سرینگر// وادی کے صنعت کاروں،تاجروں اور سیول سوسائٹی ارکان نے 4جولائی کو دوکانوں اور تجارتی اداروں پر سیاہ جھنڈے لہرانے کی اپیل کی ہے ۔کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی نے دھمکی دی کہ اگر اشیاء و خدمات ٹیکس کا متبادل نہیں لایا گیا تو2008کی طرح کمیٹی پروگرام بھی دے سکتی ہے۔ کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی نے اعلان کیا کہ اس روز تمام تاجر اور سیول سوسائٹی کے ممبران اسمبلی کمپلیکس کے باہر پرامن دھرنا دینگے ۔سرینگر میں پریس کانفرنس کے دوران مختلف تجارتی اتحاد اور سیول سوسائٹی نمائندوں اور لیڈروں نے شرکت کی،جس کے دوران سابق جج جسٹس(ر) حسنین مسعودی نے کہا کہ لوگوں اور تاجروں کو اس قانون کے اطلاق پر جو تحفظات ہیں،انہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔انہوں نے مشورہ دیا کہ حکومت دیگر ملکوں میں جی ایس ٹی ماڈل پر تحقیق کریں اور جو ماڈل انہیں بہتر لگے،اس کو عوامی سطح پر سامنے لائے،تاکہ ماہرین اس کو دیکھ پرکھ لیں،جس کے بعد اسی جی ایس ٹی ماڈل کو اپنا یا جاسکتا ہے،تاکہ ریاست کی مالی اور سیاسی خصوصیت اثر انداز نہ ہو۔انہوں نے واضح کیا کہ کشمیر کی سیول سوسائٹی ٹیکس اصلاحات کے خلاف نہیں ہے،تاہم انہوں نے سوالیہ انداز میں کہا کہ پارلیمنٹ جب کوئی قانون منظور کرتا ہے تو اس میں’’ماسوائے جموں کشمیر‘‘ کیوں تحریر کیا جاتا ہے۔جسٹس(ر) حسنین نے کہا کہ اس جملے میں سارا جواب ہے،کیونکہ جموں کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہے۔انہوں نے کہا کہ101ویں ترمیم کو موجودہ حیثیت میں لاگو کرنے کے بعد ریاستی سرکار کے پاس حصول ٹیکس،اس کی قیمت طے کرنے اور اشیاء کو مستثنیٰ رکھنے کے حوالے سے اختیارات نہیں رہیں گے۔کشمیر چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق صدر ڈاکٹر مبین شاہ نے سخت لہجہ استعمال کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام،تاجر اور صنعت کار کسی بھی طور وہ جی ایس ٹی قبول نہیں کرینگے،جس سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کو زک پہنچے کا احتمال ہو۔انہوں نے کہا کہ حکومت یا اپوزیشن پر ہی نہیں بلکہ تمام سیاسی جماعتوں کے ممبران اسمبلی پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جی ایس ٹی پر کس طرح کا رخ اور موقف اختیار کرتا ہے۔ ڈاکٹر مبین شاہ نے کہا کہ کشمیر کارڈی نیشن کمیٹی کو2008کی طرز پر تشکیل دیا گیا ہے اور اگر سرکار نے اپنا من مانا رویہ تبدیل نہیں کیا تو اسی طر ح کا پروگرام دینا بھی خارج از امکان نہیں۔ اس موقعہ پر سراج احمد سراج نے کہا کہ جہاں بھارت کی دیگر ریاستوں میں اس قانون کی تیاری میں17برس لگ گئے وہیںکشمیر میں اس کو لاگو کرنے کیلئے جلد بازی کیوں کی جا رہی ہے۔انہوں نے حکومت کو بھی خبردار کیا کہ موجودہ ہیت میں اس قانون کو لاگو کرنے سے سنگین نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ یہ1954یا1965نہیں ہے کہ لوگ اور تاجر کسی بھی ترمیم کو ٹھنڈے پیٹ سے برداشت کر سکتے ہیں۔ فیڈریشن آف چیمبر انڈسٹریز کشمیر کے سابق صدر شکیل قلندر،فیڈریشن آف چیمبر انڈسٹریز کشمیر کے ایک دھڑے کے صدر محمد اشرف میر، کشمیر اکنامک الائنس کے چیئرمین محمد یوسف چاپری،کشمیر ٹریڈرس اینڈ مینو فیکچرس فیڈریشن کے صدر محمد یاسین خان،سابق صدر محمد صادق بقال،کشمیر اکنامک فورم کے چیئرمین شوکت احمد چودھری،اکنامک الائنس کے دھڑے کے نائب صدر اقبال ترمبو کے علاوہ معروف ہوٹل مالکان،سیول سوسائٹی ممبران بھی موجود تھے۔