صفوں کو درست کرنے کے ایک تو یہ ہو سکتا ہے کہ انسان اجتماعی مفاد کے لیے نظریاتی اختلافات کے باوجود آپس میں مل جل کر رہیں اور اتحاد کی فضا کو قائم رکھیں۔دوسرے اور عام معنی اس کے یہ ہیں کہ جماعت کی نماز میں مل مل کر اور کندھے سے کندھا ملا کر اس طرح کھڑا ہوا جائے کہ درمیان میں خالی جگہ باقی نہ رہے۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اِس ظاہری معنی میں صفوں کی درستگی کے اہتمام کی تاکید بھی اصلاً اْس پہلے معنی میں صفوں کے درستگی کی خاطر کی گئی ہے۔پر افسوس اس میں کوتاہی اس قدر عام ہے کہ اللہ کی پناہ!
بعض لوگ ایسی بے توجہی و بے رغبتی کے ساتھ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں کہ انھیں نہ صفوں کے اتصال کا خیال ہوتا ہے اور ان کی درستگی کا۔ جب کہ صفوں کی درستگی نماز کی صحت میں داخل ہے۔ بعض حضرات اس طرف توجہ دلائے جانے کو عار محسوس کرتے ہیں تو بعض ائمہ بھی اس جانب ویسی توجہ نہیں دیتے، جیسی دینی چاہیے۔ اقامت سے قبل یا بعد رسمی سے چند جملے دوہرا دیے اور اللہ اکبر کہہ کر نماز شروع کر دی۔اْنھیں اس کی پروا ہ نہیں کہ پیچھے جو لوگ صفوں کو درست کرنے میں لگے ہوئے ہیں،وہ بھی اْن کے اس عمل کے بعد جلد از جلد نماز شروع کرنے کے فراق میں لگ جائیں گے۔ پھر عام دنوں میں تو روزانہ کے نمازی ہوتے ہیں، جو کسی حد تک اس مسئلے سے واقف ہوتے ہیں اور کسی درجے میں اس کا اہتمام کر بھی لیتے ہیں، لیکن جمعہ، عیدین اور رمضان کے دنوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی مسجد آتے ہیں، جنھیں اس بارے میں کچھ معلوم ہی نہیں ہوتا۔ رسول اللہؐنے قولی و فعلی طور پر صفوں کو درست کرنے کی بہت تاکید اور اس کی اہمیت ارشاد فرمائی ہے۔ مختصراً چند باتیں عرض کی جاتی ہیں۔
صفوں کی درستگی کی اہمیت
رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا۔ صفوں کو سیدھا کرنا نماز کو پورا کرنے میں شامل ہے۔(ترمذی) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:.حضرت نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا:صفوں کو درست رکھو، تمہارے دلوں میں اختلاف نہیں ہوگا، نیز فرمایا: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے پہلی صف یا پہلی صفوں والوں پر رحمت نازل کرتے ہیں۔ (دارمی)
صفوں کو درست کرنے کی فضیلت
حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،حضرت نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن کی طرف دیکھ کر اللہ تعالی ان سے خوش ہوتا ہے؛ (۱) وہ شخص جو رات کو تہجد کی نماز پڑھنے کے لیے کھڑا ہوتا ہے (۲) وہ لوگ جو نماز پڑھنے کے لیے اپنی صفوں کو درست کرتے ہیں (۳) وہ لوگ جو دشمنوں سے لڑنے کے لیے صف بندی کرتے ہیں۔(مشکوٰۃ)
رسول اللہؐ کی تاکید
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ ؐنے فرمایا: صفوں کو درست کرو، میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے (بھی دیکھتا) ہوں۔ (بخاری، مسلم)
حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت میں آیا ہے: ایک مرتبہ نماز قائم کی گئی تو رسول اللہ ؐنے اپنا چہرہ ہماری طرف کرکے فرمایا: تم لوگ اپنی صفوں کو درست کرلو اور مل کر کھڑے رہو، اس لیے کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں۔(بخاری) یہی حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں:حضرت نبی کریم ؐ نے فرمایا: اپنی صفوں کو درست کرلیا کرو کیوں کہ میں تمھیں اپنی پیٹھ کے پیچھے سے بھی دیکھتا ہوں اور ہم میں سے ہر شخص اپنا شانہ اپنے پاس والے کے شانے سے اور اپنا قدم اس کے قدم سے ملا دیتا تھا۔ (بخاری)
