جی ہاں بالکل صحیح سمجھا آپ نے، یہ سب لفظ کی ہی کرشمہ سازیاں ہوتی ہیں…………………
لیلیٰؔ ،شیریںؔ،ہیرؔ ،سونیؔ،سسیؔ ،صاحباںؔ،مجنوںؔ ،فرہادؔ، رانجھاؔ، مہیوالؔ، پنوںؔ، مرزاؔ………یہ سارے کے سارے گرچہ اسماء ہیں جو کبھی جیتے جاگتے انسانوں کے نام تھے مگر بنیادی طور پر یہ سارے الفاظ ہی ہیں،البتہ عجیب بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی کا نام جب زبان پر آجاتا ہے یا دوسرے ذریعے سے کانوں میںپڑتا تو اُس نام یا لفظ سے متعلق عشق و محبت اور اُنس و الفت کی ایک پوری حزنیہ داستان ذہن میں گھوم جاتی ہے ۔آنکھوں کے سامنے رقصاں ہوجاتی ہے ۔کیا اور کیسے لوگ رہے ہوں گے وہ؟بے درد زمانے نے اُن کی دل لگی اور پیار کا مذاق اُڑایا ،انہیں نہ ملنے دیا اور نہ جینے کی اجازت دی۔کبھی کبھی تصور میں اُن عشاق کے ہیولیٰ ناچتے دکھائی دیتے ہیں اور کبھی تصور کرنے والا یا اُس بارے میں سوچنے والا بھی اپنے آپ کو تپتے ریگستان یا راویؔ کے کنارے پاتا ہے ۔کبھی کانوں میں لیلیٰ کی دہائی سُنائی دیتی ہے ع
کوئی پتھر سے نہ مارے میرے دیوانے کو
اور کبھی شریںؔ کی آہ و زاری متاثر کرتی ہے ؎
میرے لئے سحر بھی آئی ہے رات بن کر
نکلا میرا جنازہ میری بارات بن کر
اچھا ہوا جو تم نے دیکھا نہ یہ نظارا
حافظ خدا تمہارا حافظ خدا تمہارا
کبھی ہیرؔ کو زبردستی ڈولی میں بٹھانے کا واقعہ چار آنسو رُلاتا ہے ؎
ڈولی چڑھ کے ہیرؔ نے بین کئے
مجھے لے چلے بابل لے چلے وے
مجھے روک لے بابل روک لے تو
ڈولی بیری کہا لے چلے وے
اُن پیار کرنے والے دیوانوں کی بے بسی دیکھ کر انسان ہی نہیں سارا ماحول بھی اشک بار ہوجاتا ہے ۔اس بات کو ہمارے شاعر دل نواز پرویز مانوسؔ صاحب نے بھی محسوس کیا ہے ۔کہتے ہیں ؎
جونہی گرد آب میں ہاتھوں سے گھڑا چھوٹ گیا
بے بسی دیکھ کے سونی ؔ کی ….کنارے روُئے
انجام کار دُکھی دل کے ساتھ ہم اپنی توجہ دوسری جانب مبذول کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا وقتی طور اُن تلخ اور تُرش یادوں بلکہ داستانوں کو ذہن سے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انسان کی حالت دگرگوں بنانے کے پیچھے لفظ کی ہی کارفرمائی ہوتی ہے ۔ جب کہ لفظ ہی خوشی و انبساط اور فرحت و تازگی کا کارن بھی بنتا ہے ۔اب اسی لفظ کو ایک دوسرے انداز سے دیکھنے کے لئے پروفیسر غضنفر صاحب کی طرف آتے ہیں ۔اُن کا فرمانا ہے کہ لفظ انسانی نفسیات کا نباض ،جذبات و احساسات کا غماز ، تہذیب و ثقافت کا مرقع ساز ،تاریخ و تمدن کا ہمراز اور ملک و معاشرت کی آواز ہے ۔
لفظ کی دنیا معلوماتی بھی ہے اور محسوساتی بھی۔۔۔۔۔۔صوتی اور محاکاتی بھی۔۔۔۔حقیقی اور تصوراتی بھی۔۔۔۔۔معروضی اور تاثراتی بھی۔۔۔۔بیانہ اور استعاراتی بھی۔۔۔وضاحتی اور اشاراتی بھی۔۔۔۔لفط کی دنیا میں کوائف ظاہر بھی ہیں اور کیفیات باطن بھی۔۔۔معنی رواجی بھی ہیں اور معنی اختراعی بھی۔
لفظ میں احساس دَمکتا ہے ،جذبہ جوش مارتا ہے ،مشاہدہ بولتا ہے ،تجربہ رقص کرتا ہے ،تخیل اُڑان بھرتا ہے ۔لفظ سے ہی کائنات کا کرب پھوٹتا ہے ،انسانیت کا درد مترشح ہوجاتا ہے اور اخوت و محبت کا رنگ جھلکتا ہے ۔لفظ ایک ایک ایسا چہرہ ہے جس کی پلکوں پر شعری چراغ جلتے ہیں ،آنکھوں سے فسانے جھانکتے ہیں،لبوں سے ادب کے اسرار کھلتے ہیں۔منہ سے صوت و صدا کے ترانے نکلتے ہیں ۔گویا کہ لفظ میں زندگی کا ست،کائنات کا سار ،تجربات کا نچوڑ ،مشاہدات کا عطر اور تخلیقیت کا جوہرمضمر ہے ۔
حقیقت یہ ہے کہ دنیائے لفظ ایک عجیب و غریب دنیا ہے ۔ اس میں نہاں خانے چمکتے ہیں،اندھیرے روشنی دیتے ہیں ،زخم مہکتے ہیں ،پھول سسکتے ہیں،درد لذت دیتا ہے اور دوا دُکھ پہنچاتی ہے ۔ناہموار یاں ہنساتی ہیں اور ہمواریاں رُلاتی ہیں اور اسی طرح زبان و ادب کے درسی نصاب میں کلیدی کردار لفظ ہی ادا کرتے ہیں۔نثر میں الفاظ جملے بناتے ہیں ۔ جملے پیرا گراف اور پیراگراف ایک دوسرے کے ساتھ مل کر مضمون مکمل کرتے ہیں ۔لفظ ہی کہانی گڑھتے ہیں،انشایئے ،سفر نامے ،خاکے ،سوانح حیات ،خود نوشت ،وغیرہ مرتب کرتے ہیں ۔لفظ ہی فکشن کا محرک بن کر ناول،ناولٹ،افسانے ،کالم اور مضامین کی تخلیق کرتے ہیں۔نظم میںلفظ مصرعے خلق کرتے ہیں ،مصرعوں کی مدد سے شعر بنتے ہیں ۔یہ نثری اور شعری تخلیقات مختلف درجوں کے نصاب میں شامل کئے جاتے ہیں ۔ان نثری اور شعری متون کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ لفظ جو اصل میں کلیدی کردار نبھاتا ہے، اُس کی ماہیئت کو اچھی طرح سے سمجھا جائے۔اُس کی قوت اور قدر وقیمت کو بہتر طریقے سے جان لیا جائے ۔اس لفظ کی ہمہ پہلو تصویر کے کئی رنگ و روپ،خطوط و زاؤیے اور چہرے ہیں،جس پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے ۔فی الحال اتنے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے اس شعر کے ساتھ اختتام کرتے ہیں ؎
حسین لمحوں کو اپنی گرفت میں لے کر
لطیف کرب کے سانچے میں ڈھل گئے الفاظ
کرامت علی کرامتؔ
ختم شد
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995