Facebook Twitter Youtube
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے
Kashmir Uzma
  • تازہ ترین
  • کشمیر
  • جموں
  • شہر نامہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • سپورٹس
  • صنعت، تجارت
  • کالم
    • مضامین
    • گوشہ خواتین
    • خصوصی انٹرویو
    • جمعہ ایڈیشن
    • تعلیم و ثقافت
    • طب تحقیق اور سائنس
  • ملٹی میڈیا
    • ویڈیو
    • پوڈکاسٹ
    • تصویر کہانی
  • اداریہ
  • ادب نامہ
    • نظم
    • غرلیات
    • افسانے

Kashmir Uzma

Latest Kashmir News | Kashmir Urdu News | Politics, India, International, Opinion

Font ResizerAa
Search
Follow US
مضامین

صداقتوں کا کہانی کار۔طارق شبنم قسط۔(۲)

Towseef
Last updated: September 27, 2024 9:35 pm
Towseef
Share
12 Min Read
SHARE

ڈاکٹر عرفان رشید

’’گمشدہ دولت ‘‘ ایک انوکھے موضوع پر لکھا ہوا افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے جنرل ٹام جو مریخ سے اتر کر دنیا کا معاینہ کرنے آیا تھا ۔ پہلے اسے انسان کی خوشحالی ،سکون ، آرام ، دولت ، خوبصورتی پر رشک آتا ہے لیکن جوں ہی وہ اس دنیا کا دوسرا رخ دیکھتاہے جو جدید سائنسی ٹکنالوجی کا دور کہلا تا ہے جس میں ہتھیاروں اور ایٹم بموں کی وجہ سے ناحق انسانیت کا خون کیاجاتا ہے ۔اس سے بے دل ہو کے مریخ پر واپس جانا پڑتا ہے ۔ یہ افسانہ موضوع کے لحاظ سے بہترین افسانہ ہے ۔جس میں عصر حاضر کے انسان کی نفسیاتی حقیقت نگاری کو عیاںکرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ ’’سنہرا پھندا‘‘بھی ایک اچھوتے موضوع پر لکھا گیا ہے ۔ اس میں انٹر نیٹ کے منفی اور مثبت پہلوئوں کو زیر بحث لایا گیا ہے ۔ افسانہ نگار نے راحیلہ کے ذریعے ہمارے سماج کی ان لڑکیوں پر سوال کیا ہے جو اس آفت کے ذریعے اپنے گھر کو جہنم بنا دیتی ہیں۔موصوف اس بات پر زور دیتے ہیں کہ انٹرنیٹ ایک ایسا زہر ہے جس نے youthکو اپنے لپیٹ میں لیا ہے ۔اور ایسی کئی ’راحیلہ ‘ ہوں گی جو بظاہر نیک اور پرہیزگار ہوتی ہیں لیکن اس زہر کے آگے ہر انسان بے یارو مددگار ثابت ہوتا ہے ۔ اس لیے تخلیق کار دانستہ طور پر اپنے قارئین کو اس لعنت سے دور رکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ’’کیمیا گھر ‘‘ اس مجموعے کی آخری کہانی ہے جس میں موجودہ COVID 19اور لاک ڈاون کو موضوع بنایا گیا ہے۔

