محمد اشرف بن سلام
کشمیرکی مٹی کو کیمیا اثر بنانے میں جن شخصیات نے اپنی زندگی کے تمام لمحات اور اوقات صرف کئے ، وہ ہستیاں ہمارے لیے مشعل راہ اور نمونہ ہیں ،جنہوں نے دنیاوی عیش وعشرت والی زندگی کو خیر آباد کہہ کر سار ی عمر دین حق کے لئے واقف کردی۔جنہوں نے اپنا گھر عزیز اقارب اور چمکتے شہروں کو چھوڑ کر صوفیانہ زندگی کو اپنا کر ایسے کارنامے انجام دئیے جنہیں ہم آج بھی یاد کرتے ہیں۔ یہاں میں جس مردِ خدا ، عارف باللہ او ر شریعت ومعرفت کے رہنما کاتذکرہ کررہاہوں، اسے حکیم محمد اسمعیل،تخلص’’ د مساز‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں۔د مساز صاحب ؒ ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔بے شک دوست خدا غم اور خوف سے آزاد ہوتے ہیں۔حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت ہے کہ ’’پیغمبر اسلامؐ نے فرمایا کہ بندوں میں سے بعض ایسے ہیں جو نہ تو نبی ہیں اور نہ شہید، لیکن اللہ کے نزدیک ان کا مرتبہ دیکھ کر انبیاءاور شہداءبھی ان کی تحسین اور تعریف کریں گے۔ صحابہ کرام نے کہا، یا رسول اللہؐ ہمیں خبر دیں کہ وہ کون لوگ ہونگے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں سے محض اللہ کی وجہ سے محبت کرتے ہیں، حالانکہ وہ لوگ ان کے رشتہ دار ہوتے ہیں نہ ان کو ان سے کوئی مالی فائدہ ہوتا ہے، اللہ کی قسم اُن کے چہرے منور ہونگے اور بے شک وہ نور کے منبر پر فائز ہونگے اور جب لوگ خوفزدہ ہونگے تو انہیں خوف نہیں ہوگا اور جب لوگ غمزدہ ہونگے تو انہیں غم نہیں ہوگا۔‘‘
دوست ِخدا ہر وقت اللہ کی عبادت میں مشغول رہتے ہیں ،دنیا سے انکی کوئی غرض نہیں ہوتی،انسانیت کی خدمت کرتے ہیں اور شریعت کے پابند ہوتے ہیں۔دمسازؒ صاحب ایک سچے عاشق رسولؐ ، پاکباز عارف اور شاعر حقیقی تھے۔آپ کی شخصیت محتاج تعارف نہیں مگر شومئی قسمت ہم وقت کے ساتھ ساتھ اپنے اسلاف کو بھول جاتے ہیں ۔اسی لئے کبھی کبھار بزرگوں کا تذکرہ کرتا رہتا ہوں۔ جس سے نئی نسل کو تحقیقی دنیا میں اپنے اسلاف کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوجائے اور انہیں معلوم ہوجائے کہ ہمارے بزرگ اپنے زمانے میں ایک خاص مقام رکھتے تھے۔کچھ دن قبل میری نظر’’ سوزِ دمساز‘‘نامی کتاب پر نظر پڑتے ہی مجھے دُمسازؒصاحب یاد آئے۔ جن کے ساتھ مجھے انتہائی عقیدت اور محبت ہے۔ مجھےاُن کی مجلسوں میںکچھ سننے اور بیٹھنے کا موقع اُس وقت ملا ہے جب میری عمر دس بارہ سال کی تھی ۔ دمساز صاحب ؒ کے بارے صرف یہ کہوں کہ وہ ایک خیر خواہی کا مزاج رکھنے والے رہبر تھے۔ ہمارے گھر ان کا آنا جاتا ہوتا رہتا تھا ۔آپ اپنی بات کو ایسے اسلوب میں ادا کرتے تھے ، جو پسند ہونے کے ساتھ ساتھ غور وفکر کی دعوت ہوتی تھے ۔دمساز ؒاُن ناقابل فراموش شخصیتوں میں شامل ہیں، جنہوں نے اپنی ساری زندگی لوگوں کو صرا ط مستقیم پر گامزن کرتے گذاری۔ دمسازصاحبؒ ایک دوست ِخدا ہونے کے ساتھ ساتھ ایک محافظ انسانیت اور باغ وبہار شخصیت کے مالک تھے ۔اُن کی شاعری نے بہتوں کو اپنا گرویدہ بنایا اور ان کی شاعری میں وہ خصوصیت موجود ہے کہ وہ کسی انسان کی نظر سے گذرے تو وہ انسان متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