نیز بْشیر بن یسار روایت کرتے ہیں:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ جب مدینہ آئے تو ان سے کہا گیا کہ آپ نے ہم میں کون سی بات اس کے خلاف پائی جو آپ نے رسول اللہ ؐکے زمانے میں دیکھی تھیں۔ انھوں نے کہا کہ میں نے سوائے اس کے کوئی چیز خلاف نہیں پائی کہ تم صفیں درست نہیں کرتے ہو۔ (بخاری)
رسول اللہؐ کا معمول
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:رسول اللہ ؐجب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ایک لکڑی کو داہنے ہاتھ میں لے کر التفات کرتے ہوئے فرماتے: سیدھے ہوجائو اور صفوں کو برابر کرو! پھر (اس لکڑی کو) بائیں ہاتھ میں لیتے اور فرماتے: سیدھے ہوجائو اور صفوں کو درست کرو۔(ابودائود)
نعمان بن بشیر کے الفاظ یہ ہیں: رسول اللہ ؐہماری صفوں کو درست فرمایا کرتے تھے، ایک مرتبہ آپ نکلے تو آپ نے ایک شخص کو دیکھا، اس کا سینہ صف سے آگے بڑھا ہوا تھا، آپ ؐنے فرمایا: تم اپنی صفوں کو سیدھا کرو، ورنہ اللہ تعالیٰ تمھارے دلوں میں پھوٹ ڈال دے گا۔(ترمذی،بخاری)
خلفاے راشدین کا اہتمام
ترمذی شریف میں ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک آدمی کو صفیں سیدھی کرنے کے لیے مقرر کرتے تھے اور اس وقت تک تکبیر نہ کہتے، جب تک انھیں بتا نہ دیا جاتا کہ صفیں سیدھی ہوگئی ہیں۔
صفوں کی درستگی کیوں اور کیسے؟
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضرت نبی کریم ؐنے ارشاد فرمایا:صفیں درست رکھا کرو کیوں کہ تمھاری صفیں ملائکہ کی صفوں کے مشابہہ ہوتی ہیں۔ کندھے ملالیا کرو، درمیان میں خلا کو پْر کرلیا کرو، اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجایا کرو اور شیطان کے لیے خالی جگہ نہ چھوڑا کرو! جو شخص صف کو جوڑتا ہے اللہ اسے جوڑتا ہے اور جو شخص صف کو توڑتا ہے اللہ اسے توڑ دیتا ہے۔ (مسند احمد)
امام کی ذمہ داری
مفتی سعید احمد صاحب پالن پوری فرماتے ہیں کہ صفیں سیدھی رکھنا ضروری ہے اور صفیں سیدھی کرنے کی ذمہ داری امام کی ہے۔ اگر امام کی بے توجہی سے صفوں میں خرابی رہی تو قیامت کے دن وہ ماخوذ ہوگا۔ خود نبی کریم ؐ اس کا پورا اہتمام کرتے تھے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں جب مسجدِ نبوی میں نمازی زیادہ ہو گئے اور تنہا امام کے بس میں صفیں سیدھی کرانا نہ رہا، تو انھوں نے چند حضرات کو یہ ذمے داری سونپی، وہ لوگ صفیں سیدھی کرتے تھے۔(تحفۃ الالمعی)
صفوں سے متعلق مسائل
نماز میں مقتدیوں کا مل کر کھڑا ہونا اور بیچح میں خالی جگہ نہ چھوڑنا سنت ہے قدم سے قدم ملانے کا مطلب یہ ہے کہ ایک سیدھ میں اور برا بر رہیں آگے پیچھے نہ ہوں۔ٹخنے اور ایڑیاں برابر کر کے ہوں آگے سے انگلیوں کو برا بر کرنے کی ضرورت نہیں(فتاوی محمودی جلد نمبر ۷ صفحہ نمبر ۶۹۔۔)
امام مقتدیوں کو حکم کرے کہ خوب مل کر کھڑے ہوں اور نمازیوں کے درمیان میں کشادگی نہ چھوڑیں اور اپنے مونڈھے برابر کرے۔پس اگر اگلی صف میں گنجائش ہے تو پھر بموجب حکم اگلی صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔اور درمیان کی کشادگی کو بند کرنا مستحب اور مسنون ہے اور اگر جگہ نہ ہو تو تکلیف دینا اگلی صف کے نمازیوں کو مناسب نہیں ہے ( بحوالہ ردلمختار جلد نمبر ۱ صفحہ نمبر ۲۳۵ باب الامامت)
رابطہ ۔ اچھہ بل سوپور،حال امام وخطیب مرکزی جامع مسجد ملک صاحب صورہ سرینگر
موبائل نمبر۔ 7006826398