محمد عرفات وانی
زمانے کی رفتار میں کچھ لمحے ایسے آتے ہیں جب قلم محض تاریخ لکھنے کا وسیلہ نہیں رہتا بلکہ تہذیب اور انسانیت کی روح کو محفوظ کرنے کا مقدس فریضہ ادا کرتا ہے۔ صداقت علی ملک کی تصنیف ’’بھلیسہ کلچرل ہیریٹیج اینڈ ہسٹری‘‘ بھی ایک ایسی ہی کاوش ہے جس نے خاموش پہاڑوں، گمشدہ داستانوں اور نظرانداز کی گئی تہذیبوں کو پھر سے زندہ کر دیا ہے۔ جب انسان ماضی کو صرف یاد نہیں بلکہ سمجھتا ہے، تو وہ اپنی شناخت کو ازسرِنو تخلیق کرتا ہے اور یہی اس کتاب کا اصل مقصد ہے۔ مٹی سے جڑی شناخت کو علم اور محبت کے ذریعے دوام دینا۔یہ کتاب سال 2021 میں ایچ ایس آر اے پبلی کیشنز سے شائع ہوئی، جس کا آئی ایس بی این نمبر 9789390415809 ہے۔ کل 164 صفحات پر مشتمل یہ تصنیف بظاہر مختصر لگتی ہے مگر اس کے اندر بھلیسہ کی پوری تاریخ، ثقافت، روحانیت، اور انسانی تجربات سمٹ آئے ہیں۔ یہ وہی بھلیسہ ہے جو صدیوں سے جغرافیائی لحاظ سے تو موجود تھا مگر علمی و ادبی سطح پر نظرانداز رہا۔ مصنف نے اپنی محنت، علم اور سچائی کے ساتھ اسے نہ صرف قلم کی روشنی دی بلکہ اس کے وجود کو دنیا کے نقشے پر نئی شناخت عطا کی۔
صداقت علی ملک ڈوڈہ کے پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک حساس، محقق اور صاحب شعور نوجوان ہیں۔ ان کے نزدیک تحقیق کا مطلب صرف حوالوں کا انبار نہیں بلکہ احساس کی گہرائی ہے۔ وہ بھلیسہ کو محض زمین کا ایک ٹکڑا نہیں بلکہ ایک زندہ روح کے طور پر پیش کرتے ہیں، جہاں ہر پہاڑ، ندی، چراگاہ اور بستی اپنی الگ کہانی سناتی ہے۔ وہ اپنے علاقے کے اندر سے بولتے ہیں، باہر سے نہیں۔ اسی لیے ان کی تحریر میں سچائی کی خوشبو اور خلوص کی روشنی ہے۔
کتاب کے ابتدائی ابواب میں مصنف نے بھلیسہ کے جغرافیے، فطری حسن اور قدرتی وسائل کو ایک شاعر کے احساس اور ایک محقق کی سنجیدگی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ ان کی تحریر پڑھتے ہوئے قاری محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ خود بھلیسہ کے دریا کنارے کھڑا ہے، اس کی ہوا محسوس کر رہا ہے اور اس کی خاموشی کو سن رہا ہے۔ مصنف نے فطرت کو پس منظر نہیں بلکہ زندگی کا مرکز قرار دیا ہے۔ ان کے نزدیک زمین کی پہچان صرف اس کے نقشے سے نہیں بلکہ اس کے لوگوں، ان کی محبت اور ان کے رشتوں سے ہوتی ہے۔
اس کتاب میں بھلیسہ کے سماجی، تعلیمی، اور ثقافتی ارتقاء کا تفصیلی بیان موجود ہے۔ مصنف نے بڑے سلیقے سے یہ بتایا ہے کہ بھلیسہ کی ترقی کا سفر کس طرح تعلیمی اداروں، محنت کش عوام اور باشعور نوجوانوں نے آگے بڑھایا۔ وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ تعلیم بھلیسہ کے لیے امید کا چراغ ہے جو نہ صرف روشنی دیتا ہے بلکہ عزت اور خودداری کا ذریعہ بھی بنتا ہے۔ کتاب کے ایک حصے میں وہ ان اسکولوں اور اساتذہ کا ذکر کرتے ہیں جو پسماندگی کے بیچ روشنی کے مینار بنے ہوئے ہیں۔ ان کے نزدیک علم صرف نصاب نہیں بلکہ انسان سازی کا ہنر ہے۔
مصنف نے اپنے علاقے کے نامور اہل علم، مفکرین اور روحانی شخصیات کا بھی تذکرہ نہایت احترام اور عقیدت کے ساتھ کیا ہے۔ وہ پروفیسر عمر دین، غلام رسول آزاد، منشی محمد انور، غلام نبی آزاد جیسے اہل علم کا ذکر کرتے ہوئے بھلیسہ کے فکری ورثے کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ان کے الفاظ میں عقیدت کا رنگ ہے مگر مبالغہ نہیں۔ خاص طور پر جب وہ الحاج غلام قادر گانی پوری کی خدمات کا ذکر کرتے ہیں تو قاری محسوس کرتا ہے کہ جیسے وہ ایک درویش، عالم اور خادم انسانیت کی داستان سن رہا ہو۔
