صفائی ستھرائی مہم آج زمانے کی اہم ترین ضرورت ہے۔اس لئے نہیں کہ مودی نے سوچھ ابھیان چلایا بلکہ اس لئے کہ یہ وقت کی ہمہ گیر ضرورت ہے۔ہم اپنے چاروں اور غلاظت اور گندگی کو اس قدر برداشت کرر ہے ہیں کہ اب ہمیں اس کے لئے مہم چلانی پڑی اور دنای کو بآواز بلند کہنا پڑے گا ۔۔۔۔کہ ؎
صفائی سے انسان انسان ہے
غلیظ اور گندہ تو حیوان ہے
حیوان بھی کونسا غلیظ اور گندہ ہے۔کتا ہماری نگاہ میں سب سے غلیظ اور گندہ جانور ہے مگر وہ تو گند کے ڈھیر کو دیکھ کر دور بیٹھے گااور اپنی دُم اور پاؤں سے پہلے بیٹھنے کی جگہ کو صاف کرے گااور ہم تو انسان ہیں،پوری کائنات میں ہماری تخلیق یعنی آدم کی تخلیق سب سے اعلیٰ وارفع ہے،اسی لئے ہم اشرف المخلوقات کہلاتے ہیں۔پاک اور صاف لوگوں کو اللہ تعالیٰ بھی پسند کرتا ہے ۔بنابریں اسلام نے صفائی کو آدھا ایمان قرار دیا ہے۔ نمازوں کی اولین شرط بھی صفائی ستھرائی اور من کی پاکیزگی ہے۔اگر صفائی اور پاکیزگی نہ ہو تو ہم قران مجید یا کلام اللہ کو چھو بھی نہیں سکتے۔ لہٰذاہم سوچ بھی نہیں سکتے ہیں کہ گندگی اور غلاظت ہماری زندگی اور سماجی تہذیب کا ایک حصہ بنے۔مسلمانوں کی تہذیب اور انسانیت کی اصلاح واقعی صفائی اور تحسین وتجمیل پر منحصر ہے۔انگریزی کی ایک کہاوت ہے :
CLEANLINESS IS NEXT TO GOLINESS
ٓؒاللہ جل شانہ نے تو اپنے محبو ب پیغمبرؐ پر بھی حکم صادر فرمایا ’’ اوراپنے کپڑوں کو پاک رکھئے اور ناپاکی سے رہیے‘‘۔سورۃمدثر (آیۃ۵۔۔۴)
دنیا کے کسی بھی آسمانی مذہب نے انسان کو گندگی کی تعلیم نہیں دی ہے مگر اسلام اپنے پیروکاروں کوزیادہ تر صفائی کی ترغیب دیتا ہے۔جب تک انسان میں صفائی ستھرائی کی تمیز نہ ہو اس کا ذہن بھی ترقی یافتہ نہیں کہلاسکتا۔جسم کی صفائی دماغی توازن ، صحت کی برقراری اور روح کی پاکیزگی میں بھی معاون و مددگار ہوتی ہے۔اپنے وجود کے ساتھ ساتھ اپنے آس پاس میں بھی صفائی ستھرائی بھی بہت ضروری ہے ۔اگر جسم صاف ہو اور گھر گندہ ہو تب بھی انسان گندگی میں ہی پلے گا۔گندگی میں تو وہ کیڑے مکوڑے اور جراثیم پلتے ہیں جو بیماریاں پھیلانے میںمعاون ہوتے ہیں۔
اپنے گھروں کو صاف رکھنا کوئی بڑی بات نہیں ہے مگراپنے گھروں سے کوڑا کرکٹ نکالنا اور باہر سڑکوںاور نالیوں میں پھینکنا کہاں کا انصاف ہے؟صفائی صرف جسم کو صاف کرنا،کپڑوں کو صاف کرنا اور گھر کو صاف رکھنا نہیں ہے بلکہ گھر کے ارد گرد محلے اور سڑکوں کی صفائی بھی از حد ضروری ہے۔اگر آپ سڑکوں اور نالیوں سے کوڑا نکال نہیں سکتے ہیں تو کم ازکم ان میں اضافہ بھی تو نہ کریں۔چپس کھائیں ،جوس پئیں اور بہت شوق سے کھائیں پئیں مگر اس پس خوردہ، پیک اور کوڑا اپنے مخصوص کوڑے دان میں پھینکیں۔اگر دور دور تک کوڑا دان نہ ملے تو وہاں تک اپنا کوڑا ہاتھ میں لے کر جائیں جہاں پر کوڑا دان آپ کو نظر آئے۔ آج کلdisposible چیزوں کا سب سے زیادہ چلن ہے۔اگر ہم ان چیزوں کا استعمال گھر میں کرتے ہیں تو استعمال شدہ چیزوں کو سڑکوں پر پھینکنے سے بیماریاں ہمیں ہی آکر گھیرتی ہیں اور ایسا کر نے والا عقل مند ومہذب انسان ہو ہی نہیں ہوسکتا جو اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ پڑوسی کے دروازے یا بستی میں علانیہ یا چوری چھپے ڈالے۔ یہ بری عادت قوم بنی اسرائیل میں تھی لیکن انہوں نے اسے ترک کر کے اب ہمیں اپنی یہ بھدی عادت وراثت کے طور سونپی ہے ۔ ایسا کبھی نہ کریں کیونکہ اللہ دیکھ رہاہے۔