دمساز صاحب ؒ زیادہ تر اپنا ہی کلام سنتے تھے۔ محفل سماع صبح کے اذان کے ساتھ ہی اختتام ہوجاتی تھی اور نماز پابندی کے ساتھ ہرپڑھتے تھے۔ دمسازؒ صاحب کے ساتھ جولوگ ہوتے تھے،اُن میں میرے والد صاحب بھی شامل ہوتے تھے۔ محمد اسمٰعیل د مساز ؒ کا ایک فرزند حکیم عبدالرشید جو جوائنٹ ڈائریکٹر پلنگ فائز رہے چکے ہیںکی اپنی ایک انفرادیت ہے۔سبکدوش ہونے کے بعد انتہائی سادگی کے ساتھ اپنے اہل و عیال کے ساتھ راول پورہ سرنیگر میں سکونت پزیر ہے۔د مساز ؒ کے ساتھ اکثر میری عمر کاہی جو عیاض نامی بچہ ساتھ ہوتا تھا ،آج وہی بچہ عیاض بن علی بن دمسازؒ سجادہ نشین ہےاور کاکا پورہ پنگل گام میں رہائش پذیر ہیں۔
محمد اسماعیل دمسازؔسلسلہ نقشبندیہ کے روحانی بزرگ ،بلند پایہ صوفی شاعر تھے۔اللہ تعالی نے انہیں بے شمار صلاحیتیوں سے نوازا تھا ۔ ہر لمحہ راہِ سلوک اختیار کرنے والوں کی رہنمائی کرتے تھے۔اُن کی زندگی کے ہر گوشے سے روحانی مقام ومرتبہ اُبھرکرسامنے آتا ہےاور حقیقت و معرفت پر مبنی آپ کی شاعری نوع انسانیت کا درس دیتی ہے۔
تصوف دراصل اس طرز ِزندگی کا نام ہے جس میں بندہ غیر اللہ سے منہ موڑ کر اپنے معبود و محبوبِ حقیقی کے ساتھ بے لوث رشتہ قائم کر لیتا ہے۔ اس تعلقِ بندگی سے اسے وہ روحانی لذت و انبساط اور لطف و کیف نصیب ہوتا ہے ۔تصوف کی تعلیم روح کو بالیدگی عطا کرتا ہے اور مخلوق کو خالق ِکائنات سے قریب کرتا ہے۔ روحانیت کے راستے کا مسافر باطنی کیفیات اور مشاہدات سے اللہ کو دیکھ لیتا ہے۔ تصوف حسن و کمال کے ساتھ ساتھ ظاہری اور باطنی خوبیوںکا جسم وجان سے رشتے کا نام ہے۔ شریعت اور طریقت کا تصور یہی ہے کہ انسان عبادت میں جسمانی پاکیزگی اور اعمال کے ساتھ ذہنی تفکر کے ذریعے اپنی ذات سے واقفیت حاصل کرےاور علم تصوف کے ذریعے تزکیہ نفس اور ظاہر و باطن کی تعمیر ہوتی ہے تاکہ انسان ابدی سعادت حاصل کرسکے۔ دمسازؔ کی شاہکار تصنیف ’’سوز ِدمساز‘‘میں معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوںنے پہلے علم و عرفان کی تعلیم جناب رحیم ؒصاحب سنگر کنھموہ سے حاصل کی۔اس کے بعد لارؔ کے رہنے والے رسولؒصاحب اور آخر میں محمد سلطان ڈار صاحب رانگر کی صحبت میں اس مقام تک پہنچے اور یہ خاندان ابھی رانگر چاڈورہ میں آبادہے۔ الغرضاس دنیا سے ہر ایک اپنے وقت پر واپس جانا ہے ۔موت ایک اٹل حقیقت ہے جس کا سامنا دیر سویر ہر ذی نفس کو کرنا ہے۔البتہ کچھ افراد اس عارضی دنیا کو دائمی خیر بادکہنے کے باوجود اپنے نیک کار ناموں اور اعمال صالحہ کی وجہ سے زندہ جاوید رہتے ہیں۔ محمد اسمعیل دمساز ؒ 1900ءکو سر زمین لیلہ ہارؔ پلوامہ میں تولد ہوئے تھے اور 4 نومبر 1975ءکو اپنے مالک حقیقی سے جاملے ۔ اناللہ وانا اللہ راجعون
(رابطہ ۔اوم پورہ بڈگام 9419500008 )
�����������������