کشمیر میں بنت ِ حوا گزشتہ ۲۷؍ سال سے نامساعد حالات کے بھنور میں مسلسل دُکھ ، تکلیف اور مصیبت کے ہچکولے کھا ئے جارہی ہے ۔ اس غم ناک داستان میں اب ا س کی گیسو تراشی یا چوٹیاں کاٹنے کا ایک شیطانی سلسلہ جوڑ دیا گیا ہے۔ اس قبیح عمل کے مقاصد جو بھی ہوں، انسانیت اس پر انگشت بدنداں ہے ۔ کشمیر کی عفت مآب بیٹیاں طویل عرصہ سے جس ظلم و ستم اور خوف وخطر کی شکار چلی آرہی ہیں، شاید ہی دنیا میںکہیں اور عورت ذات اتنی لاچار اور بے بس اوربے آسرا ہو ۔ ہمیں یاد ہے کہ ہنگامہ خیز نوے کے دوران’’ بھوت اور ڈائن‘‘ کے خوف نے گائوں گائوں ، شہر شہر اور بستی بستی کی نیندیں اُچاٹ دیں اور ابھی تک یہ ایک سربستہ راز ہے کہ رات کے اندھیرے میں کون سے لوگ بھوت اور ڈائن کا بھیس بناکر گھروں میں گھس جاتے ، اہل خانہ کو ہراسان کر تے، بچوں اور بچیوں کوڈراتے اور بسااوقات انہیں اپنے آ ہنی ناخنوں سے نوچ بھی ڈالتے۔ تب مائیں رات بھر جاگ جاگ کر اپنی گودیوں کو بیٹوں اور بیٹیوں کی پناہ گاہیں بنائے رکھتے ۔دہشت کا یہ عالم تقریباً ایک سال تک جاری رہا ۔اسی کے ساتھ ساتھ کشمیری ماؤں کو دس ہزار بچوں کی زیرحراست گمشدگیاں ، لخت ہائے جگر کی اَن گنت ہلاکتیں ، کثیر تعداد میں عزیزوں کی اسیریاںا ور دیگر مصائب کا بار اپنے سینوں میں سہلانا پڑا۔ غرض کشمیر کی دُکھ بھری داستان میں کشمیری خواتین کا کر دار آنسوؤں اور آہوں سے لکھاہوا ہے ۔ اتنا سارا ظلم و جور کیا کم پڑا تھا کہ اب گیسو تراشی یا چوٹیاں کاٹنے کے رواں طوفان میں گھری کشمیر کی ہر چھوٹی بچی سے لے کر بزرگ خاتون تک کا جینا اس وقت دوبھر ہورہاہے ۔ گیسو تراشی ایک مجرمانہ فعل اوربزدلانہ عمل ہے،یہ کبھی بہادری نہیںکہلا سکتی اورکو ئی بھی شریف معاشرہ اس پاگل پن کو قبول نہیں کر سکتا ۔اس میں رتی بھر شک نہیں کہ یہ انسانیت کے دشمنوں کی ایک سوچی سمجھی سازش ہے جس کی شرم ناک شروعات جنوبی دہلی کے ایک دور دراز گائوں کنگن ہری سے ہوئی جب وہاں کی رہائشی وملا دیوی نامی ایک ۵۶؍ سالہ خاتون کی زُلفیں پُر اسرا طور تراش لی گئیں۔وملا دیوی کے ساتھ ساتھ اسی رات گائوں کی دیگر چار لڑکیاں اس گھناؤنے کھیل کا شکار بنائی گئیں ۔’’ہندوستان ٹائمز‘‘ کی ایک خبر کے مطابق ابھی تک نوے سے زیادہ عورتوں کے جُوڑے کاٹے گئے۔دہلی کے فوراً بعد یو پی میں بھی اسی نوع کے ایک دو سانحات پیش آئے ۔ریاست میں اس شیطانی کا رستانی کی پہلی دستک سانبہ جموں میں سنی گئی جہاں کسی گائوں میں۲۲ ؍اگست کو اشوک کمار کی ۱۰؍ سالہ بیٹی کا جُوڑا رسوئی میں تراشا گیا ، اس معصوم بچی کو پہلے بے ہوش کر دیا گیا تھا۔اس کے بعد اسی علاقے میں ایسے بہت سارے واقعات رونما ہوئے جن سے ضلع بھر میں دہشت پھیل گئی۔اس کے فوراً بعد خوف و دہشت کایہ سلسلہ یکم ستمبر کو راجوری پہنچا جہاں برلب سڑک ایک عورت کو بے ہوشی کی حالت میں پا یا گیااور اس کے لٹ کاٹے گئے تھے۔جموں کے بعد درندگی کی اس لہر نے وادی کشمیر کا رُخ کیاجہاں جنوبی کشمیر کوکرناگ کے ایک دور دراز گائوںمیں نائرہ جان نامی ایک نویں جماعت کی طالبہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی تھی کہ اس کو بے ہوش کر کے گیسو تراشے گئے ۔ اس کے بعد کولگام ، اسلام آباد، شوپیاں ، پلوامہ، بڈگام ، سری نگر وغیرہ میں ایسے بہت سارے واقعات کی دھوم مچ جانے سے پورا کشمیر خوف زدہ اور پریشان ہے ۔ ابھی تک کسی کو ثقہ طور معلوم نہیں کہ ماں بہن بیٹی کے ساتھ یہ نیا ظلم کیاہے ۔ پولیس نے ان ننگ انسانیت شیطانی واقعات میں ملوث مجرموں کی نشاندہی کر نے والے کو۳؍ لاکھ روپے نقد انعام کا اعلان کیا ہے مگر اب تک کسی کو نہ پکڑا گیا۔کشمیر کی صنف ِنازک کے خلاف وحشت ودہشت کا یہ طوفان کب تک ہمارے قلب وجگر کو تڑپائے گا ، اس بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا مگر انسانیت کو شرمندہ کر نے والا یہ روح فرسا قصہ فی الحال کشمیر کی خواتین کو نیم جان کر رہاہے ، وہ بھی اُس وقت جب یہاں ایک خاتون وزیراعلیٰ اقتدار پر براجمان ہے ۔