رواں ماہ پاکستان کے شہر لاہور میں پیش آنے والے انسانیت سوز واقعہ نے ایک مرتبہ پھرعیاں کر دیا کہ آج اکیسویں صدی میں بھی صنف نازک کی عفت و عصمت محفوظ نہیں ہے۔ذرائع ابلاغ کی رپورٹ کے مطابق ایک خاتون لاہور سے گوجرنوالہ کی جانب اپنے دو بچوں کے ہمراہ گاڑی میں سفر کر رہی تھی کہ موٹر وے پر اس کی گاڑی کا پٹرول ختم ہوا۔ اسی اثنا ء میں چند درندہ صفت انسان موٹروے پر وارد ہوئے اور بندوق کی نوک پر خاتون اور اس کے بچوں کو پاس ہی ایک جگہ لے جاکر وہاں خاتون کی اپنے دو بچوں کے سامنے اجتماعی عصمت دری کی۔اس واقعہ نے پوری دُنیا بالعموم اور پاکستان کو بالخصوص جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہر سو احتجاجی صدائیں بلند ہوئی۔ابھی اس واقعے کو زیادہ دن نہ ہوئے تھے کہ بھارتی ریاست تامل ناڑو میں ایک اسی سالہ بزرگ خاتون کی عصمت کو تارتار کیا گیا۔ ان دو واقعات کو چھوڑ کر بھی آئے روز اس طرح کی دل دہلانے والی خبروں سے اخبارات کے صفحات سیاہ ہوتے ہیں ۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کب تک صنف نازک کی عزت و آبرو کو اسی طرح پامال کیا جائیگا اور دنیا خاموش تماشائی بنی بیٹھے گی؟ آخر کیوں دنیا ایسے موثر اقدامات اٹھانے سے قاصر ہے جن کی بدولت اس ناسور کا خاتمہ ہوتا؟ مزید برآں دنیا کی حکومتوں کو یک طرف چھوڑ کر کیا عوام الناس اپنے فرائض بحسن خوبی انجام دے رہے ہیں؟ آخر کیوں عصمت ریزوں کا گراف دن بہ دن بڑھتا جارہا ہے؟
عصمت و عفت ایک عورت کا سب سے قیمتی سرمایہ ہے اور اس کی حفاظت کرنا اس کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کبھار ایک عورت اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے خود سوزی تو کرلیتی ہے لیکن اپنی عزت کو تار تار ہونے سے بچاتی ہے۔ اپنی عصمت و عفت کے تحفظ کے لیے پردے کا اہتمام کرتی ہے تو کبھی اپنے دفاع کے لیے مارشل آرٹ میں مہارت حاصل کرتی ہے۔ ان سب چیزوں کے باوجود بھی صنف نازک محفوظ نہیں ہے اور آئے روز اس طرح کے واقعات میں اضافہ درج ہو رہا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہیں اور سب سے بڑی وجہ ہے انٹرنیٹ پر موجود فحش مواد۔ آج سے ایک دو دہائی قبل فحاشی کا یہ سامان تقریباً نایاب تھا لیکن تیز رفتار انٹرنیٹ کی بدولت آج اس طرح کا مواد انگلیوں کے چند اشاروں سے آپ کے سامنے آجاتا ہے۔فحاشی کے اس بڑھتے رجحان کے زیر اثر بعض اوقات ایک انسان میں حیوانیت جنم لیتی ہے اور وہ اس طرح کا دل دہلا دنے اور انسانیت کو شرمسار کرنے والا قدم اٹھا لیتا ہے۔ شادی میں تاخیر بھی اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ آج ہمارا سماج خاص کر مسلم معاشرہ اس طرح کی رسومات میں دھنس چکا ہے کہ ایک انسان کی جوانی بھی غروب ہو جائے تب بھی وہ شادی کرنے سے قاصر ہوتا ہے۔اللہ رب العزت نے نکاح کو انتہائی آسان بنایا ہے لیکن موجودہ دور کے مسلمانوں نے اسے اس قدر مشکل بنا دیا کہ ایک نوجوان کو نکاح کے برعکس حرا م کاری ہی آسان نظر آتی ہے اور کبھی کبھار اُس میں اس قدر درندگی اور وحشانیت جاگتی ہے کہ وہ کسی کی آبرو کو ہی نیلام کردیتا ہے۔
موجودہ دور کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ بڑھتی ہوئی عصمت ریزیوںکے لیے صنف نازک کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے۔ بعض لوگ یہ کہہ کر انہیں تنقید کا نشانہ بناتے ہیں کہ ان کا باریک اور تنگ و چست لباس، ان کا چال چلن وغیرہ ہی ایک مرد کو ایسے گھناؤنے اقدامات اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں۔ راقم الحروف ذاتی طور پر پردے کے خلاف نہیں ہے۔پردہ ایک عورت کا گہنا ہے اور اس کا مکمل اہتمام کیا جانا چاہیے ۔لیکن ایسے حضرات سے پوچھا جا سکتا ہے اگر یہی وجوہات بڑھتی عصمت دریوں کے لیے ذمہ دار ہے تو پھر دو، تین سالہ بچی سے لے کر اسی سالہ بزرگ خاتون تک کا ریپ کیوں ہوتا ہے؟کیا تین ،چار سالہ بچی کا ریپ باریک اور چست لباس کی وجہ سے ہوتا ہے؟ یکیا وہ بھی بے حیا ہوتی ہے؟ ایسے حضرات اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ جہاں پردہ کرنا اور حیا کا اہتمام کرنا ایک عورت کا فریضہ ہے وہی دوسری جانب مرد بھی ان چیزوں سے بری الذمہ نہیں ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے دل سوز واقعات کو روکنے کے لیے کیا اقدامات اٹھائے جانے چاہیے؟ اس ضمن میں سب سے بڑی ذمہ داری ہمارے حکمران ٹولے پر عائد ہوتی ہے کہ وہ اس فعل بد کی روک تھام کے لیے ایسے قوانین مرتب کرکے انہیں عملائے کہ عصمت دری کرنا تو کُجا،اُس کے متعلق سوچنے سے قبل بھی ایک انسان کی روح کانپ جائے۔ساتھ ہی ساتھ اسکولوں میں ایسا نصاب متعارف کیاجائے جس میں بچوں کو جنسی تعلیم فراہم کرنے کے ساتھ ایک اچھا انسان بننے کا درس بھی شامل ہو۔ عوام الناس پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ متاثرہ خواتین پر کیچڑ اچھالنے کے بجائے ایسے درندوں کا قلع قمع کریںجو اس طرح کے سنگین جرائم سرانجام دیتے ہیں۔ اگرصنف نازک کے ساتھ کوئی زور زبردستی کرتا ہے تو خاندان کی عزت خاک میں ملنے کے ڈر کو پالنے کے بجائے اُسے صدائے احتجاج بلند کرکے ایسے افراد کو بے نقاب کرنا چاہیے۔اسی صورت میں اس گھنائونے فعل کا قلع قمع ہوسکتا ہے۔
رابطہ۔برپورہ پلوامہ کشمیر