کتاب کے اہم ابواب میں سیاحت اور تعلیم مرکزی حیثیت رکھتے ہیں۔ مصنف سیاحت کو صرف تجارتی فائدے کا ذریعہ نہیں بلکہ ثقافتی مکالمے کا پل قرار دیتے ہیں۔ وہ بھلیسہ کی فطری خوبصورتی کو اس کے معاشی استحکام کے ساتھ جوڑتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ اگر اسے صحیح انداز میں متعارف کرایا جائے تو یہ پورے جموں و کشمیر کے لئے ایک نمونہ بن سکتا ہے۔ ان کے نزدیک سیاحت محض تفریح نہیں بلکہ ایک ایسا تجربہ ہے جو مختلف تہذیبوں کو قریب لاتا ہے۔
صداقت علی ملک کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے بھلیسہ کی تاریخ کو صرف کتاب کے صفحات تک محدود نہیں رکھا بلکہ ڈیجیٹل دنیا تک پہنچایا۔ انہوں نے بھلیسہ کے لیے ایک ویکی پیڈیا صفحہ اور ویب سائٹ قائم کی تاکہ دنیا بھر کے لوگ اس علاقے کے ماضی، ثقافت، اور تاریخ سے واقف ہو سکیں۔ یہ ایک تاریخی قدم ہے کیونکہ پہلی بار کسی مقامی محقق نے اپنی مٹی کو عالمی علمی منظرنامے میں جگہ دی ہے۔ یہ ان کے علم، وژن، اور لگن کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
کتاب کی زبان سادہ، شائستہ اور دل میں اتر جانے والی ہے۔ نہ اس میں دکھاوے کی پیچیدگی ہے نہ غیر ضروری ثقالت۔ ہر سطر میں مصنف کا مقصد قاری کے دل سے بات کرنا ہے۔ ان کی تحریر میں جذبات اور تحقیق دونوں کا حسین امتزاج نظر آتا ہے۔ وہ صرف معلومات نہیں دیتے بلکہ احساس بیدار کرتے ہیں۔ یہی ایک بڑے لکھنے والے کی پہچان ہے۔تاہم کتاب کے اوراق میں ایک خاموش درد بھی محسوس ہوتا ہے۔ بھلیسہ کی محرومیوں اور نظراندازی کا درد مگر صداقت علی ملک نے اس درد کو شکوہ نہیں بنایا بلکہ تحریک میں بدل دیا۔ وہ دکھاتے ہیں کہ اگر کوئی خطہ نظرانداز ہو جائے تو اس کا جواب شکایت نہیں بلکہ شعور ہے۔ انہوں نے قلم کے ذریعے اپنی سرزمین کو بیدار کیا، اور یہی بیداری ایک نئی شناخت کی بنیاد بن گئی۔ان کے نزدیک تاریخ لکھنے کا مطلب صرف ماضی کو محفوظ کرنا نہیں بلکہ مستقبل کے لیے روشنی پیدا کرنا ہے۔ وہ بھلیسہ کو ماضی کے ایک باب کے طور پر نہیں بلکہ ایک زندہ کہانی کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس میں رواداری، بین المذاہب ہم آہنگی اور انسانی قدروں کی جھلک نمایاں ہے۔ ان کے مطابق اگر ثقافت احترام، یادداشت اور محبت پر قائم ہو تو وہ پسماندگی کا بہترین علاج بن سکتی ہے۔
بھلیسہ کلچرل ہیریٹیج اینڈ ہسٹری محض ایک کتاب نہیں بلکہ ایک دعوت فکر ہے۔ یہ قاری کو یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ کسی خطے کی اصل طاقت اس کے وسائل نہیں بلکہ اس کے لوگ، اس کی ثقافت اور اس کی یادیں ہیں۔ یہ کتاب ہر محقق، معلم، طالبِ علم، اور باشعور قاری کے لیے ایک لازمی مطالعہ ہے۔
المختصریہ کہنا بےجا نہ ہوگا کہ صداقت علی ملک نے صرف کتاب نہیں لکھی بلکہ بھلیسہ کو لفظوں میں امر کر دیا ہے۔ ان کی تحریر ثابت کرتی ہے کہ محبت اور سچائی سے لکھا گیا قلم تاریخ کے اندھیروں میں روشنی بن جاتا ہے۔ بھلیسہ کلچرل ہیریٹیج اینڈ ہسٹری ایک ایسی روشنی ہے جو آنے والی نسلوں کو اپنی جڑوں سے جوڑے رکھے گی۔ یہ کتاب اس بات کا اعلان ہے کہ جنہوں نے اپنی سرزمین سے وفا کی۔ وہ کبھی فراموش نہیں کیے جا سکتے اور صداقت علی ملک انہی میں سے ایک ہیں جنہوں نے لکھا تاکہ ہم کبھی بھول نہ جائیں۔
[email protected]
 
								 
			 
		 
		 
		 
		 
		 
		 
		