کیا ہماری نگاہوں کے سامنے سے بارہا یہ آیت نہیں گزری:ترجمہ: ’’اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں قریب ہوں ہر پکارنے والے کی پکار کو جب کبھی وہ پکارے، قبول کرتا ہوں، اس لئے لوگوں کو بھی چاہیے کہ وہ میری بات مان لیں اور مجھ پر ایمان رکھیں، یہی انکی بھلائی کا باعث ہے۔‘‘ (سورۃالبقرہ: 186)۔ ہم پھر بھی غیروں سے امیدیں باندھے پھرتے ہیں، ان کے سامنے التجائیں کرتے ہیں اور اپنے اللہ پر بھروسہ نہیں کرتے، مشکل میں اللہ کو نہیں پکارتے جو ہر وقت ہماری التجا کا منتظر رہتا ہے۔ اللہ پاک انسان کی طرح مانگنے والے کی مجبوری کا فائدہ نہیں اٹھاتا، کسی کی عزت نفس کو مجروح نہیں کرتا، دے کر احسان نہیں جتلاتا۔ اس کے قریب ہونے سے کفر کا اندیشہ نہیں۔ اللہ کو تو ہمارا مانگنا بے حد پسند ہے، وہ تو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا۔ اپنے درپر آئے سائل کی جھولیاں بھر دیتا ہے، اسے اپنے سوا سب سے بے نیاز کر دیتا ہے۔ دعا کی قبولیت کی ایک اچھوتی مثال ہمارے سامنے ہے جب شیطان کو اللہ نے آدم کو سجدہ کرنے کا حکم دیا تو اس نے تکبر سے حکم کو رد کردیا۔ حکم عدولی پر اللہ نے اسے اپنی جنت سے نکالا ۔ شیطان اللہ کے پاس ایک سوال لے کر آیاکہ مجھے قیامت تک کی زندگی دے دیجئے کہ تمہارے بندوں کو گمراہ کروں۔ اللہ اس کے سوال میں چھپے عزائم سے بخوبی واقف تھا مگر رب کی یہ شان نہیں کہ کسی کے سوال کو رد کر دے۔ اس نے ابلیس مردود کی التجا بھی قبول کی حالانکہ اس نے تازہ تازہ نافرمانی کا ارتکاب کیا تھا۔ ہمارے لئے مقام فکر ہونا چاہیے کہ جب اللہ اس مردود کی سن سکتا ہے تو ہماری کیوں نہیں سن سکتا؟ اس کیلئے ہمیں تحمل اور اس کی شان کے مطابق مانگنا ہو گا اور اس یقین سے مانگنا ہوگا کہ وہ ہمیں مایوس نہیں لوٹائے گا۔ ہمیں اس طریقے سے مانگنا چاہیے جو طریقہ اسے پسند ہو،جس میں ندامت ہو، گریہ ہو، تڑپ ہو، لگن ہو اور سب سے بڑھ کر اپنے رب کی ذات پر یقین ہو۔