طارق شبنم کو کہانی کہنے کا فن آتا ہے ۔ اس مجموعے میں موضوعاتی تنوع ہے ۔ اسلوبی اور تکنیکی طور پر زیادہ باریک بینی سے کام نہیں لیا گیا ہے ۔ پورے مجموعے پرراست بیانیہ غالب ہے جو کہیں کہیں قاری کو اکتاہٹ پیداکرتا ہے ۔ بہرحال میںذاتی طور پر طارق شبنم کو اس پہلی کامیاب کوشش کے لیے مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آئندہ بھی ان سے ہم نئی نگارشات کی توقع رکھتے ہیں ۔ طارق شبنم کا دوسراافسانوی مجموعہ ’’بے سمت قافلے ‘‘ کے نام سے ۲۰۲۴ء میں شائع ہوا ہے ۔جس میں ۴۴ ؍افسانے شامل ہیں ۔یہ مجموعہ ان کے سابقہ مجموعے سے کافی معنوں میں بہتر ہے ۔ اس میں موضوعاتی اور تکنیکی سطح پرکافی تجربے کیے گئے ہیں ۔ زبان و بیان کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے ۔ نئے نئے تشبیہات ، استعارات اورعلامات سے افسانوں کا حسن بڑھ جاتا ہے ۔پہلا افسانہ ’’ٹھنڈا جہنم ‘‘ ایک خوبصورت علامتی افسانہ ہے جس میں ہند و پاک سرحد کو موضوع بنا یا گیا ہے ۔ افسانہ نگار نے مرکزی کردار وشال کے ذریعے کہانی کو روایتی بیانیہ کی صورت میں پیش کیا ہے ۔ وشال ایک فوجی ہوتا ہے جو سرحد پر تعینات ہوتا ہے اور ایک دن اچانک برف کے طوفان کی وجہ سے ان کی چوکی تہس نہس ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے وہ اور ان کے ساتھی No Man’s Land میں پہنچ جاتے ہیں ۔جہاں پر دوسرے ملک کا آفیسر مرتے وقت ان سے مخاطب ہوکر کہتا ہے : ’’ ساتھیو ! مرتے وقت کوئی جھوٹ نہیں بولتا ۔میں سچ کہتا ہوں،یہ سب دھوکہ ہے،فریب ہے۔ ورنہ یہ ٹھنڈا جہنم کسی انسان کا علاقہ نہیں ہوسکتا ۔کبھی نہیں۔دِس اِز نو مینز لینڈ‘‘۔اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ کہانی کار موجودہ منظر نامے کو تنقید کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں اور کئی سوالات قائم کرتے ہیں جن پر قاری سوچنے کے لیے مجبور ہوجاتے ہیں ۔ ’’اڑن طشتری ‘‘ ایک اور افسانہ ہے جس میں سائنس کے موجودہ منظر نامے کو پیش کیا گیا ہے ۔ ا س افسانے کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کی گئی ہے کہ کس طرح آج کل کے ممالک ترقی کے نام پر ایٹم بم ،ہائیڑروجن بم اور نیکولیر بم پر کھربوں ڈالر خرچ کرتے ہیں وہیں دوسری طرف عام عوام بھوک ، افلاس اور غربت سے جوجھ رہی ہیں۔کئی ممالک دوسرے سیاروں پر آباد ہونے کی تیاریوں میں لگی ہوئی ہیں اور ادھر دھرتی کے باسی فوٹ پاتھوں پر اپنی جانیں دے رہی ہیں ۔ افسانہ ’’نیا شہر ‘‘ ایک اور افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار ایک خیالی شہر کی تصویر کھینچتا ہے جس میں امن ، سکون اور شانتی ہے جہاں مکین لوٹ مار ،چوری چکوری اور ڈاکہ زنی سے ماورا ہیں ۔ کشمیر کے موجودہ سیاسی منظر نامے کے حوالے سے ’’آئینہ فروش ‘‘ ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں موصوف نے علامتی پیرایہ اظہار کو اپنایا ہے ۔اس افسانے کے ذریعے افسانہ نگار نے کئی سوالات قائم کیے ہیں جن پر قاری سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ آئینہ فروش یہاں کا وہ ادیب ہے جو کئی دہائیوں سے وادی کے سیاسی پہلوئوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کررہا ہے اور اب اس کو شرمندگی اور افسوس ہورہا ہے کہ ’’میں ایک ناکام آئینہ فروش ہوں ۔میرے سارے آئینےناکارہ ہیں ‘‘ ۔افسانہ ’’شکور بھنگی ‘‘ ایک عمدہ افسانہ ہے جس میں افسانہ نگار نے عصر حاضر کے سماج پر طنز کے تیر چلائے ہیں ۔ شکور ایک بھنگی ہوتا ہے جو احسان احمد کی مل میں ایک مزدور کی حیثیت سے کام کرتا ہے ۔احسان احمد ہر سال قرعہ اندازی کر کے کسی ایک مزدور کو حج کے لیے بھیجتا تھا ۔اس طرح سے قرعہ اندازی میں شکور بھنگی کا نام نکلتا ہے جس پر مل کے سبھی مزدور اُسے طعنے دیتے ہیں اس طرح سے شکور حج کے لیے راضی نہیں ہوتا ۔ لیکن جب مل کا مالک احسان احمد اسے ایک سال کا بونس کی لالچ دیتا ہے تو شکور بھنگی راضی ہوجاتا ہے ۔ جب شکور بھنگی حج کے سفر پر روانہ ہوجاتا ہے تو احسان احمد بھی ان کے گھر جاتا ہے اور ان کی بیوی سے ملتا ہے ۔شکور کی بیوی انہیں سارا معاملہ سمجھاتی ہے اور کہتی ہے کہ اصل میں شکور ایک بیوہ کی مدد کرتا ہے اور بیوہ ہر روز انہیں دعا دیتی ہے : ’’ جا میرے بھائی،میرے مدد گار!اللہ تمہیں حج کی سعادت نصیب فرمائے اور تمہارا خاتمہ ایمان پر کردے۔‘‘یہ واقعہ سن کر احسان احمد کو شکور بھنگی کی شخصیت پر رشک آجاتا ہے اور جب شکور حج کا فریضہ ادا کرکے سجدے میں مرجاتے ہیں تو احسان احمد کی زبان سے بے ساختہ الفاظ نکلتے ہیں :’’ یا میرے مولیٰ۔مجھ گناہ گار کو بھی شکور احمد جیسی موت عطا فرمائو۔‘‘ افسانہ نگار سماج پر طنز کرتے ہیں کہ جو لوگ دین کے ٹھیکیدار بنے ہوئے ہیں وہ دوسروں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔

اس لئے کسی کو حقارت اور ذلت کی نظروں سے نہیں دیکھنا چاہیے کیا پتہ کب کس بندے پر اللہ مہربان ہوجائے وہ اللہ ہی جانتا ہے ۔ ۱۹۹۰ میں کشمیر میں جو حالات گزرے ہیں اس تناظر میں ایک ایسا افسانہ لکھا گیا ہے جو ’’بے سمت قافلے ‘‘ کے نام سے شامل ہیں حالانکہ اس مجموعے کا نام بھی یہی ہے ۔ اس افسانے کو فلیش بیک تکنیک میں پیش کیا گیا ہے ۔اسے ایک کردار ’شوقی ‘ کے ذریعے آگے بڑھا یا گیا ہے ۔کس طرح سے یہاں کے سینکڑوں خاندان اجڑ گئے ہیں جنہیں اس بات کا علم بھی نہیں تھا کہ وہ اس وادی کو چھوڑ کر کہاں جائے ۔واقعی میں وہ اس وقت اس قافلے کی طرح تھے جو بے سمت تھے ۔جو ابھی تک رئیس اور سرمایہ دار تھے لیکن دیار غیر میں فقیروں کی مانند زندگی گزارنے پر مجبورہیں ۔ ’’لاڈلا ‘‘ ایک ایسا افسانہ ہے جس میں ایک ایسی کہانی کو پیش کیا گیا ہے ،جس کے ذریعے تربیت اولاد پر زور دینے کی کوشش کی گئی ہے اور عصر حاضر کے ان والدین پر طننر کیا گیا ہے جو اپنے لاڈلوں کو سر پر چڑھائے ہوئے ہیں اورہمیشہ اس کی غلطیوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے رہے۔‘‘مصنف موجودہ والدین کو باور کرانا چاہتا ہے کہ انہیں کس حد تک اپنے بچوں کی پرورش کرنی چاہئے ۔اس کہانی میں اقبال جو ایک چھوٹا لڑکا ہوتا ہے اپنے والدین خاص کر اپنی ماں کے لاڈپیار کی وجہ سے Drugsکی لت لگ جاتی ہے ۔اس کہانی کی زبان نہایت کی فصیح ہے ،مناسب محاورات اور تشبیہات کا استعمال کیا گیا ہے، منظر کشی کے حوالے سے بھی یہ ایک کامیاب افسانہ ہے ـ۔

