وہ تھکا ماندہ دُشوار اور پُر خطر راستوں سے گذرتا ہو اجب بستی میں پہنچا تو سورج ڈھل چُکا تھا۔ منزل اُسکی آنکھوں کے سامنے تھی جسکو پانے کیلئے وہ کو شاں تھا۔ کھُردری، نوکیلی اور گرم چٹانوں پہ اُس نے کئی دن اپنے پائوں متحرک رکھے تھے۔ اب اُسکو ٹِھکانے پہ پہنچنے کی مسرت تو تھی لیکن اُسکی حسِاس ناک نے کُچھ ایسا سنگھا اور آنکھوں نے کچھ ایسا دیکھا کہ بیگانگی کا احساس سا ہونے لگا۔ یہ اُس کا بھرم تھا یا حقیقت؟ کُچھ کہنا ہنوز قبل از وقت تھا۔
’ تخیل‘ ہاں، اُسکا نام تخیل ہی تھا۔ اُس نے اور اُسکی بستی کے ہم عصر لوگوں نے معیشی ترقی کی تمام منزلیں طے کر لی تھیں لیکن وہ تھا کہ اپنے آپ کو ابھی نا مکمل ہی سمجھتا تھا۔ ایسا محسوس کر رہا تھا جیسے اُسکے جسم سے روح ہی غائب تھی۔ تمام عیش و عشرت کو بھوگتے ہوئے بھی اُداس اور تنہا محسوس کر رہا تھا۔ بستی کے لوگ تخیل کو بیمار سمجھتے۔ اکژ وہ دوسری بستی کے متعلق سوچتا جسکے بارے میں اُس نے کِتابوں میں سے پڑھ رکھا تھا۔ یہ بستی ایک زمانے میںاِس کی بستی کا ہی حصہ تھی۔ ایک دن ایک ایسا واقع ہو ا کہ دونوں بستیاں جُدا ہوگئیں۔ ہوا کچھُ یوں تھا:۔
بستی کے لوگوں نے ایک دوسرے کو زیر کرنے کیلئے بہت سارا بارود دھرتی کے اندر اور باہر ذخیرہ کر لیا۔ آپسی رنج و ملال کی چِنگاری ایسی بھڑ کی کہ سارا بارود پھٹ گیا۔ زمین کے اند ر سے لاوا پھوٹ پڑا اور آگ کا دریا سابہنے لگا۔ یہ آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ اونچا بھی ہوتا گیا۔ کئی دِن یہ سلسلہ جاری رہا۔ جب لاوا ٹھنڈا ہو گیا تو چٹانوں کا روپ دھار لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دونوں بستیوں کے بیچ میں ایک پہاڑ اُبھر آیا۔ اِس پہاڑ نے نہ صرف بستیوں کو ایک دوسرے جُدا کردیا بلکہ بلندی کے بہ سبب اِس کو عبور کرنا بھی بہت دشوار بن گیا۔ لوگ ایک دوسرے سے ایسے بچھڑے کہ پھرنا مِل سکے۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ یادیں بھی دُھندلی پڑ گئیں۔ آخر دونوں بستیوں میں لوگ زندگی کو رواں دواں رکھنے کیلئے کمر بستہ ہوگئے۔
شمال کی جانب جوبستی تھی وہ دوسری بستی سے ہی نہیں ساری دُنیا سے کٹ کر رہ گئی، لیکن اپنی روایات سے جڑی رہی۔ جنوب کی بستی نہ صرف دُنیا سے جڑی رہی بلکہ دُنیا کے بازار کا حصہ بھی بن گئی۔ اِس بستی کو ’لوہ بستی‘ اور شمال کی طرف واقع بستی کو ’کچی بستی‘ کے ناموں سے منسوب کیا گیا تھا۔ ہم یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ ایک پر قدرت کا عمل دخل رہا اور دوسری بستی قدرت سے لوہا لینے لگی۔
