ہندوستان دنیا کا ایک سب سے بڑا جمہوری ملک ہے اور یہاں کے صدارتی انتخاب کی ایک سنہری تاریخ ہے۔ آزادی کے بعد سے لے کر ستر کی دہائی تک یہ انتخاب بالکل جمہوری طریقہ کار سے ہوتا رہا اور تمام سیاسی جماعت اس انتخاب میں جمہوری تقاضوں کی پاسداری کرنے اور اسے مثالی بنانے میں معاون رہے، البتہ نیلم سنجیو ریڈی کے انتخاب کے وقت پورے ملک کو یہ احساس ہوا کہ صدارتی انتخاب میں بھی سیاست کا رخ بدلنے لگا ہے لیکن پھر اس کے بعد وہی رنگ کہن یعنی حکمراں جماعت اور حزب اختلاف نے اتفاق رائے کو فوقیت دی اور صدر جمہوریہ کا انتخاب بحسن وخوبی انجام پاتا رہا۔ اکثر حکمراں جماعت کے امیدواروں کے نام پر مہر لگتی رہی لیکن اس بار کا صدارتی انتخاب کئی معنی میں غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوگیا ہے کہ ایک طرف حکمراں جماعت نے اس انتخاب کو پورے طور پر سیاسی رنگ دے دیا ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف بھی سیاسی بساط پر ایک ایسی چال چلنے کی کوشش کی ہے کہ جس سے حکمراں جماعت کو مات مل سکے۔ اگرچہ اب صدارتی انتخاب کا منظر نامہ بالکل صاف ہوگیا ہے کہ این ڈی اے کے امیدوار رام ناتھ کوبند کے حق میں فضا سازگار ہے، باوجود اس کے یو پی اے نے میرا کمار کو میدان میں اتار کر یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ حزب اختلاف کی پارٹیاں کوبند کے نام پر مہر لگانے کو تیار نہیں ہیں۔ اس انتخاب میں ایک طرف تمام تر جمہوری تقاضوں کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے کہ پہلی دفعہ حکمراں جماعت کی جانب سے یہ کہنے کی پہل کی گئی ہے کہ وہ ایک دلت امیدوار کو صدر جمہوریہ بنانا چاہتے ہیں تو دوسری طرف یوپی اے نے بھی میرا کمار کو امیدوار بناکر یہ پیغام دیا ہے کہ وہ بھی دلت کی سیاست میں حکمراں جماعت اور این ڈی اے سے پیچھے نہیں ہے۔
واضح ہوکہ ہمارے سابق صدر جمہوریہ جناب کے آر نارائنن بھی دلت طبقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ان کے انتخاب کے وقت کبھی بھی یہ بات نہیں کہی گئی تھی کہ ایک دلت کو صدر جمہوریہ بنایا جارہا ہے۔ جمہوریت میں جات پات، نسل پرستی اور کسی بھی طرح کے ازم کو فروغ دینا اس کی قدروں کے خلاف ہے لیکن آج کی سیاست نے آئین کے سربراہ کے انتخاب میں بھی جات پات اور نسل پرستی کو فروغ دیا جارہا ہے جو ہماری جمہوریت کے لئے مضر ہے۔ اب جبکہ نتیش کمار نے صدارتی امیدوار رام ناتھ کوبند کی حمایت کرکے یہ ثابت کر دیا کہ وہ عظیم اتحاد کے ساتھ مل کر حکومت تو چلا رہے ہیں لیکن اس کا مطلب قطعی یہ نہیں کہ وہ عظیم اتحاد کے ہر ایک فیصلے کے ساتھ ہونگے ۔ واضح ہو کہ گزشتہ تین چار ماہ سے یہ گفتگو عام تھی کہ اس بار کا صدارتی انتخاب کئی معنوں میں دلچسپ ہوگا، کیوں کہ ایک طرف قومی جمہوری اتحاد(این ڈی اے ) اس پوزیشن میں ہے کہ وہ اپنے صدارتی امیدوار کو کامیاب کرا سکے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی تمام سیاسی جماعتیں اگر اتفاق رائے سے اپنا امیدوار کھڑا کرتی ہیں تو ممکن ہیں کہ کراس ووٹنگ کا امکان بڑھے اور این ڈی اے کے لئے تھوڑی سی مشکل کھڑی ہوجائے۔ ویسے تو فیصلہ این ڈی اے کے حق میں ہی جاتا دکھائی دیتا ہے کہ تمام ریاستوں کی اسمبلیوں کے ممبران اور ممبران پارلیمنٹ کی تعداد کے مطابق این ڈی اے کا پلڑا بھاری ہے لیکن اگر حزب اختلاف کا کوئی ایک مضبوط امیدوار ہوتا ہے تو پھر نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے ۔ اس لئے حکمراں جماعت نے ایک ایسے امیدوار کی تلاش شروع کی کہ جس کے ذریعے اس کا سیاسی مفاد بھی پورا ہو۔ کیونکہ اس وقت ملک میں یہ پیغام عام ہے کہ موجودہ مرکزی حکومت کا رویہ دلت طبقے اور اقلیت مسلم طبقے کے تئیں منصفانہ نہیں ہے۔ حیدرآباد یونیورسٹی کے طالب علم بیمولا اور بھر حالیہ سہارنپور اترپردیش میں دلت طبقے کے ساتھ جو کچھ ہوا ہے، اس سے مودی حکومت کا اصلی چہرہ سامنے آگیا ہے۔ اس لئے حکمراں جماعت نے کوبند کو امیدوار بناکر ’دلت ہتیسی‘ ہونے کی سیاست کی ہے۔ اب حزب اختلاف نے بھی دلت امیدوار ہی کھڑا کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ تو ڈال ڈال تو میں پات پات۔ کیوں کہ آج کی قومی سیاست میں کوئی بھی سیاسی جماعت کسی دلت کی مخالفت کھل کر نہیں کر سکتی ۔ یہی وجہ ہے کہ کانگریس کی طرف سے سابق لوک سبھا اسپیکر میرا کمار کو امیدوار بنایا گیا ہے تا کہ ایک تیر سے دو نشانے لگ سکیں ، ایک تو دلت اور دوسرے عورت امیدوار لیکن اب جب کہ حزب اختلاف کے اندر ہی پھوٹ پڑتی نظر آ رہی ہے تو مطلع صاف ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ این ڈی اے امیدوار ہی کامیاب ہو سکتا ہے اور اسکی پہل بہار سے ہوئی کہ جنتا دل متحدہ نے اپنا موقف واضح کر دیا ہے کہ وہ این ڈی اے کے امیدوار کی حمایت کرینگے ۔ یوں تو نتیش کمار نے رام ناتھ کوبند کے نام کا اعلان ہوتے ہی ان سے مل کر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ وہ ان کی حمایت کرینگے لیکن اب جب کہ نتیش کمار نے اپنی پارٹی کی میٹنگ میں یہ فیصلہ لے لیاہے کہ وہ این ڈی اے امیدوار کی حمایت کرینگے تو یہ بات صاف ہو گی ہے کہ اب عظیم اتحاد صدارتی امیدوار کے معاملے میں ایک رائے نہیں رکھتے ہیں ۔ اگر چہ لالو پرساد یادو نے کانگریس اتحاد یعنی یو پی اے کے امیدوار میرا کمار کی حمایت کرکے یہ پیغام دیدیا ہے کہ وہ نتیش کمار سے الگ ہیں مگر اب اتنی بات تو واضح ہوگئی ہے کہ بہار کی سیاست میں کوئی نیا طوفان آنے والا ہے، کیوں کہ نتیش کمار کے فیصلے کے بعد راشٹریہ جنتا دل کے لیڈروں کی طرف سے نتیش پر حملہ شروع ہو گیا ہے۔ اگرچہ لالو پرساد یادو کی طرف سے بالکل خاموشی ہے کیوں کہ ان دنوں ان کے خاندان کو انکم ٹیکس محکمہ گھیرنے میں لگا ہے ۔ بے نام ملکیت کے حوالے سے ان کی بیٹی اور راجہ سبھا ممبر مشا بھارتی کے ساتھ ساتھ ان کے بیٹا تجسوی یادو کو بھی نوٹس دیا گیاہے جس کی وجہ سے لالو پرساد مشکل میں نظر آ رہے ہیں ۔ جہاں تک حزب اختلاف کی دیگر جماعتوں کا سوال ہے تو بنگال کی وزیر اعلی ممتا بننرجی اور اڈیشہ کے وزیر اعلی نوین پٹنائک نے بھی حزب اختلاف کے امیدوار کی حمایت کی ہے۔ اس لئے سیاسی حلقے میں یہ چہ می گویاں ہیں کہ نتیش کمار نے حزب اختلاف کی کسی بھی جماعت کے فیصلے کا انتظار کے بغیر این ڈی اے کی حمایت کر کے یہ اشارہ بھی دے دیا ہے کہ وہ حزب اختلاف کے ساتھ نہیں ہیں بلکہ مستقبل میں این ڈی اے کی طرف ہی جا سکتے ہیں ۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ قومی سطح پر اس صدارتی انتخاب کے توسط سے کس طرح کی سیاسی صف بندی ہوتی ہے۔ کیوںکہ یہ بات تو جگ ظاہر ہے کہ صدارتی انتخاب میں این ڈی اے امیدوار رام ناتھ کوبند کی کامیابی یقینی ہے کہ ووٹ کے اعداوشمار ان کے حق میں ہے۔ لیکن یوپی اے کے سترہ سیاسی جماعتوں نے میرا کمار کی امیدواری پر جس طرح اتفاق رائے سے مہر لگائی ہے اس سے ملک میں یہ بات تو ضرور عام ہوئی ہے کہ این ڈی اے کے خلاف ایک مضبوط سیاسی صف تیار ہورہی ہے جس کا فائدہ اس صدارتی انتخاب میں ہوتا دکھائی تو نہیں دیتا لیکن مستقبل میں اس اتحاد سے این ڈی اے کے خلاف سیاسی جنگ لڑی ضرور جاسکتی ہے۔ جہاں تک بہار کا تعلق ہے تو یہ بات تو صاف ہوچکی ہے کہ لالو پرساد یادو کانگریس کے ساتھ ہی رہینگے کیوں کہ بہار کی موجودہ سیاست کا تقاضہ یہی ہے کہ اگر نتیش کمار این ڈی اے میں پھر واپس جاتے ہیں تو لالو پرساد یادو اور کانگریس ایک ساتھ رہ کر ہی این ڈی اے کا مقابلہ کر سکتے ہیں لیکن ایک طرف یہ بھی چرچہ ہے کہ چوں کہ رام ناتھ کوبند دلت ہیں اسلئے ممکن ہے کہ لالو پرساد بھی نرم رویہ اپنائیں ۔ بہر کیف، قومی سطح پر جس طرح کا سیاسی منظرنامہ ہے، یعنی جنتادل متحدہ، اے آئی ڈی ایم کے اور بیجو جنتادل نے این ڈی اے کی حمایت کی ہے تو اس سے یہ اندازہ تو لگایا ہی جا سکتا ہے کہ حزب اختلاف متحد نہیں رہا اور اس کا فائدہ این ڈی اے کے صدارتی امیدوار رام ناتھ کوبند کو مل سکتا ہے، کیوں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتوں میں بھی جو سنگھ نظریہ کے لوگ ہے وہ بھی یہ کہ کر کوبند کی حمایت کر رہے ہیں کہ وہ ایک صاف ستھری شبیہ کے ہیں اور ان کے پاس ایک طویل سیاسی تجربہ ہے ،جب کہ سچائی یہ ہے کہ میرا کمار بھی ایک منجھی ہوئی سیاست داں ہیں وہ پانچ بار ممبر پالیامنٹ رہ چکی ہیں۔ ان کے پاس لوک سبھا اسپیکر ہونے کا تجربہ ہے اور سیاست میں آنے سے قبل آئی ایف ایس ہونے کی وجہ سے کئی بیرونی ممالک میں شفارتی امور میں مہارت رکھتی ہیں۔جہاں تک دلت ہونے کا سوال ہے تو اس لحاظ سے بھی قومی سطح پر ان کی شناخت مسحکم ہے کہ وہ بابو جگ جیون رام جیسے مجاہد آزادی کی بیٹی ہیں۔ مختصر یہ کہ نتیش کمار نے سب سے پہلے این ڈی اے کے صدارتی امیدوار رام ناتھ کوبند کی حمایت کر کے ایک طرف بہار میں اپنے اتحادی جماعتوں یعنی کانگریس اور راشٹریہ جنتا دل کے لئے مشکل کھڑی کر دی ہے تو دوسری طرف حزب اختلاف کی دوسری سیاسی جماعتوں کے لئے بھی مشکل پیدا کر دی ہے کہ اب حزب اختلاف میں دراڑ پیدا ہو گیا ہے اور این ڈی اے کی منشا بھی یہی تھی کہ کسی طرح حزب اختلاف کے درمیان دراڑ پیدا ہو، تاکہ ان کا امیدوار آسانی سے کامیاب ہو سکے۔
موبائل9431414586