وزیراعظم نریندر مودی نے ایتوار کو اپنے ماہانہ نشریاتی پروگرام’’ من کی بات ‘‘میں ایک کشمیری نوجوان کی تعریف و توصف کرکے کرۂ ارض پر صفائی ستھرائی کی اہمیت کے حوالے سے ایک عام شہری کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کیا ہے ۔ بلال احمد ڈار نامی18سالہ نوجوان گزشتہ6بر س سے اپنے بل بوتے پر شہرۂ آفاق جھیل ولر سےپالی تھین، پلاسٹک کی بوتلیں ، پیکنگ مٹرئیل اور دیگر اقسام کی گندو غلاظت سمیٹ کر اس قدرتی آبگاہ کو آلودگی سے پاک رکھنےکے جہد مسلسل میں مصروف ہے۔ یقینی طور پر یہ ہمارے سماج، جس میں بڑی تعداد میں اسی عمر کے بچے فضول مصروفیات میں اپنے قیمتی اوقات ضائع کرتے رہتے ہیں، کے لئے ایک کھلی تحریک ہے ۔ خاص کر سرینگر میونسپل کارپوریشن کےلئے، جس نے مذکورہ نوجوان کی حوصلہ افزائی کرکے اسے صفائی ستھرائی کےلئے اپنا سفیر مقررکیا ہے۔ چونکہ مذکورہ نوجوان کی دیانتدارانہ کوششوں کے توسط سےمیونسپل کارپوریشن وزیرا عظم کی نظروں میں آئی ہے، لہٰذا اسے شہر سرینگر کے اندر صفائی ستھرائی کے معاملے میں اس معیار کو چھونے کی ضرورت ہے، جس کی وزیراعظم مودی اکثر تشہیر کرتے رہتے ہیں اور جو ’’ سوچھتا ہی سیوا ‘‘ ہےکے عنوان سے اس وقت سارے ملک میں جاری و ساری ہے۔ چنانچہ آج ہر انتظامی ادارے کی جانب سے یہ مہم زور و شو ر سے چلائی جارہی ہے اور انتظامی سربراہوں سے لیکر ادنیٰ درجے تک سبھی ان تقریبات میں پیش پیش رہتے ہیں۔ ایسے پروگرام کم و بیش ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں، لیکن بعد اذاں رفتہ رفتہ دم توڑ بیٹھتے ہیں۔ حقیقت میں1973میں سرینگر میونسپل کارپوریشن کے لئے غیر جما عتی بنیادوں پر ہوئےپہلے انتخابات کے بعد پہلے منتخب چیئرمین مرحوم جی علی محمد نے اپنے ہاتھ میں جھاڑو اُٹھا کر بڈشاہ چوک سے صفائی مہم شروع کرکے آج سے 46سال قبل عوام کو اس بات کا احساس دلانے کی کوشش کی تھی کہ قدر ت کی دین اس کرۂ ارض کو بچانے کےلئے صفائی کی اہمیت کو اولیت حاصل ہونی چاہئے۔ مگراتنا وقت گزرنے کے بعد بھی آج ہم جب اپنے گردوپیش پر نظر دوڑاتے ہیں تو ہر اور کوڑے کرکٹ کے انبار بکھرے پڑے نظر آتے ہیں، جس میں غالب حصہ پلاسٹک اور اسی قبل کی ایسی اشیاء کو ہوتا ہے جو برسہابرس تک سڑتی یا گھلتی نہیں ہیں اور جنہیں عرف عام میںNon biodegradableکہا جاتا ہے۔ کار پوریٹ دنیا کے عروج کی مہربانی کے طفیل پالی تھین اور پلاسٹک اس وقت ساری دنیا کےلئے تباہی کا ایک سنگین خطرہ بنے ہوئے ہیں اور کشمیر کی دھرتی ، جو اپنے پاکیزہ ماحول اور صاف و شفاف آبی ذخائر کے سبب ساری دنیا میں مشہور تھی،اس کی وجہ سے آبی، ارضی اور فضائی آلودگی کے دبائو میں چرمرارہی ہے۔ مختلف حکومتوں نے وقت وقت پر اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور پالی تھین اور اس قبیل کی چیزوں پر پابندی عائد کر دی مگر آج بھی بڑی مقدار میں پالی تھین اور پلاسٹک کی اشیاء ریاست میں درآمد ہو رہے ہیں اور بازاروں میں بکتی اور گھروں میں استعمال ہو رہی ہیں۔ لیکن نہ تو حکومتی سطح پر اور نہ ہی سماجی سطح پر ہم ان خطرات کے تئیں بیدار ہورہے ہیں اور نہ ہی اس کی کوشش کر رہی ہیں۔ خصوصیت کے ساتھ ہماری آبگاہیں تیزی کے ساتھ تباہ ہو رہی ہیں اور اگر اس بربادی کی یہی رفتار رہی تو غالباً وہ دن دور نہیں ہوگا، جب لوگوں کو درآمد شدہ پانی پرگزر بسر کرنی پڑے ۔ ہمیں بانڈی پورہ ضلع کے بلال احمد ڈار کی محنت لگن اور دیانت کو ایک لائحہ عمل بنا کرکبھی جنت ارضی کہلائی جانے والی اس سرزمین کو تباہی و بربادی سے بچانے کی سعی کرکے اسکے مہم جویانہ جذبے کو اپنی زندگی کا حصہ بناناچاہئے اور سرینگر میونسپل کارپوریشن کو بھی اپنی موجودہ صفائی مہم کو ایک مستقل صورت عطا کرنی چاہیئے۔