لوہ بستی کے لوگ بازار سے ایسے جڑُے کہ روایتی اقدار ہی بھول گئے۔ اُن کی ہر چیز بازار کی ہوگئی۔ رسل و رسائل اور الیکڑانک میڈیا کے وسائل ایسے ایجاد ہوئے کہ ساری دُنیا ایک گائوں سالگنے لگی۔ اگر جملہ وسائل اِس بستی کی صحت مند رویات کو قائم رکھتے اور بڑھاوا دیتے تو بات کچھُ اور ہو تی۔ ایک دوسرے کیلئے زندہ رہنا، ہمدردی، میل جول، پیار محبت، عدل واِنصاف، قوتِ برداشت اور عدمِ تشدت کا بول بالا ہوتا۔اِس کے برعکس اِن ایجاد ات سے کچھُ ایسی شعاعیں نکلیں کہ بستی کے لوگوں کے دِماغ ہی چاٹ کھائے، بازار سے ایسے جر ثومے پھیلے جو شریا نوں میں سرایت کر گئے۔ لہو سفید ہو گیا۔ تاریخ و تہذیب بھول گئی۔ سرِوں پہ نا دِکھنے والے سینگ نگل آئے۔ خود کو ہی خُدا سمجھنے لگے۔ لیکن اُنکی انکھوں میں وہ بصیرت ہی نہ رہی جو پہلے تھی، جب وہ خود کفیل نہ تھے۔ ایک دوسرے کی ضرورت سدا باقی رہتی۔ میل جول اور رشتے ناطے توڑے بھی ناٹوٹتے۔ لیکن موجودہ صورتِ حال یہ تھی کہ مطلب کے بنا کوئی کِسی سے بات بھی نہ کرتا۔ آدمی اتنا تنہا ہو گیا کہ وہ خود سے بھی ڈرنے لگا۔ گھر آنگن کی فلک بوس دیواریں اور دیو ہیکل گیٹ، جن کو ہاتھی۔
بھی نہ توڈ سکیں پہریداروں کی مانندِ استادہ ہوگئے۔ گھر میں بوڑھے ماں باپ بوڑھے ہوتے یاکوئی چھوٹی عمر میں ہی ناتوان ہو جاتا تو اُسے مشین کا بیکار پُر زا سمجھا جاتا۔ اُسکے ساتھ جانوروں کا سا سلوک رواں رکھا جاتا۔ بوڑھوں کو بستی کے ایک سرے پہ بنائے ’’گھر‘‘ میں چھوڈ دیا جاتا جیسے کہ دُنیا کے باقی حصوں میں رواج تھا۔
دُنیا کے بازار میں ضروریاتِ زندگی ہی نہیں، عیش و عشرت کا ہر سامان دستیاب ہوگیا۔ بس اِس بستی میں آدمی کے لئے زندگی کا ایک ہی مقصد رہا کہ وہ بازار کی ہر شے کا مالک بن جائے۔ اِس کو حاصل کرنے کیلئے چاہے کچھ بھی کرنا پڑے۔ کسی کا گلہ گھونٹنا یا جیب کاٹنی پڑے یا پھر دھوکہ دینا یا نقب لگانا ہی سہی۔
یہ سب ہوتے ہوئے بھی لوگ اندر سے ناخوش تھے، درد و کرب کو محسوس کرتے تھے لیکن کارن سے بے خبر تھے ’بے ہوش‘ تھے
