جموںوکشمیر یونین ٹریٹری کی انتظامیہ نے ایک خبر کی تردید کرتے ہوئے بالآخر اس حقیقت کا اعتراف کرہی لیا کہ نئی صنعتی بستیوں کے قیام اور پرانی بستیوں کو توسیع دینے کیلئے حکومت محکمہ کو48ہزار کنال اراضی منتقل کررہی ہے، جس میں سے اب تک 24ہزار کنال اراضی منتقل کی جاچکی ہے ۔منتقل شدہ 24ہزار کنال میں سے16ہزار جموں جبکہ8ہزار کنال کشمیر صوبہ سے ہیں۔محکمہ کا کہنا ہے کہ نجی سیکٹر میں روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے صحت ،تعلیم ،صنعت اور دیگر شعبوں میںمقامی و غیر مقامی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جائے گی اور منصوبہ کے تحت حکومت کی کوشش رہے گی کہ زیادہ سے زیادہ صنعتی یونٹ قائم ہوں تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ معیشت کو فروغ دیاجاسکے ۔
بادی النظر میں حکومت کی یہ پالیسی بہت اچھی لگ رہی ہے اور یہی تاثر ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ ارباب بست و کشاد کو جموںوکشمیر کے بے روزگار نوجوانوں کی فکر دامن گیر ہے اور حکمران جموںوکشمیر میں صنعتوں کا جال بچھانا چاہتے ہیںتاہم ماضی کے تجربات کچھ اچھے نہیں ہیں۔نئی صنعتی بستیوں کا قیام احسن ہے اور یقینی طو ر پر زیادہ سے زیادہ صنعتی بستیاں قائم ہونی چاہئیں تاکہ آمدن کے ذرائع بڑھ سکیں تاہم اس حقیقت سے بھی انکار کی گنجائش نہیں کہ ہماری پہلے سے موجود صنعتی بستیوں کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے اور ان صنعتی بستیوں میں کام کررہے بیشتر صنعتکار سرکار کی عدم توجہی کا رونا رو رہے ہیں۔جموں شہر اور ا سکے مضافات میں قائم چند صنعتی بستیوں کو چھوڑ کر پورے جموںوکشمیر میں صنعتی بستیوںکا حال بے حال ہے ۔کہنے کو تو لوگوںنے صنعتیں قائم کرنے کے نام پر ان بستیوں میں زمینیں لے رکھی ہیں لیکن صنعتی بستیوںکی اندر کی کہانی انتہائی حوصلہ شکن ہے کیونکہ بیشتر کارخانے یا تو بند ہوچکے ہیں یا پھر خسارے پر چل رہے ہیں۔جموںوکشمیر کی صنعتی بستیوں کو سب سے پہلے بجلی کی غیر مناسب سپلائی کا مسئلہ درپیش ہے ۔بجلی سپلائی کا حا ل بے حال ہے اور جب بجلی متواتر نہ ہو تو صنعتوں کا چلنا محال ہی ہے ۔
دوسرا مسئلہ صنعتوںکے قیام کیلئے انتہائی تکلیف دہ عمل ہے ۔اب تک تو یہی روایت رہی ہے کہ مقامی صنعتکاروںکو درجنوں این او سیز کے نام پر ستایا جاتا تھا اور وہ تھک ہار کر ایسے منصوبے ہی ترک کردیتے تھے ۔سبسڈی کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے اور ابتدائی سرمایہ کی فراہمی میں بنک لیت و لعل سے کام لیتے تھے ۔اس پر طرہ یہ ہے کہ خام مال انتہائی مہنگا ہونے کے سبب بیشتر کارخانے ایام طفولیت میں ہی بند ہوجاتے تھے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ یہاں پرائیوٹ سیکٹر کبھی پنپ ہی نہیں پایا کیونکہ ماحول موافق نہیں تھا اور نہ ہی حکومتی سطح پر مقامی صنعت کاروںکی حوصلہ افزائی کی جارہی تھی ۔
اب شاید حالات بدل چکے ہیں اور جس بڑے پیمانے پر زمینیں لی جارہی ہیں اور 48ہزار کنال اراضی کا لینڈ بنک قائم کرنے کا منصوبہ ہے، جس کیلئے جموںاور کشمیر صوبوں کے صرف آٹھ اضلاع کو مخصوص رکھاگیا ہے تو بدیہی طور یہی لگ رہا ہے کہ حکومت اب بڑے پیمانے پر یہاں صنعتیں قائم کرنے کا منصوبہ بنا چکی ہے ۔ظاہر ہے کہ اب پشتینی باشندگی کی اڑچن بھی نہیں ہے تو آثار و قرائن یہی بتا رہے ہیں کہ بیشتر سرمایہ کاری غیر مقامی ہوگی ۔گوکہ اس طرح کے رجحان کی قانونی طور مخالفت بھی نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ ہمارا قانون اب ا سکی اجازت دیتا ہے تاہم اخلاقی طور سرکار کی ذمہ داری بنتی ہے کہ مقامی سرمایہ کاری کو ہی ترجیح دے کیونکہ بڑے کارپوریٹ گھرانوں سے مقابلہ آرائی کی ایسی دوڑ لگ جائے گی جس میں چھوٹے مقامی صنعتکار پچھڑ جائیں گے اور یوں مقامی صنعتوں کا جنازہ ہی نکل جائے گا۔دکھانے کو تو اُس صورت میں یہاں صنعتیں ہونگیں لیکن وہ مقامی لوگوںکی نہیں بلکہ غیر مقامیوںکی ہونگیں اور وہاں عملی عملداری غیر مقامی سرمایہ کاروںکی ہوگی جبکہ مقامی آبادی کو زیادہ سے زیادہ کلاس ڈی نوکریاں ہی مل سکتی ہیں۔
ایسی صورتحال قطعی اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی ہے اور اس سے شاید صنعتی بستیوں کے قیام کا بنیادی مقصد ہی فوت ہوگاکیونکہ پیسہ یہاں رُکے گا ہی نہیں اور جموںوکشمیر کو کوئی فائدہ نہیں ملے گا۔بلا شبہ صحت یا تعلیم کے شعبہ میں اگر معیاری ادارے قائم ہوں توعوام کا بھلا ہوسکتا ہے لیکن وقت نے ثابت کردیا ہے کہ نجی سیکٹر انتہائی بے رحم ہوتا ہے جو صرف غریب کا خون چوس کر اپنے محل بنانا جانتا ہے ۔تعمیر و ترقی کی چکاچوند میں اگر مقامی لوگوں کے چولہے ٹھنڈے پڑیں اور صنعتی بستیوں کی چکا چوند میں گرد و پیش تاریکی میں ڈوب جائے تو اُس کو ترقی نہیں کہاجاسکتا ہے ۔اس لئے وقت کا تقاضا ہے کہ صنعتی بستیوں کے قیام کے عمل میں مقامی سرمایہ کاری کو ہی پہلی ترجیح دی جائے تاکہ معیشت کا پہیہ مقامی طور ہی گھومتا رہے، جس سے مقامی معیشت کو سہارا ملے گا ورنہ معیشت کا جنازہ نکل جانا طے ہے۔