سرینگر// وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے مزاحمتی خیمے کو مذاکراتی عمل میں تعطل کیلئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم نے کوشش کی تھی کہ’’ بات چیت کیلئے دروازے نہ صحیح کھڑکیاں ہی کھول دی جائیں مگر انہوں نے دھتکارا‘‘،تاہم وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ بات چیت ہی واحد راستہ ہے۔ خصوصی اسمبلی سیشن کے پہلے روز ماتمی قرار داد پر بولتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ جموں کشمیر میں کچھ لوگوں نے بات چیت کی کوشش کو ناکام بنا دیا۔ انہوں نے نیشنل کانفرنس کا نام لئے بغیر کہا کہ1987میں انتخابات میں تاریخی دھاندلیاں ہوئیں،جس سے محمد یوسف شاہ صلاح الدین میں تبدیل ہوئے اور آج وہ پاکستان سے ہدایات جاری کر رہے ہیںاتنا ہی نہیں بلکہ محمد یاسین ملک بھی بندوق لیکر آئے۔ ماضی کا ذکرکرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ اسی اسمبلی میں جب میں نے1996کے بعد مزاحمتی لیڈر شپ سے مزاکرات کی وکالت کی تھی تو اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ ’’ انہیں جہلم میں غرقاب کیا جائے‘‘۔انہوں نے یک طرف جنگ بندی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ نیشنل کانفرنس کی طرف سے دی گئی یہ صلاح اگر چہ اچھی ہے تاہم جب انکے اقتدار میں مرکزی حکومت نے یک طرفہ جنگ بندی کا اعلان کیا تھا،تو اس وقت نیشنل کانفرنس کے وزیر اعلیٰ نے کہا کہ جیلوں میں جگہ نہیں،اب ان کو مار دیا جائے۔ محمد شفیع اوڑی کی طرف سے ریاستی دہشت گردی کو بند کرنے کے مشورہ کا ذکر کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے کہا’’ 1990کی دہائی میں جب کریک ڈائون ہوا کرتے تھے،تب آس پاس کے علاقوں کے لوگ بھاگ جاتے تھے،تاہم آج جھڑپوں کی جگہ12سالہ بچہ بھی سنگبازی کرتا ہے کہ انہیں کوئی خوف نہیں ہے،جو اس بات کی دلیل ہے کہ جموں کشمیر میں ریاستی دہشت گردی نہیں ‘‘۔ محبوبہ مفتی نے کہا ’’ کل جماعتی پارلیمانی وفد نے مزاحمتی جماعتوں کے دروازوں پر دستک دی،تاہم انہوں نے دروزاے بند کئے‘‘۔وزیر اعلیٰ نے کہا’’ سیتا رام یچوری اور شرد یاد نے جب ان سے ملنے کی کوشش کی،تو میں نے از خود بھی اس سلسلے میں مکتوب روانہ کیا،تاہم انہوں نے دروازے اور کھڑکیاں بند کیں۔ تاہم مذاکراتی عمل کو واحد راستہ قرار دیتے ہوئے محبوبہ نے کہا کہ وزیر اعظم ہند نریندر مودی نے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنے کیلئے پاکستان کا دورہ کیا۔تاہم اس کے بعد ہی پٹھانکوٹ کا واقعہ پیش آیا۔انہوں نے کہا کہ واجپائی دور میں کافی پیش رفت ہوئی تھی۔اس دوران جموں کشمیر میں’’جی ایس ٹی‘کے اطلاق سے متعلق اسمبلی میں بحث کا ذکر کرتے ہوئے محبوبہ مفتی نے کہا کہ1947سے براہ راست جموں کشمیر میں مرکزی قوانین کا اطلاق کیا گیا،تاہم موجودہ مخلوط سرکار نے کوشش کی کہ جی ایس ٹی پر بحث کی جائے اور سب کی رائے کوحاصل کرکے یہ اخذ کیا جائے کہ اس قانون کو لاگوکرنے کے فائدے کیا ہیں اور نقصانات کی بھر پائی کس طرح کی جاسکتی ہے۔