تخیل کا ضمیر یا شعور بستی کے لوگوں کے ضمیر یا شعور سے جُدا تو نہیں تھا لیکن وہ اِس دردوکرب کے پیچھے کوئی کِسی کمی محسوس کر رہا تھا اور اِس کمی کی بِنا پر اپنے آپ کو ادھورا یا نامکمل سمجھتا تھا۔اِس کمی کی تلافی کیلئے تخیل کایقین بازار پر قائم تھا۔ یہ شریک حیات کے طور کسی عورت کیساتھ رشتہ بھی اُستوار نہ کر سکا کیونکہ بازار کی چکا چوند نے انکو جسم سے آگے بڑھنے نہ دیا۔ اب ’’شادی بیاہ‘‘ کا مُقدس روایتی اِدارہ بہت پیچھے رہ چُکا تھا۔ تخیل کا عورت سے ہر رشتہ، جو بازار طے کرتا، جسم کی تشنگی کی بھینٹ چڑھ جاتا۔
رہ رہ کے تخیل کے من میں کچی بستی کا خیال آتا تو وہ وہاں جا کر مکمل ہونے اور اپنی تشنگی کو سدا کیلئے بُجھانے کی اُمید یں وابستہ کر لیتا۔ ایک دِن اُس سے رہا نہ گیا، سفر کیلئے سامان باندھا اور کچی بستی کی طرف نکل پڑا۔ کئی دِنوں کے کٹھن سفر کے بعد وہ کچی بستی میں پہنچ گیا۔
کچی بستی کیا تھی؟ ایک جنت کا ٹکڑا۔ ہر جگہ قدرت کی رحمت برس رہی تھی۔ ساری دھرتی زندگی سے دھڑک رہی تھی۔ لوہ بستی کے برعکس یہاں ہرے بھرے میدان، برف پوش پہاڑ، جنگل، آبشاریں، ’’قل قل‘‘ کرتی ہوئی ندیاں،دریا، جھیلیں، فصلوں سے بھرے ہوئے کھیت کھلیان، پھل پھول، خوبصورت اور خوشبودار باغات وغیرہ ہر صُبح حسین، ہر شام حسین تخیل دھرتی کے روپ کو دیکھتے ہی رہ گیا۔ اُس کو محسوس ہو ا جیسے اُسکے اندر سے منجمد لوہا پگھِل پگِھل کر بہہ رہا ہو۔ وہ ہلکا ہلکا سا محسوس کرنے لگا تھا۔ درد و تکان بھی جاتی رہی۔ ٹھنڈے پانیوں نے پائوں کے چھالوں کو دھوڈالا۔ وہ ایک سایہ دار پیڑ سے ٹیک لگا کر بیٹھا تھا۔ ہو ا کے میٹھے میٹھے جھونکے تخیل کو سہلانے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
تخیل بہت سارے خوبصورت پرننگ دھڑنگ بچوں نے گھیر لیا۔ بچے اُس پر کھِل کھِلا کر ہنس رہے تھے۔ وہ بچوں کو چھونا چاہتا لیکن بچے بھاگ کھڑے ہوجاتے۔ دوری بنا کر رکھتے۔ اُس کے بدن سے اُٹھنے والی بھبک سے ناک مُنہ ڈھک لیتے۔وہ دوڑتے ہوئے گرِ جاتا تو بچے تالیاں بجا بجا کر ہنستے۔ ایک جواں سال لڑکی مویشی چراتے ہوئے یہ سب دیکھ رہی تھی۔ وہ دوڑتی ہوئی وہاں آئی۔ بچوں کو کھدیڑا اور اپنے خوبصورت جواں ہاتھوں سے گرِے ہوئے تخیل کو اُٹھایا۔ اِسی اثنا میں تخیل جاگ جاتا ہے۔ آنکھیں کھول کر دیکھتا ہے تو ایک اپسرا سی اُس کے سامنے کھڑی تھی۔ اُسکو اپنی بصیرت پہ شک سا ہوا۔ آنکھوں کوملا اور پھر غور سے دیکھا۔ کوئی فرق نہیں تھا۔
