حال ہی میں حکومت نے کشمیری ، ڈوگری اور بودھی زبانوں کو اور پھر اس کے بعد پنجابی زبان کو تعلیمی نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا، جس پر جہاں خوشیوں کا اظہار کیاجارہاہے وہیں ایک مخصوص طبقہ نے اس پر سیاست گر ی بھی شروع کردی ہے ۔جموں کے ڈوگرہ طبقہ کے مفادات کاتحفظ کرنے کےنام پر کچھ مفاد پرست عناصر نے یہ کہہ کر ایجی ٹیشن شرو ع کرنے کا انتباہ دیاہے کہ وہ کشمیری زبان کو جموں کے تعلیمی اداروں میں رائج نہیں ہونے دیںگے کیونکہ بقول ان کے یہ اقدام ڈوگری زبان کو کمزور کرنے کے برابر ہوگاجو ڈوگرہ آبادی کے ساتھ ناانصافی ہوگی ۔اس لسانی تعصب پر اپنی سیاست کی ہنڈ یاپکانے والے لوگ اس بات کو دانستہ طو پر فراموش کر رہے ہیں کہ صوبہ جموں تین جغرافیائی خطوں جموں، چناب اور پیر پنچال پر مشتمل ہے، جہاں ڈوگری، کشمیری، پنجابی ، پہاڑی اور گوجری زبانیں بولی جاتی ہیں۔یہ ایک حقیقت ہے کہ جموں، کٹھوعہ، سانبہ ،ادھمپور اور ریاسی کے کچھ علاقوں میں ڈوگری بولی جاتی ہے۔جہاں تک کشمیری زبان کا تعلق ہے تو وہ خطہ چناب کے اکثر و بیشتر علاقوں کے علاوہ ریاسی کے مہورو دیگر علاقوں اور پیر پنچال کے بدھل ،تھنہ منڈی اور متعدد علاقوںکے ساتھ ساتھ پونچھ کے منڈی ، حویلی اور سرنکوٹ کے بعض علاقوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ خطہ پیر پنچال میں رابطے کی زبان کے طور پر میں کشمیری زبان کا چلن کم ہواہے لیکن خطہ چناب کی اکثریتی آبادی کی مادری زبان ہونے کے ساتھ ساتھ کلیدی رابطہ زبان بھی یہی ہے۔ان خطوں میں کشمیری زبان کی ترویج و اشاعت کاکام بھی ہورہاہے اور یہاںکئی معروف و نامور ادیبوں کا تعلق اسی زبان سے ہے،جنہوں نے قومی سطح کے ادبی انعامات و اعزازات حاصل کئے ہیں۔ جموں خاص میں بھی کشمیری بولنے اور سمجھنے والے لوگ کئی علاقوں میں آباد ہیں لیکن اس کے باوجود نہ جانےکیوں ڈوگری زبان پر سیاست کرنے والے کشمیری زبان کی مخالفت پر اتر آئے ہیں ۔جب حکومت نے ڈوگری زبان کو بھی نصاب میں شامل کرلیا ہے تو پھر کشمیری زبان کس طرح سے ڈوگری بولنے والوں پر مسلط ہوسکتی ہے؟ایسے حالات میں تو یہ زبان اختیاری زبان ہوگی اور جو ڈوگری نہ پڑھنا چاہتاہو وہ پنجابی یا کشمیری زبان میںسے کسی ایک کاانتخاب کرسکتاہے ۔خطہ پیر پنچال کی بیش تر آبادی پہاڑی اور گوجری زبان بولنے والوں پر مشتمل ہے اور اس کی مانگ ہے کہ پہاڑی اور گوجری زبانوں کو بھی تعلیمی نصاب میں شامل کرکے ان کے بچوں کو بھی یہ اختیار دیاجائے کہ وہ اپنی مادری زبانوں میں تعلیم حاصل کرسکیں لیکن لسانی تعصب کی پھنکاریں مارنے والے یہ عناصر ان زباں کے ساتھ نا انصافی کی بات نہیں کر رہے ہیں۔ بجائے اسکے کشمیری زبان کےخلاف محاز کھول کر نامعلوم ایجنڈا کی تکمیل میں مصروف عمل ہیں۔ اس حقیقت کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے کہ خطہ چناب میں کشمیری زبان بولنے والوں کی غالب اکثریت ہے، لیکن انکی طرف سے ڈوگری زبان کو مسلط کرنے کا کوئی الزام نہیں لگایا جارہا ہے۔ اگر چہ حکومت ایسا کرتی ہے تو کیا اس طرح ان سےاپنی مادری زبان میں حصول تعلیم کا اختیار نہیں چھینا جا رہا ہے۔ حکومتی فیصلے کے مطابق حصول تعلیم کےلئے کسی لسانی اکائی پر کسی مخصوص زبان میں تعلیم کی حصول کی کسی پر کوئی قدغن نہیں ہے اور اس طرح ڈوگری زبان بولنے والوں سے بھی یہ اختیار نہیں چھینا گیا ہے کہ وہ ڈوگری زبان چھوڑ کر کشمیری زبان پڑھیں بلکہ حکومت نے جموں میں کشمیری زبان کو بھی اختیار ی زبان کی حیثیت اس لئے دی ہے تاکہ خطہ چناب اور خطہ پیرپنچال میں مقیم کشمیری آبادی اسی زبان میں تعلیم حاصل کرسکے۔زبانوں کی نصاب میں شمولیت پر سیاست کرنے کی کوشش نہایت ہی خطرناک ہے کیونکہ اس طرح یہ عناصر علاقائی قومیتوں کے نام پر فضاء کو تعصب سے زہر سے متعفن کرنا چاہتے ہیں ،جو ایک انتہائی نقصان دہ عمل ہوگا۔ حکومت کو اس معاملے کا سنجیدہ نوٹس لے کر ایسے عناصر کی نہ صرف حوصلہ شکنی کرنی چاہئے بلکہ انکی سرکوبی میں کوئی دقیقہ فرد گزاشت نہیں کرنا چاہئے۔ صوبہ جموں روایتی طور پر لسانی تعصبات سے پاک و صاف رہا ہے اور عوام نے ہمیشہ ایسی کوششوں کو قابل اعتناء نہیں سمجھا ہے ،جو اس وقت بھی دیکھنے کو مل رہا ہے، یہ ایک حوصلہ افزاء اشارہ ہے۔