کیا ہے………………..؟
لفظ صرف لفظ ہی نہیں بلکہ حقیقت میں ایک دنیا،ایک بحر ِ بیکراںہے۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کی طاقت اور اس کے محیط کو سمجھا جائے اور اس کی گہرائی و گیرائی کو پہچانا جائے۔لفظ محض حروف کا مجموعہ،آوازوں کی بندش ،نکتوں اور حرکات کا مرکب ،مفہوم کی پہچان یا مطلب کی ادائیگی ہی نہیں بلکہ لفظ دنیا ئے رنگ و بو ،حیات و کائینات کا ترجمان ،زندگی کا جسم و جاں ،سماج کی تفسیر اور ترسیل و ابلاغ کی روح بھی ہے ۔
خالق کائنات ،مالک ِارض و سماوات یعنی رب ایک لفظ ہے ۔ اللہ،بھگوان ،گاڈ بھی انفرادی حیثیت میں الفاظ ہی ہیں۔یہ لفظ زبان پر آتے ہی انسانی ذہن مرعوب ہوجاتا ہے ۔زندگی کا نقشہ اور بعدالموت کی بیان شدہ اور سنے ہوئے تمام مراحل ذہن کے پردے پر اُبھرتے ہیں۔خالق کی سب سے بڑی فخریہ تخلیق اشرف المخلوقات یعنی انسان بھی ایک لفظ ہی ہے اور انسان کا تعارف مرد اور عورت کے طور پر دو الگ الگ الفاظ میں ہے ۔دونوں کے ساتھ دو دنیائیں وابستہ ہیں ۔مرد کا نام زبان پر آنے سے ذہن کے نگار خانے میں اُس کی مختلف اشکال اور تصویریں اُبھر تی ہیں اور اسی طرح عورت کا لفظ کانوں میں پڑتے ہی اس کی مختلف صورتوں اور حیثیتوں کے علاوہ تصور کے دریچے سے معطر اور نورانی پیرہن میں ملبوس جو ہیولیٰ باہر آتا ہے وہ ماں کی شکل میں ڈھل جاتا ہے ۔جی ہاں!دنیا کی بیشتر زبانوں کا ایک مشترک لفظ اور وہ میٹھا ،متبرک اور پیارا لفظ جس کا دنیا بھر میں اور کوئی ثانی لفظ نہیں ہے ۔ یعنی ماں…………..جی ہاںماں. …………..اور ماں بھی ایک لفظ ہی ہے ۔اُس کے قدموں کے نیچے جو ایک انسانی زندگی کی متاع ِ حیات یعنی جنت وہ بھی ایک لفظ ہی ہے ۔
کاروبار حیات کو آگے بڑھانے کے لئے ،نسل انسانی نمو ،بقاء اور بالیدگی کے لئے مرد اور عورت کا اتصال یا اختلاط نکاح ،شادی اور لگن وغیرہ سے ہوتا ہے جو سب اپنی اپنی جگہ پر منفرد الفاظ ہیں،اور شومئی قسمت سے یہ بیل منڈھے نہ چڑھنے کی صورت میں علحیدگی ،نفاق ،طلاق یا خُلع ہوجائے تو وہ بھی لفظ ہیں جب کہ ہر ایک لفظ میں اپنی اپنی بارودی طاقت بدرجہ ٔ اتم موجود ہے ۔
خالق کائنات نے انسان کو پیدا تو کیا مگر اُس کو دنیا وی زندگی گزارنے کے لئے ،اُس کی ہدایت اور رہبری بھی تو ضروری تھی ۔نہیں تو انسانی اور حیوانی زندگی میں تخصیص کیسے ہوسکتی تھی ۔اس متبرک کام کے لئے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف قوموں پر مختلف اوقات میں پیغمبر اور ہادی مبعوث کئے۔غور کریں تو معلوم ہوگا کہ وہ پیغمبر اور ہادی بھی لفظ ہی ہیں اور آخری پیغمبرؐ جن کو رشد و ہدایت والے آسمانی صحیفے یعنی قرآن نے کافتہ ًالناس ٹھہرایا یعنی تمام اولاد آدم کو فلاح اور کامیابی کا راستہ دکھانے والا اُن کا اسم مبارک بھی ایک لفظ ہی ہے مگر یہ لفظ جب زبان پر آتا ہے تو دنیا بھر کے مزامیر اور روحانی جلترنگ بج اٹھتے ہیں۔