’’حقیقت! یہ سینگوں والا جن ہے! چھونا نہیں، مار دے گا!‘‘ بچے دور سے چلا چلا کر کہہ رہے تھے۔ لڑکی نے پہلے ہی تخیل کو چھو کر دیکھ لیا تھا۔ اِس کے جسم سے عجیب سی حرارت نِکلی تھی جو لڑکی کے بدن سے گذر گئی تھی۔ پھر اُس کے بدن کی بو باس سے لڑکی نے ناک مُنہ بھی نہ سکیٹرا تھا۔ اِس لڑکی پہ بچوں کے چلانے کااثر بھی نہیں ہوا۔ اُس نے اب تخیل کو غور سے دیکھا لیکن بچوں کو دکھائی دینے والے سینگ لڑکی کو دکھائی نہیں دیئے۔ اِس نے سوچا بچے یوں ہی بولتے رہتے ہیں۔ اِن کی الگ ہی خیالی دُنیا ہوتی ہے۔ کبھی کبھی وہ جھاڑی کو بھی ریچھ سمجھنے لگتے ہیں۔ چھڑی کو گھوڑا بنا کر دوڑاتے ہیں۔ پھر بھی جو بو تخیل سے آرہی تھی وہ کچی بستی کے باشندوں سے الگ سی بو تھی۔ جیسے لو ہار کی بٹھی پہ سڑ رہے لوہے کی ہو۔ اُسکی آنکھیں شعلہ زن تھیں لیکن لڑکی کو تخیل پھر بھی شعلہ خُو لگ رہا تھا۔ جیسے ناقدروں کے ہاتھوں اُس کا یہ حشر ہوا تھا یا کُچھ اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تخیل بھی لڑکی کے نظارے لوٹتا رہا۔ اُسکو لگ رہاتھا کہ اُسکے سپنے سا کار ہو رہے ہیں۔ اُسکی آنکھوں اور چہرے کی عبارت کو پڑھنے کی کوشش کرتارہا۔
’’خُدایا! یہ حقیقت ہے یا خود فریبی ؟‘‘
تخیل اندر ہی اندر سوچ میں ڈوبا رہا۔ دیکھنے کو تو دونوں اطراف سے ایک پُر سکون سی خاموشی تنی ہوئی تھی لیکن اندر ایک تلاطم سا بر پا تھا۔
’’حقیقت! بستی میں داخل ہوتے ہی تو نے میرا ِستقبال کیا، میں اِسے قدرت کا کرِ شمہ کہوں یا ایک خوبصورت اِتفاق ؟‘‘
تخیل اب گویا ہوا۔ حقیقت نے بھی سر اُٹھایا، دیکھا لیکن مُنہ سے کچُھ نہ بولی۔ اپنا نام سُن کر سوچنے لگی کہ تخیل کو یہ نام کیسے پتا چل گیا؟ پھر یاد آیا بچے ’نام‘ پُکار رہے تھے۔
’’حقیقت ! میر ی بات کا جواب دو ؟ ‘‘
’’ آپ جو بھی سمجھیں لیکن میرا تو یہ معمول ہے۔ کِسی گرِے ہوئے کو اُٹھانا اِس بستی کے باشندوں کی روایت ہے۔ اِس بستی کی بیٹی ہونے کے ناطے یہ روایت میرے خون میں بھی شامل ہے‘‘۔ حقیقت پہلے ہچکچائی پھر بولی۔ اُسکا دوپٹہ ہوا کے جھونکے سے لہراتا تو وہ جواں اور خوبصورت ہاتھوں سے پکڑ لیتی۔ نرم و نازک ریشمی بالوں کو ڈھک لیتی۔ لجاتی شرماتی کچی کوڑیوں جیسے دانتوں سے ہونٹ چباتی۔
’’مجھے لگتا ہے کہ میں جس مقصد کیلئے یہاں آیا ہوں وہ مقصد اِسی مقام پہ پورا ہو جائے گا!‘‘
