ نوید کے اندر کا بچپن بھی دفن ہو گیا۔ محبت اگر آزادی نہ بن سکے تو وہ قید سے بدتر زنجیر ہے۔ ایک صیاد کا پنجرہ ہے۔ بے زبانوں کے گھونسلے اجاڑنے والے اپنے لئے بھی پنجرے خرید کر لاتے ہیں،جن میں ان کی زندگیاں قید ہوکر رہ جاتی ہیں۔
���
اکنگام، انت ناگ،کشمیر
موبائل نمبر؛9419041002