سرینگر//سید علی گیلانی کے دست راست محمد اشرف صحرائی کو با ضابطہ طور پر انتخابات کے ذریعے آئندہ3برسوں کیلئے تحریک حریت کا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے،جبکہ20نفری مجلس شوریٰ کو بھی تشکیل دیا گیا ہے۔ اس سے قبل تحریک حریت کی مجلس شوریٰ نے امسال19مارچ کو محمد اشرف صحرائی کو سید علی گیلانی کی علالت کے بعد عبوری چیئرمین نامزد کیا تھا۔ذرائع کے مطابق مائسمہ میں واقع تحریک حریت کے ضلع دفتر میں اتوار کو ایک تقریب منعقد ہوئی،جس کے دوران گزشتہ3ماہ کے دوران انتخابی عمل کو اختتام پذیر کرتے ہوئے ووٹوں کے اعداد وشمار جمع کئے گئے۔محمد اشرف صحرائی کو 433میں سے کل 410ووٹ حاصل ہوئے،جبکہ امیر حمزہ16 ووٹوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہے۔ معلوم ہوا ہے کہ اس موقعہ پر20رکنی مجلس شوریٰ کو بھی تشکیل دیا گیا،جس میں پلوامہ،کپوارہ،بارہمولہ اور سرینگر کے3 تین ممبران شامل ہونگے۔ بعد میں تحریک حریت کے سنیئر لیڈر شاہ ولی محمد نے محمد اشرف صحرائی کو حلف دلا یا۔ اگر چہ اس سلسلے میں سید علی گیلانی کو حلف دلانا تھا،تاہم گزشتہ کئی روز سے انکی خراب صحت کی وجہ سے وہ تقریب میں شامل نہ ہو سکے۔ اس موقعہ پر صحرائی نے خطاب کے دوران ریاست کی سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔بعد میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے محمد اشرف صحرائی نے واضح کیا ’’اگر چہ مزاحمتی خیمے نے آئین ہند کو مسترد کیا ہے،تاہم مستقل شہریوں کے قانون کا دفاع اس لئے ضروری ہے،تاکہ ریاست کی ڈیموگرافی کو تبدیل نہ کیا جاسکے،جس سے مسئلہ کشمیر کی ہیت تبدیل ہوگی‘‘۔ تحریک حریت چیئرمین نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر صرف تحریک حریت کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ ریاست کے جملہ عوام کا مسئلہ ہے اور اس کی خاطر دی جارہی قربانیوں کی حفاظت کرنا تمام لوگوں کی اصولی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مسئلہ کشمیر دن بہ دن ایک سنگین رخ اختیار کرتا جارہا ہے، لہٰذا تنظیمی معاملات کے ساتھ ساتھ یہ مسئلہ ہمارے لیے بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جہاں یہ ہمارے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں وہیں یہ ہمارے لیے موت و حیات کا معاملہ بھی ہے۔ صحرائی نے کہاکہ ریاستی عوام نے بھارت سے آزادی کی خاطر 1947سے ہی بے شمار مالی اور جانی قربانیاں دی ہیں جبکہ اس دوران اس کے حل کی مانگ کرتے ہوئے ریاستی عوام کے ساتھ ساتھ مزاحمتی قیادت سے وابستہ لیڈران نے بھی زندان خانوں میں شب و روزکاٹے۔ انہوں نے بتایا کہ ریاستی عوام نے تحریک آزادی کی خاطر بے انتہا قربانیاں پیش کی ہیں، لہٰذا ان کی حفاظت کرنا ہمارا فرض ہے اور اس کاز سے پیچھے ہٹنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ا نہوں نے کہا کہ اگر چہ اصولی اور عملی طور پر ہم لوگ آئین ہند کو تسلیم نہیں کرتے ہیں جس کی وجہ سے ہمیں مارااور پیٹا جارہا ہے، جیلوںمیںسڑایا جارہا ہے تاہم آرٹیکل 35Aجو کہ 1927سے ہی مہاراجہ کے دور سے چلاآرہا ہے اور جس کی توثیق ریاست کی آئین ساز اسمبلی نے کی ہے، لہٰذا آج اس شق کو آئین ہند سے ہذف کرکے بھارت میں برسراقتدار جماعت ریاست کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنے کی کوشش کررہی ہے،اور ’’اپنی جارحیت پیش کر رہی ہے‘‘۔سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ پر چوٹ کرتے ہوئے تحریک حریت کے نو منتخب چیئرمین نے کہا کہ جو لوگ آج ریاست کی خصوصی پوزیشن کے دفاع پر واویلا کررہے ہیں،انہوں نے اپنے گریباں میں شاید جھانکا نہیں اور نہ ہی اپنی جماعت کی تاریخ کا مطالہ کیا ہے۔صحرائی نے کہا’’ہمیں ان لوگوں کی طرح نہ ہی اقتدار چاہے،اور نہ ہی انتخابات میں شرکت کرنی ہے،اس لئے انہیں چاہے کہ وہ مزاحمتی خیمے پر اپنے تاثرات دیتے ہوئے ماضی میں اپنی کارستانیوں پر نظر ڈالے‘‘۔ ان کا کہنا تھا’’مزاحمتی جماعتیں حصول حق خود ارادیت کیلئے برسر جدوجہد ہے،تاہم وقتی طور پر جو مسائل دانستہ طور پر ابھارے جا رہے ہیں،ان کا تدارک کرنا بھی ضروری ہے،کیونکہ وہ مسئلہ کشمیر کے شاخ ہائے ہیں‘‘۔ان کا کہنا تھا’’ وقت کا تقاضا ہے کہ ہنگامی زخموں ،جن سے خون ٹپک رہا ہے پر مرہم لگائی جائے‘‘۔ اتحاد کو وسعت دینے کا مشورہ دیتے ہوئے صحرائی نے کہا کہ اتحاد میں طاقت ہے،اور جب تمام لوگ اور مزاحمتی لیڈر یک زباں میں اپنے حق کا مطالبہ کرینگے تو اس میں وزن بھی پیدا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس سے قبل بھی انہوں نے اتحاد کو مزید توسیع دینے کی بات کئی ہے،اور وہ پھر اس کو دہرا رہے ہیں۔