حقیقت نے سوالیہ نظروں سے تخیل کی طرف دیکھا۔ جیسے پوچھ رہی تھی: ’’آپ کا کیا مقصد ہے ‘‘؟
تخیل سمجھ گیا۔ بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہنے لگا:
’’زلیخا ! تو مجھے مل گئی اور اب لگتا ہے کہ میری زِندگی مکمل ہوجائے گی۔ جو مجھے دُنیا کے بازار نے نہیں دیا وہ اِس۔۔۔۔۔۔‘‘ کہتے کہتے رُک گیا۔ حقیقت غور سے سُن رہی تھی۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہیں تھی۔ پھر بھی بہت سمجھ دار تھی۔ یہ سوجھ بوجھ اُسکو اپنے مُعاصِر معاشرے سے ہی مِلی تھی۔ وہ تخیل کی ہر بات کو اچھی طرح سے سمجھ رہی تھی اور وہ بھی جوان کہی رہ جاتی۔ لیکن تخیل کے مس نے اُسکے تن بدن میں ایسی کیفیت طاری کر دی تھی کہ وہ مُحتاط سی ہوگئی تھی۔ وہ ہر گزِ تخیل کے جذبات کو مجروح نہیں کرنا چاہتی تھی۔ پھر بھی کسِی انجان بستی کا باشندہ تو تھا جس کا اتا پتا جان لینا بھی ضروری تھا۔ پوچھنے پر تخیل گویا ہوا:
’’ناچیز تخیل کے نام سے لوہ بستی میں جانا جاتا ہے۔ کبھی ہماری بستی بھی تمہاری بستی کا ہی حصہ تھی لیکن ہماری کر توتوں سے تمہاری کچی بستی سے جُدا ہوگئی۔ جو لوگ بچ گئے اُن کا رنگ ڈھنگ ہی بدل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بستی کے ہم عصر لوگوں کی حالت مجھ سے بھی بُری ہے ،اُنکا احساس مر گیا ہے۔ جب کھبی بھی زندہ ہوگا تو وہ اِس بستی کی طرف رُخ ضرور کریں گے۔ سُکھ چین کی زِندگی کیلئے اِنسانی اقدار و اقانیم کو ڈھونڈیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘
’’تخیل ! یہی نام بتایا نا آپ نے ؟ اب میں اسی نام سے پُکاروں گی۔ آپ نے مجھے’زلیخاـ‘ کہانا؟ میں کوئی زلیخا نہیں۔ بستی کی ادنیٰ سی لڑکی ہوں۔ بستی کی لڑکیاں مجھ سے بڑھ کر خوبصورت ہیں۔ جسم کی خوبصورتی ہماری بستی کے لوگوں کیلئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ اصل خوبصورتی تو اندر کی سیرت ہی مانی جاتی ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
آج تک کِسی کچی بستی کے جواں لڑکے نے میری طرف توجہ نہیں دی۔ میں بھی اپنے آپ کو ادھوری ہی سمجھتی ہوں۔ شاید اسی لئے کچھ پل کیلئے جذباتی ہوگئی اور ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب یہ بھی سمجھتی ہوں کہ ایک ادھورا مرد ایک ادھوری عورت کو کیسے مکمل بنا سکتا ہے۔ میری جلدبازی بھی میرے ادھورے پن کا نتیجہ ہے!