ہمارا کشمیر جنت ِ زمین کہلاتا ہے مگر اس جنت میں جہاں نظر دوڑائیں گندگی کے ڈھیر نظر آتے ہیں۔صبح سویرے صفائی کرمچاری بستیوں سے ڈھیروں کے ڈھیر جمع کرتے ہیں جسے پھر میونسپل کارپوریشن والے ٹھکانے لگانے کے لئے ٹرکوں میں دن بھر ڈھوتے رہتے ہیں مگر ہم لوگ ہیں کہ دوسرے ہی لمحے اپنی ہی سڑکوںاور گلی کوچوں میں پھر سے بال کسی سوچ سمجھ کے کوڑا ڈال کر صفائی کر مچاریوں کو بھی بہت تنگ کر تے رہتے ہیں اور اپنے گردونواح میں گندگی پھیلانے میں کسی قسم کی کسر باقی نہیں چھوڑتے ہیں۔ ہماری اس حماقت کا نتیجہ یہ بھی نکلتا ہے کہ آوارہ کتوں کی تعداد روزافزوں بڑھ کر انسانوں کے لئے جینا دشوار کر رہے ہیں۔ نہ جانے ہم کس غفلت میں کھو ئے ہیں کہ ہمارے زیادہ تردوکاندار حضرات سب سے زیادہ کوڑا اپنی دکانوں سے نکال کر باہر سڑکوں پر بڑے چاؤ سے پھینکتے رہتے ہیں۔ یہ چاہے سبزی فروش ہو،میوہ فروش ہو، کریانے والا ہو،کمپیوٹرس کا کام کرنے والا ہو(جو تراشیدہ کاغذ کے پرزے پھینکتے ہیں) مستری ورکشاپ ہو ،آیس کریم والا ہو،یا کچھ اور بیچنے والا ریڑھی بان ہو،ہر کوئی اپنے حصے کی گند اور کوڑا سڑکوں پر دھڑلے سے پھینک دینے میں وہ دین دھرم کا لحاظ کر تا ہے نہ سماجی اخلاق کا۔ اپنی دوکانوں کو صاف شفاف رکھنے کی کوشش کرنے میں یہ لوگ اوروں کے صبر کا متحان لیتے رہتے ہیں۔ لوگ اپنے گھروں سے بھی جو کوڑا نکلے اسے بھی سڑکوں کو ہی زینت بناتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کم ازکم اسلام مخالف حرکت ہے ۔ ہمارے علماء اور ائمہ نہ جانے ا س موضوع پر بات کر نے سے کیوں کتراتے ہیں ۔ یہ بھی توجہ طلب امر ہے کہ صفائی ستھرائی کرنا اور ماحول کو پاک و صاف رکھنا صرف اور صرف عورت کا کام نہیں ہے بلکہ مرد حضرات پر بھی یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ وہ صفائی اور ستھرائی میں گھر کا ہاتھ بٹائیں۔ مونسپلٹی والوں پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جگہ جگہ کوڑا دان نصب کرلیں،صفائی کرمچاریوں سے باقاعدگی کے ساتھ کام کر ائیںاور جو لوگ کوڑا کرکٹ سڑکوںا ور گلیوں میں سر راہ ڈالتے ہیں انہیں قانونی طور متنبہ کریں تاکہ یہ اس غلط اور گناہ گارانہ کام سے باز آئیں ۔ صفائی کرمچاریوں کی جتنی تعریف کی جائے وہ کم ہے کہ یہی عملہ لوگوں کی پھینکی گئی گند اور غلاظت کو روز صاف کرکے ایک اہم ڈیوٹی سرا نجام دیتے ہیں مگر ان میں بعض کرمچاری اپنی ڈیوٹی میں تساہل برت لیتے ہیں۔ ان کے اعلیٰ حکام پر یہ ذمہ داری عاید ہوتی ہے کہ اول ان کو متحرک رکھیں ، دوم انہیںاس بات کا پابند بنائیں کہ سڑکوں کو صاف کرتے وقت کوڑے اور گردوغبار کو نالیوں میں نہ ڈالا کریں کیونکہ نالیوں اس سے نالیاں مٹی اور کوڑے سے بھرجاتی ہیں اور گندے پانی کا نکاس بند ہو جاتا ہے جس کا خمیازہ بھی لوگوں کو برف اور بارش کے موسم میں بھگتنا پڑتا ہے۔ خلاصہ ٔ بحث یہ کہ ہمیں صفائی ستھرائی کو سرسری طو ر نہیں لینا چاہیے بلکہ ا سے زندگی میں ایک اہم مشن کے طور اپنانا چاہیے۔
٭٭٭