’’علی بابا ‘‘ ایک اور افسانہ ہے جس میں ایک انوکھے موضوع کو چھوا گیا ہے کہ کس طرح سے عورتیں فقیروں اور پیروں کی دی ہوئی مٹی اور تعویز کے چنگل میں آجاتی ہیں ۔اس میں توہم پرستی کاری ضرب لگائی گئی ہے ۔’’جنگلی آدم ‘‘ تمثیلی اسلوب میں لکھا ہوا ایک خوبصورت افسانہ ہے جس میں جنگلوں اور پہاڑوں کے مکینوں کو شہر اور دیہات کے بسنے والے ساتھ ملانے کی کوشش کی گئی ہے ۔اس میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ اللہ کے سامنے حسب اور نسب معنی نہیں رکھتا ہے بلکہ ان کے سامنے آپ کی پرہیز گاری اور تقویٰ کو اہمیت ہے ۔اور بھی کئی افسانے ہیں جو لائق مطالعہ ہیں ۔ مجموعے میں متعدد ایسے افسانے ہیں جوافسانے کے فن پر پورا اترے ہیں ۔ کشمیر کے معاصر افسانہ نگاروں میں طارق شبنم ایک اہم نام ہیں ۔ ان کا کینوس وسیع ہے اور تکنیکی سطح پر بھی کامیاب نظر آتے ہیں ۔ اس مجموعے میں متعدد افسانے راست بیانیہ میں لکھے گیے ہیں ۔اس میں ٹیپنگ کی غلطیاں بھی ہیں جن کو دوسرے ایڈیشن میں ٹھیک کیا جاسکتا ہے ۔
رابطہ۔9622701102
[email protected]

Share This Article
Facebook Twitter Whatsapp Whatsapp Copy Link Print
چاند نگر جموںکی گلی گندگی و بیماریوں کا مرکز، انتظامیہ کی غفلت سے عوام پریشان پینے کے پانی میں سیوریج کا رساؤ
جموں
وزیرا علیٰ عمر عبداللہ سے جموں میں متعدد وفود کی ملاقات
جموں
کانگریس کی 22جولائی کو دہلی چلو کال، پارلیمنٹ کاگھیرائوکرینگے ۔19کو سری نگر اور 20جولائی کو جموں میں راج بھون تک احتجاجی مارچ ہوگا
جموں
بھلا کی بنیادی سہولیات کی فراہمی میں ناکامی پر حکام کی سرزنش بی جے پی پر جموں کے لوگوں کو دھوکہ دینے کا الزام
جموں

Related

مضامین

ایمان، دل کی زمین پر اُگنے والی مقدس فصل ہے روشنی

July 17, 2025
مضامین

انسان کی بے ثباتی اور اس کی غفلت فہم و فراست

July 17, 2025
مضامین

حسد کا جذبہ زندگی تباہ کردیتا ہے فکر وفہم

July 17, 2025

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دورِ حاضر میں انسان کی حُرمت دیدو شنید

July 17, 2025

ملک و جہان کی خبروں سے رہیں اپڈیٹ

نیوز لیڑ ای میل پر پائیں

پالیسی

  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط
  • ڈیٹا پالیسی
  • پرائیویسی پالیسی
  • استعمال کرنے کی شرائط

سیکشن.

  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت
  • اداریہ
  • برصغیر
  • بین الاقوامی
  • تعلیم و ثقافت

مزید جانیں

  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
  • ہمارے بارے میں
  • رابطہ
  • فیڈ بیک
  • اشتہارات
Facebook

Facebook

Twitter

Twitter

Youtube

YouTube

Instagram

Instagram

روزنامہ کشمیر عظمیٰ کی  ویب سائٹ  خبروں اور حالات حاضرہ کے حوالے سے جموں وکشمیر کی  اردو زبان کی سب سے بڑی نیوز ویب سائٹ ہے۔ .. مزید جانیں

© GK Communications Pvt. Ltd.. All Rights Reserved.
Welcome Back!

Sign in to your account

Username or Email Address
Password

Lost your password?