’’حقیقت میں اندھا نہیں۔۔۔۔۔ جو کچھ میں نے تم میں پایا حوّا میں بھی اُسکافُقدان رہا ہوگا۔۔۔۔۔۔‘‘
’’ بس ! مجھے گناہ گار مت بنائو۔۔۔۔۔۔۔ میں برباد ہو جائوں گی۔۔۔۔ شاید میں کچی بستی کی روایات سے باغی ہوگئی ہوں؟۔۔۔۔۔ ابھی تو میں نے زندگی کے رموز جاننے ہیں ۔۔۔۔ جو کچھ کچی بستی کے ننگ دھڑنگ بچوں نے دیکھا میں تو دیکھنے میں بہت دیر تک قاصر رہی اور اب ۔۔۔۔۔۔ ‘‘
حقیقت پوری بات کہنے میں جھجک گئی۔ اُس نے پیچھے مڑکر دیکھا، بچے کھیلنے میں مصروف تھے لیکن اُن کا دھیان ابھی اِن سے ہٹا نہیں تھا۔ وہ اِس بات کیلئے بھی فکر مند تھی کہ بستی سے بچوں کے ماں باپ اِن کو ڈھونڈنے آجائیں گے۔ شام گہری ہونے لگی تھی۔
’’اب میں آپکے بنا نہیں رہ سکتا۔۔۔۔۔ مر جائوں گا جل بنِ مچھلی کی طرح‘‘ تخیل گڑِ گڑِ انے لگا۔
’’ہر قیمت ادا کروں گا اگر تو ’ہاں‘ کہہ دے ‘‘
حقیقت کے تیور میلے ہوگئے۔ بے جھجک کہنے لگی:
’’ہماری بستی بازار نہیں ہے۔۔۔۔۔ آپکے تن من میں جو رچا بسا ہے وہ جسم تک تو پہنچ سکتا ہے مگر روح تک نہیں۔ آپکے جسم کے اندر کم و بیش جو مادی جر ثومے سرایت کر چُکے ہیں وہ ہماری بستی کیلئے بھی خطرہ بن سکتے ہیں۔ آپکے سر کے نہ دِکھائی دینے والے سینگ ہی اِس بیماری کی علامت ہیں۔ ان کے اثر سے آدمی حد درجہ خود غرض، مکار، عیاش، مغرور اور ناستک بن جاتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
تخیل نے اپنے ہاتھ کو سر کے اوپر سے گھومایا پر کچھ محسوس نہیں کیا۔
’’یہ سینگ آپ دیکھ سکتے ہیں نہ محسوس کر سکتے ہیں‘‘
’’اگر تو میرا ساتھ دے گی تو ہم لوہ بستی میں لوٹ جائیں؟ ‘‘
حقیقت نے سُنا اور مُسکرائی اور پھر سوچ میں ڈوب گئی۔ یہ ممکن نہیں۔ آپکے لئے بھی۔۔۔۔۔ مجھے اپنی بستی عزیز ہے۔ یہ آدمیوں کی نہیں انسانوں کی بستی ہے ۔ یہاں پہچان جسموں کی نہیں روحوں کی ہے‘‘۔
’’مجھے دیکھنے کے بعد جو کچھ میں نے آپکی آنکھوں میں دیکھا تھا کیا وہ جھوٹ ہے؟‘‘
تخیل نے تِلمِلا کر پوچھا۔
’’نہیں۔ میری آنکھوں میں محبت تھی، ترس بھی۔۔۔۔۔ میں بدلی نہیں۔۔۔۔ پہلی بار کسی مرد نے مجھے چاہا۔ عورت ہونے کے ناطے اچھا لگا لیکن اِس محبت کو پاک بتا کر روح تک پہنچانا بھی میرا فرض ہے۔ اپنی بستی کے بُزرگ لوگوں سے پوچھنا ہے۔ روایت کے مطابق ہماری بستی کے لوگ دُشمن کے سُدھار کیلئے بھی کوشاں رہتے ہیں، اگر دُشمن چاہے تو۔ اگر کوئی دِل سے توبہ کرے تو غلطی بھی معاف کی جاتی ہے۔ لیکن اگر کوئی مکار چالاکی دکھائے تو اُسے سزا بھی دیتے ہیں‘‘ ۔
’’اگر تو میری شریک حیات بن جائے تو میں تھوک کر چاٹنے کو بھی تیار ہوں۔ کہو تو جوتی میں پانی پیوں!‘‘