جہالت،بے راہ روی کے دور ابتلا میں دنیائے انسانیت میںعظیم ترین کایا پلٹ اور انقلاب لانے والا معتبر اولوالعزم انسان ،تاریخ رقم کرنے والے محسن انسانیت اور اتنی معروف عظیم شخصیت فقط ایک لفظ بولنے سے یہ ساری تصویریں یہ سارے معرکتہ لآرا کام اور کارنامے ہویدا ہوجاتے ہیں۔
اُسی عظیم ترین ،معتبر و اعلیٰ شخصیت کو جب رب کائنات کی عمل داری میں قانون ِقدرت کی علم برداری تفویض ہوئی تو اُس کا بھی فقظ ایک لفظ سے ہی آسمانی اعلان ہوا یعنی اقراء۔انسان نے جب اُس لفظ اقراء پر لبیک کہا تو مجموعی صورت میں ہدایات بھی ایک مکمل ضابطہ حیات یعنی قرآن کی صورت میں دی گئی جو بذات خود ایک لفظ ہی ہے ۔اس لفظ کے زبان پر آتے ہی ذہن و دل کے قرطاس پر کیا کچھ اُجاگر ہوجاتا ہے،وہ اظہر من الشمس ہے ۔
اب آیئے ذرا دل کی دنیا کو ٹٹولتے ہیں……..
دل خالی خولی ایک لفظ ہے مگر اس کے ساتھ ایک دنیا وابستہ ہے جو انوکھی بھی ہے اور نرالی بھی ۔کامرانی کی صورت میں اس کے نب پر رنگین شمعیں جھلملاتی ہیں اور بہاریں کھلکھلاتی ہیں جبکہ ناکامی کی صورت میں آہ و فغاں کے غلغلے مچتے ہیں اور آنکھوں سے دھارائیں بہتی ہیں ۔ اس دل کے ہاتھوں کتنے ملک برباد ہوچکے ہیں اور کئی آباد بھی ہوچکے ہیں ۔ کتنی بستیاں اُجڑی ہیں اور کتنی بس بھی گئی ہیں ۔کتنے گھر افراد کی موجودگی کے باوجود بکھر گئے ہیں مگر کبھی کبھی صرف ایک فرد کے آنے سے کتنے گھروں کی کایا ہی پلٹ گئی ۔یہی دل جب مثبت انداز میں چلتا ہے تو کتنے محاورے زبان کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں جیسے دل آب آب ہونا ،دل آجانا ، دل کا ارمان نکلنا ،دل پر نقش ہونا ،دل چھین لینا ،دل کا غبار دُھل جانا ،دل کا کنول کھلنا ،دل بحال ہونا وغیرہ ۔اور یہی دل جب منفی ڈگر پر چلنے لگے ، اُسے ٹھیس لگے یا رنج سے دوچار ہوجائے تو حزن و ملال بھرے ،پرسوز محاورے اُس صورت میں بھی ٹپک پڑتے ہیں جیسے دل آزردہ ہونا ،دل پر سانپ لوٹنا ،دل پر گھونسہ پڑنا ،دل ٹکڑے ٹکڑے ہوجانا ،دل سے دھواں نکلنا ،دل کھٹک جانا ،دل جل کر کباب ہونا ،دل خون ہوکے رہ جانا وغیرہ ۔ اندازہ کیجئے کہ لفظ فقط ایک ہے مگر ہماری لغات کے پنے سیاہ کردیتا ہے ۔ سالک ؔ لکھنوی کے اس شعر کے ساتھ اس کالم کا اختتام کرتا ہوںکہ ؎
خوش ہوگئے الفاظ کبھی رہ گئے الفاظ
جو دل پہ گزرتی ہے وہی ہوگئے الفاظ
اس حوالے سے کچھ اور بھی باتیں ہیں ،انشاء اللہ اگلے ہفتے پھر ملاقات ہوگی۔
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995