سرینگر // شہد کے لحاظ سے کسی زمانے میں خودکفیل کہلانے والی ریاست جموں وکشمیر اب اِس عظیم نعمت سے بھی محروم ہوتی دکھائی دے رہی ہے ۔اب نہ کہیں دور دور تک شہد کی مکھیاںنظر آتی ہیں اور نہ ہی بی کالونیاں اور وال کانیوں کا کہیں موثر موجود ہے ۔ایک سرکاری رپورٹ کے مطابق 1962تک وادی میں 50ہزار بی کالونیاں موجود تھیں اورایسا کوئی گھر نہیں تھا جس میں شہد پیدا نہ کیا جاتا ہو۔ کشمیر میں وال کالونیوں کی ایک قدیم روایت رہی ہے لیکن اب کشمیر میں بی کیپروں کی تعداد صرف963رہ گئی ہے جبکہ کل کالونیاں کی تعداد 5612اور وال کانیونی کی تعداد 1088ہے ۔ایک سرسری اندازے کے مطابق یہاں 770میٹرک ٹن شہد پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ ۔ریاست جموں وکشمیر شہد پیدا کرنے والی ملک کی سب سے اہم اور موثر جگہ ہے کیونکہ شہد پیدا کرنے کیلئے یہاں موسم اُس کے موافق ہے اور یہ نہ صرف سالانہ 9کروڑمالیت تک دیگر ریاستوں کو شہد فراہم کرسکتی ہے بلکہ ملک سے باہر کی ریاستوں کو بھی کروڑوں روپے میں شہد برآمد کر سکتی ہے۔ لیکن بدقسمتی کا مقام یہ ہے کہ ریاست میں شہد پیدا کرنے کی صلاحیت کو بروے کار نہیں لایا گیا ہے ۔اس حقیقت کے باوجود کہ یہاں شہد پیدا کرنے کیلئے زیادہ رقوم بھی خرچ نہیں کرنی پڑیں گی ۔اس وقت ریاست جموں وکشمیر میں 770میٹرک ٹن شہد پیدا کرنے کی صلاحیت موجود ہے جس کی مالیت 77کروڑ بنتی ہے ۔حالانکہ وادی سے جو شہد باہر کی ریاستوں کو بھیجا جاتا ہے اس کی مالیت 190کروڑ بنتی ہے۔ مقامی سطح پر 250میٹرک ٹن شہد پیدا کیا جاتا ہے ۔محکمہ ایگریکلچر کے مطابق اگر وادی میں شہد پیدا کرنے کی صلاحیت کو بڑھاوادیا جائے تو ساڑھے 8ارب روپے کی شہد برآمد کی جا سکتی ہے ۔وادی میں اس وقت صرف 25بی کالونیاں رجسٹر ہیں۔ اگر حکومتی سطح پر اس صنعت کو بڑھاوا دینے کی کوشش کی جاتی تو مختلف علاقوں میں ایسی 250بی کالونیاں معرض وجود میں آسکتی تھیں ۔ایک کالونی میں ایک سیزن میں قریب اڑھائی لاکھ روپے کمائے جا سکتے تھے ۔زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہد پیدا کرنے کی کالونیاں بنانے کیلئے معقول آب وہوا کی ضرورت ہوتی ہے جو وادی کشمیر میں پائی جاتی ہے ۔ماہرین کے مطابق اس کیلئے اراضی ڈھلانوں کے بیچ میں ہونی چاہئے جو وادی کے ہر حصہ میں موجود ہے ،پھولوں کے پودے ہونے چاہئیں جس کا کشمیر میں کوئی ثانی نہیں ہے ۔اس لحاظ سے شہد پیدا کرنے کیلئے وادی پورے بھارت میں سب سے موزون جگہ ہے ۔شیر کشمیر ایگریکلچر یونیورسٹی کی ایک سروے کے مطابق ایگریکلچر قومی کمیشن نے جو سفارشات مرتب کی ہیں اُن کے مطابق وادی میں شہد پیدا کرنے کیلئے 6لاکھ کالونیاں بنائی جا سکتی ہیں اور ایک بی کالونی سے 45میٹرک ٹن سالانہ شہد پیدا کیا جا سکتا ہے جس سے سالانہ7کروڑ کی آمدن ہو سکتی ہے ۔2015میں ایگریکلچر یونیورسٹی کی طرف سیجاری کئے گئے ایک رپورٹ کے مطابق 1962کی دہائی میں وادی میں 50ہزار بی کالونیاں موجود تھیں۔ رپورٹ کے مطابق 1962میں شہد کی مکھیوں کو ایک خطرناک بیماری لگ گئی جس کے نتیجے میں وہ مر گئیں اور اُس کے ساتھ ہی برسوں تک شہد پیدا کرنے کیلئے مکھیوں کی تعداد کم ہو گئی ۔