حقیقت نے تخیل کے چہرے پر ایک بھر ور نظر ڈالی اور سوچ کر کہا: ’’ نہ تھوک کر چاٹنے کی ضرورت ہے اور نہ ہی جوتی میں پانی پینے کی۔ آپ نے کچی بستی کے اصولوں کو اختیار کرنا ہو گا۔ آپکو گائوں کے سینی ٹوریم میں داخل کیا جائے گا۔ وہاں آس پاس کے ماحول اور فطرت کے ساتھ میل جھول کے بہ سبب آپکے اندر کے جرثوموں کا اثر ختم ہو جائے گا۔ جراح نادِ کھنے والے سر کے سینگوں کو بھی نکال دے گا۔‘‘ تخیل نے حقیقت کی آنکھوں میں جھانکا۔ حقیقت تھوڑی دیر رُکی اور پھر چھوڑی ہوئی بات کا سِراپکڑ لیا۔
’’میں حقیقت ہوں! دغا فریب نہیں جانتی۔۔۔۔‘‘
حقیقت کو اپنی بستی کی سر زمین ہی نہیں اِس کے مسالک پر بھی کا مِل یقین تھا۔ اِس کی روایات صدیوں سے اتنی صحت مند تھیں کہ لوگ ہر حالت میں خوشحال رہتے تھے۔ اجتماعی سوچ ہی کچی بستی کی رہنمائی کرتی۔ ’’ زمانہ با تو نہ سازد تو با زمانہ بر ساز‘‘۔ ضرب ُالمثل بُزرگ باشندوں کی زبان پہ ہوتی۔ سب کے دُکھ سُکھ سانجھے تھے۔ سرکار عوام کی بہبودی کیلئے خادموں کی طرح کام کرتی۔ نا کوئی گھوٹالہ نہ جانبداری۔عورتیں رات میں بھی بے خوف گھومتی پھرتیں۔ بھلے ہی بوڑھے کے مُنہ میں دانت نہ پیٹ میں آنت ہو لیکن گھر سماج میں اُسکی قدر و قیمت بر قرار رہتی۔ گائوں محلے کا کوئی معاملہ ہوتا تو بُزرگ لوگ ہی چوپال میں مِل بیٹھ کر حل کر لیتے۔ بستی کے باشندوں کی شریانوں میں پیار محبت اور انسانیت کا لال لہو ہی بہہ رہا تھا۔ کچی بستی کے حصے کا آکاش کا ٹکڑاآئینہ تھا، اِس کا ہر غیر انسانی عمل یا جُرم اِس پر ظاہر ہو جاتا۔ لوگ دیکھ کر فِکر مند ہو جاتے۔ ہاتھ اُٹھااُٹھا کر دُعا ئیں مانگتے۔ بستی کی یہ انسانی فطرت اور شعور دیکھ کر قدرت بھی رحمت بر ساتی۔۔۔۔۔۔
دیکھتے ہی دیکھتے شام اُتر آئی۔ سورج نے سنہری شعاعوں کو سمیٹنا شروع کر دیا۔ پرندوں کے جھُنڈ گاتے ہوئے اپنے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ رہے تھے۔ حقیقت کو بھی گھر لوٹنے کی فِکر لگ گئی۔ بچے بھی اب دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ ’’بھوت، بھوت ‘‘ چلاتے ہوئے وہ بستی کی اور دوڈ گئے تھے۔ حقیقت شش و پنچ میں پڑگئی کہ تخیل کو چھوڑ کر کیسے جائے ؟ اپنی بستی کا باشندہ ہوتا تو کوئی بات تھی لیکن اِس ’’غریب الوطن‘‘ کو کہاں لے جائے؟ وہ کُہنیاں جما کر اپنے دونوں ہاتھوں میں چہرہ لیئے سوچ رہی تھی۔
’’تخیل مجھے جانا ہے! میری بیوہ ماں گھر میں اکیلی ہے۔۔۔۔۔‘‘
حقیقت آخر کہنے پر مجبور ہوگئی۔ تخیل تھاکہ دیوانگی کے نشے میں اپنی سُدھ بُدھ ہی کھو بیٹھا تھا۔
’’ میں کہاں جائوں؟ ‘‘
’’ رہنے کو آپ کسی بھی جگہ رہ سکتے ہیں ۔ اِس بستی کا زرہ زرہ انسان دوست ہے، ٹھور ٹھکانا ہے۔ جب تک سینی ٹوریم میں بھیجنے کا بندو بست ہو گا آپ بستی کی کسی سر ائے میں بھی ٹھہر سکتے ہیں۔ کھانے پینے کا بندوبست بھی ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔ یہ ہم دونوں کے مفاد میں ہے۔۔۔۔ مکمل ہونے تک دونوں کو انتظار کرنا ہو گا۔ ۔۔۔۔۔۔ ابھی قبل از وقت ہے۔۔۔۔۔۔۔‘‘
دونوں اطراف خاموشی تن گئی۔ کچھ دیر رُکنے کے بعد جھاڑی کی اوٹ میں بیٹھی حقیقت کپڑے جھاڑ کر اُٹھ کھڑی ہوئی۔ تخیل بھی ہاتھ جھاڑتے ہوئے کھڑا ہو گیا۔ حقیقت نے ایک بار پھر محبت اور ہمدردی کی نِگاہوں سے دیکھا اور خراماں خراماں چلنے لگی۔
تخیل تیز تیز سانسیں لیتا ہوا دیکھتا رہا۔ پھر اچانک دوڑ ااور لپک کر حقیقت کا کاندھا پکڑ لیا۔ شعلوں بھری لہر کاندھے سے ہوتے ہوئے ہاتھوں اور اُنگلیوں کے پوروں تک دوڑ گئی۔
’’حقیقت ! میں اکیلے آپ کو جانے نہیں دوں گا! تیرے بِنا میں خاک ہو جائوں گا۔۔۔۔ میرے خون میں تیزی سے دوڑتے انگارے میرے وجود کو راکھ بنا کر رکھ دیں گے۔
حقیقت خوف کے مارے کاپننے لگی۔ اِس بار تخیل کی آنکھیں شعلے اُگل رہی تھیں اور حقیقت کے یا قوتی ہونٹوں کے خم زندگی کی بھیک مانگ رہے تھے۔ دیکھتے ہی دیکھتے حقیقت کے سارے بدن میں ہلچل مچ گئی۔ وہ سب کچھ بھول گئی۔ اب تپش سے پگھلتا ہوا جسم تخیل کی بانہوں میں ڈھیر تھا۔ وہ بالکل خالی الذہن تھی اور اُس کے حلق سے گھگھیاتی ہوئی غیر انسانی چیخیں نکل رہی تھیں۔
پھر کچھ دیر سر گوشی ہوتی رہی اور دونوں بستی کی جانب جانے کیلئے ٹیلا چڑھنے لگے، جہاں سے اُتر کر حقیقت آتی تھی۔ اِسی اثنا میں تیرتا ہو ا بادل کاایک ٹکڑا آیا اور کچی بستی کے اوپر آسمان میں چودھویں کے چاند کو ڈھک دیا۔
سویرا ہوا۔ کچی بستی کے بُزرگ چوپال میں جمع ہوئے۔ بہت ہی سوچ سمجھ اور بحث مباثے کے بعد طے پایا کہ تخیل کو تب تک سینی ٹوریم نماجیل میں رکھا جائے جب تک اُسکے سارے نقُص ٹھیک نہ ہوجائیں۔ حقیقت کو بھی اپنی ماں اور بستی کے لوگوں سے دوُر تنہا رہنے کی سزا دی گئی۔ سوچا گیا تھا کہ جب دونوں بستی میں رہنے کے قابل بن جائیں گے تو جوڑے کو مِل کر از دواجی زندگی گذارنے کی اجازت دی جائے گی۔
وقت گذرتا گیا۔ کچی بستی کے بُزرگوں نے ایک دِن تخیل کو سینی ٹوریم نماجیل سے رِہا کرنے کا فیصلہ کیا۔ حقیقت کو بھی ڈھونڈ نکالا گیا۔ لیکن حقیقت اب اکیلی نہیں تھی۔ اُسکے ساتھ اُسکا بچہ بھی تھا جو دونوں بستیوں کے بچوں سے جُدا تھا۔ اُسکے سینگ تھے لیکن آنکھیں غائب تھیں۔
موبائل نمبر؛9858433957